فیض کی یاد میں — ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں

فیض احمد فیض کی پیدائش 13 فروری 1911 کو ہوئی اور جب جب یہ دن آتا ہے ایک ایسی دنیا کا تصور سامنے آ جاتا ہے جس میں سبھی انسان سماجی اور معاشی طور پر برابر ہوں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

گوہر رضا

فیض کے یوم پیدائش (13 فروری) پر ان کی یاد نہ آئے، نا ممکن ہے۔ ان کی یاد اور یہ شعر نہ یاد آئے ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

فیض کی پوری زندگی ، اس کوئے یار اور سوئے دار کے بیچ کٹی۔ خاص طور سےآزادی کے بعد تو یہ کش مکش پاکستان میں ہزاروں کمیونسٹوں ، عالموں، شاعروں ، صحافیوں اور ہر صوبے کے بہترین ذہن رکھنے والوں کو جھیلنی پڑی ۔’جھیلنی پڑی‘ شائد صحیح الفاظ نہیں ، کیونکہ ان لوگوں نے سماجی اور سیاسی برائیوں کے خلاف بنا لاگ لپیٹ کے اور بے خوف وخطر پوری ذمہ داری کے ساتھ آواز بلند کرنے کی راہ خود ہی چنی تھی۔ پاکستان میں اس راہ کی اگلی صفوں میں فیض ، حبیب جالب اور احمد فراز جیسے شعراء شامل تھے۔ ان لوگوں نے سوچ سمجھ کر ، خطروں کے مکمل احساس کے ساتھ یہ راہ چنی تھی۔یہ راہ تھی جس پر خطرے لا تعداد تھے اور منزل تھی ایک بہتر ، انسان برابری کی بنیاد پر سمجھ کی تشکیل۔

ایک بہتر سمجھ اور بہتر بنیاد کے خواب کی تشکیل ہی وہ اثاثہ ہے جس نے فیض کو فیض بنایا ، اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا اور کوئے یار کی آسائشیں چھوڑ کر سوئے دار کی طرف گامزن رہنے کی ترغیب اور حوصلہ دیا۔ان کی پوری زندگی اور شاعری اس ’ سوسلشٹ سماج‘ کے لئے وقف تھی جس میں سب انسان سماجی اور معاشی طور پر برابر ہوں گے اور انسان انسان کا استعمال نہیں کرے گا ۔ یہ دنیا جنگوں سے پاک ہوگی، خون خرابے سے پاک ہوگی۔

فیض اپنے دور کے باقی شعراء سے اس لئے بھی زیادہ بڑے قد کے دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے پرانی رسموں ، حکایتوں ، تشبیہات اور تعلیمات کا بھر پور استعمال کیا مگر جو بھی لفظ یا اشاریہ یا تشبیہ استعمال کی اسی کو نئے معانی اور نئے آیام دئیے۔ مثال کے طور پر وہ غالب کے شعر کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اسے نیا موڑ دے دیتے ہیں ۔

اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن

دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

مگر پہلے اس’ کوئے یار‘ کو غور سے دیکھیں کہ یہاں فیض نے کیسی محفل آراستہ کی ہے۔ کون کون سے ’مردود حرم‘ ہیں جن کو فیض نے مسند پہ بٹھا رکھا ہے۔ فیض کا کوئے یار 18ویں اور 19ویں صدی کے معشوق کا آستانہ نہیں ، کسی رقاصہ کا کوٹھا نہیں جہاں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں زندان اور دار و رسن کی بات کی جائے اور دیوان مکمل کر لیا جائے۔ فیض کے کوئے یار میں عوام ہیں ، مزدور ہیں ،کسان ہیں ، ملک کی آزادی کے لئے جدو جہد کرتے ’ رقیب‘ جو آزادی کی پری کے لئے سب کچھ قربان کر رہے تھے، جیلوں میں قید ان کے رفیق ہیں ، جان قربان کرتے ہوئے ایرانی طلباء ہیں، نسلی استحصال کے خلاف قربانیاں دیتے افریقہ کے جانباز ہیں ، لبنان کی ’ قامت لیلیٰ‘ والی ’دختر‘ اور غازی نوجوان ہیں اور پاکستان کے ’مردود حرم‘ ہیں جن کو فیض ’مسند‘ پہ بٹھانے کا خواب دیکھتے ہیں۔

فیض کی نظم ’انتساب‘ پر نظر ڈالیں تو اس کوئے یار میں ’ریل بان‘ ہیں ، ’پوسٹ مین‘ ہیں، ’ افسردہ جان کلرک‘ ہیں ، ’تانگے والے ‘ ہیں، وہ ’دہقن‘ ہے ’جس کی بیٹیوں کو ڈاکو اٹھا لے گئے‘، ’بھولے طالب علم‘ ہیں ، جو وہاں پہنچے جہاں ’بے انت راتوں کے سائے‘ بٹ رہے تھے، ریاکاروں کے سجنے سجانے والے ’جسم ‘ ہیں ۔ وہ وطن ہے جو خزاں کی مار سے ’زرد پتوں کا بن‘ ہو گیا ہے، جو ’درد کی انجمن ‘ کی مانند ہے، یا وہ وطن ہے جس میں سر جھکا کر چلنے کی رسم رائج ہے۔

فیض نے اس کوئے یار میں بار بار درد کی ایک ایسی انجمن سجائی ہے جو زندہ ہے، ہمارے آس پاس ہے، اور سماجی و معاشی حقیقتوں پر مبنی ہے۔ ان کا محبوب صرف خیالوں کا محبوب ہے، نہ ہی یہ محبوب انفرادی ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ بارہا وہ لوگ جو ان کے دور کے پاکستان اور اس دور کی سیاسی حقیقتوں وپسِ منظر سے واقف نہیں ، اکثر ان کے اشعار کو انفرادی محبوب کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں ۔ میں اسے فیض کی کمزوری نہیں ان کے کلام کی طاقت مانتا ہوں ۔ ان کی عظمت کے سامنے وہ بھی سر جھکاتے ہیں جو فیض کی سیاسی سمجھ ، یقین اور عملی زندگی سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ میں نے بارہا ان لوگوں کو جو ’سوشلزم‘ اور ’کمیونزم‘ کے نام سے ہی بدک جاتے ہیں فیض کی نظموں اور غزلوں کو سنتے، سناتے، اور اگر کوئی گا رہا ہے تو جھومتے دیکھا ہے۔

اردو ادب میں ’جدیدیوں‘ کا پورا خیمہ فیض کی عظمت کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہے۔ میں نے مذہبی شدت پسندوں کو ’ ہم جنہیں سوز محبت کے سوا، کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں ‘ پر داد دیتے سنا ہے ۔ فیض شفق حقیقتوں کو جس نرم زباں میں لکھتے ہیں ، ان سے پہلے کے بہت سے شعراء کی شاعری میں ملتا تو ہے، مثال کے طور پر میر تقی میر کے یہاں (موسم آیا تو نخل دار پہ میر، سر منصور کا ہی بار آیا) یا فانی کے یہاں (بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا ، وہ پابند قفس جو فطرتا ًآزاد ہوتا ہے) ، مگر گاہے بگاہے، فیض کی مکمل شاعری اسی نرم لہجے اور زبان کے لئے وقف نظر آتی ہے۔

آج کے ہندوستان میں فیض کی شاعری کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ آج ہندوستان اسی سیاسی دور سے گزر رہا ہے جس دور سے پاکستان گزر چکا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہم بڑی تیزی سے فسطائیت (Fascism) کی طرف قدم برھا رہے ہیں ۔ مذہبی جنون جس نے پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی ، اور اب تک کھیل رہا ہے، موجودہ سرکار کے دور میں وہی جنون ہمارے ملک کی گلیوں اور سڑکوں پر اتر آیا ہے۔ اس جنون سے زور آزما عوام کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، اور ایسی ہر تحریک میں چاہے اس کا پیمانہ چھوٹا ہو یا بڑا، جہاں بھی اردو اور ہندی سمجھی بولی جاتی ہے، فیض کی شاعری کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ میں پورے ملک میں ایسی بے شمار تحریکوں میں شامل ہوا ہوں اور شاید ہی کوئی ایسی میٹنگ یا جلوس ہو جس میں فیض احمد فیض اپنی نظموں یا غزلوں کے ذریعہ شریک نہ ہوئے ہوں۔ فیض کو گزرے کئی برس ہو گئے مگر وہ آج بھی ہمارے ہم قدم ہیں۔

فیض کی ہر نظم، ہر غزل، ہر شعر اور ہر مصرع ہماری مشترکہ میراث ہی نہیں ہمارا اثاثہ بھی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ فیض کی شاعری کو پاکستان میں تو ban نہیں کیا گیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے وقتوں میں ہندوستان میں ban کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ آج بھی نوجوان نسلوں کے دل و دماغ کو گرما رہی ہے، انھیں وہ خواب دیکھنے پر مجبور کر رہی ہے جو فیض اور ان کے رفیقوں نے دیکھا تھا۔ آئیے ان کے یوم پیدائش پر انھیں ’رسمِ دعا‘ بھول کر یاد کرتے ہیں۔ فیض دعوتِ سخن دے رہے ہیں ہم سے کہہ رہے ہیں کہ ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ اور یہ ’تھوڑا وقت بہت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Feb 2018, 9:20 PM
/* */