راجیش ریڈی: انسانیت کے مقدس جذبے کا شاعر... جمال عباس فہمی

راجیش ریڈی مشاعروں میں فراق گورکھپوری، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، کیف بھوپالی اور بشیر بدر جیسے شعرا کا کلام سن کر اردو کے جادو میں گرفتار ہو گئے۔

<div class="paragraphs"><p>راجیش ریڈی</p></div>
i
user

جمال عباس فہمی

اردو ادب کی رنگا رنگ دنیا میں جہاں مسلمان شعرا کی اکثریت نظر آتی ہے، وہاں ہندو اور دیگر غیر مسلم شعرا کی خدمات  بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اردو زبان تو ویسے بھی گنگا جمنی تہذیب کی آئینہ دار رہی ہے، جس میں ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ شامل ہو کر اسے مالا مال کرتے رہے ہیں۔ کلاسیکی دور میں پنڈت دیا شنکر نسیم، برج نارائن چکبست، پنڈت رتن ناتھ سرشار، تلوک چند محروم اور دیگر نے غزل اور نثر کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ جدید دور میں پنڈت جگن ناتھ آزاد، آنند نارائن ملا اور فراق گورکھپوری نے اردو شاعری کو رومانیت اور فلسفیانہ گہرائی عطا کی، تو گلزار نے  فلمی نغموں اور غزلوں سے اردو کو عوامی سطح پر زندہ رکھا۔ معاصر زمانے میں چندربھان خیال، کرشن کمار طور، کرشن بہاری نور، جینت پرمار، بی ایس جین جوہر، پنڈت آنند موہن گلزار زتشی اور دیگر ہندو شعرا نے انسانیت کے مقدس جذبے کو اپنی شاعری کا محور بنا کر اردو کو مزید جامع اور انسانی بنایا ہے۔ راجیش ریڈی بھی اسی سنہری کڑی میں شامل ہیں۔ ان کی شاعری اس بات کی زندہ مثال ہے کہ اردو صرف کسی ایک مذہب کی میراث نہیں بلکہ ہندوستان کی مشترکہ ثقافتی دولت ہے، جس میں ہندو شاعر بھی برابر کے شریک ہیں۔

راجیش ریڈی 22 جولائی 1952 کو ناگپور (مہاراشٹر) میں پیدا ہوئے۔ خاندانی جڑیں حیدرآباد میں ہیں، مگر پیدائش ننہیال میں ہوئی۔ والد شیش نارائن ریڈی سرکاری ملازم اور ریڈیو کے گلوکار تھے۔ تبادلے پر جے پور آئے تو پی این ٹی کالونی میں رہے، جو چھوٹا ہندوستان کی مانند تھی۔ جہاں مختلف زبانیں، مختلف مذاہب کے لوگ ایک گھر کی طرح رہتے تھے۔ یہ مل جل کر رہنے کا ماحول راجیش ریڈی کے انسانیت سے عشق اور ان کے تخلیقی سفر کی بنیاد بنا۔ والد نے ’راجستھان ترون کلاکار پریشد‘ (بعد میں شروتی منڈل) جیسی تنظیم قائم کی، جس کے کنسرٹس میں استاد بسم اللہ خان، پنڈت روی شنکر، پنڈت بھیم سین جوشی، استاد ولایت علی خاں، استاد اللہ رکھا اور استاد امجد علی خاں جیسی عظیم ہستیاں آتی تھیں۔ اس طرح موسیقی راجیش ریڈی کے رگ و پے میں اتری۔ وہ خود گلوکار اور موسیقار ہیں۔ وہ موسیقی کے شوقین خاندان میں شاعری کرنے والے پہلے شخص ہیں۔ راجیش ریڈی نے راجستھان یونیورسٹی سے ہندی ادب میں ایم اے کیا۔ گریجویشن کے دنوں میں گیت لکھنے اور اسٹیج پر پڑھنے کا شوق جاگا۔ ان کے سب سے پہلے گیت کا مکھڑا ہی فلسفیانہ گہرائی لئے ہوئے ہے:

زندگی کی بستی میں مشکلوں کا میلا ہے
آدمی اکیلا تھا آدمی اکیلا ہے


مشاعروں میں فراق گورکھپوری، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، کیف بھوپالی اور بشیر بدر جیسے شعرا کا کلام سن کر اردو کے جادو میں گرفتار ہو گئے۔ مولوی اقبال احمد سے باقاعدہ اردو لکھنا پڑھنا سیکھا اور غزلیں رسالوں میں بھیجنا شروع کیں جو شائع ہونے لگیں۔ انہیں غزل گوئی بہت محبوب ہے۔ انہوں نے کہا بھی ہے کہ ’’میں نے شروع میں غزل کو اپنایا، بعد میں غزل نے مجھے اپنا لیا۔‘‘ عمر سیفی سے غزل گوئی کے گر سیکھے، ندا فاضلی کو فلسفی رہنما مانتے ہیں۔ معروف ناقد گوپی چند نارنگ نے ان کی شاعری کے محاسن کی کھل کر تعریف کی ہے۔ ویودھ بھارتی آل انڈیا ریڈیو ممبئی سے  اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ جے پور کے رنگ منچ پر 10 سال ڈراموں کی تحریر و ہدایت کی۔ ان کی ہدایت کاری والے ڈرامے ’بھومیکا‘ کو بہترین ڈرامہ کا انعام ملا۔ ملک و بیرون ملک مشاعروں میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ جگجیت سنگھ، پنکج ادھاس جیسے معروف گلو کاروں کی آوازوں میں ان کی غزلیں گونجیں۔ ان فنکاروں کی البمس میں راجیش ریڈی کا کلام شامل رہا ہے۔ غالب، کبیر اور جے دیو کے کلام کو انہوں نے موسیقی سے سجایا ہے۔

راجیش ریڈی کی شاعری سادہ، گفتگو کی سی ہے۔ وہ مشکل الفاظ سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مشکل زبان انہیں آتی ہی نہیں ہے۔ ان کے 3 شعری مجموعے ’اڑان‘، ’وجود‘ اور ’یہ جو زندگی کی کتاب ہے‘ شائع ہو چکے۔ ان کی شاعری ذاتی غم سے شروع ہو کر کائناتی سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ ریڈی کی شاعری دل کا معاملہ نہیں ہے۔ وہ دل لگنے یا دل ٹوٹنے کی وجہ سے شاعر نہیں بنے بلکہ شاعری اور موسیقی ان کے خون میں موجزن ہے۔ ریڈی کی شاعری ذاتی اور کائناتی دکھوں کے احساس کی شاعری ہے۔


معروف شاعر اور راجیش ریڈی کے فلسفیانہ گرو ندا فاضلی کہتے ہیں ’راجیش کی غزل، غزل کے عام مزاج کی طرح شاعر کے ذاتی غم و خوشی کی رومانیت سے دور ہے۔ جہاں کہیں ان کی پرچھائیاں پڑتی بھی ہیں تو اس طرح کہ وہ ذاتی نہ ہو کر کائناتی محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں غم اور خوشی دونوں دوسرے کے غم و خوشی تک پہنچنے کی آنکھیں ہیں۔ ان کی شاعری کے تیور شخصی ہیں، لیکن یہ ان حد بندیوں سے آزاد ہیں جو لفظوں کو جذباتی دھندلکوں میں گم کر دیتی ہے۔‘‘

مشہور اردو ناقد گوپی چند نارنگ کا ان کی شاعری کی خصوصیات پر کہنا ہے کہ ’’راجیش ریڈی اس احساس سے متصف ہیں کہ عام تجربے کو شعر میں ڈھال دیتا ہے۔ راجیش ریڈی کا بنیادی پیمانہ انسان ہے۔ اسی تصور کی بنتی بگڑتی توقعات سے جو تصورات پیدا ہوتے ہیں، راجیش ریڈی کی شاعری انہی سے عام فہم پیکر تراشتی ہے۔ اس دنیا میں جو کجی اور دیانت ہے، تہذیب کی چکاچوندھ کے پیچھے جو شر اور خبث، فتنہ و فساد ہے، ظاہر و باطن میں جو فرق ہے، راجیش ریڈی کا شعری ذہن اس پر سوچتا اور حیران ہوتا ملے گا۔‘‘ ان کے یہ اشعار اس کی زندہ مثالیں ہیں:

مرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کر دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے

یہ شعر معصومیت کے کھو جانے کے خوف کو بیان کرتا ہے، جہاں بچہ دنیا کی سفاکی دیکھ کر بڑا ہونے سے گھبراتا ہے۔ یہ مادیت زدہ معاشرے کی عکاسی ہے۔

یہ سارے شہر میں دہشت سی کیوں ہے
یقیناً کل کوئی تہوار ہوگا

یہاں تہواروں کی آڑ میں دہشت، فرقہ واریت اور سیاسی استحصال پر تلخ طنزہے۔

سر قلم ہوں گے کل یہاں ان کے
جن کے منہ میں زبان باقی ہے

اس شعر میں اظہار رائے کی آزادی پر حملوں  اور آمریت کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے۔

دنیا کو ریشہ ریشہ ادھیڑیں رفو کریں
آ بیٹھ تھوڑی دیر ذرا گفتگو کریں

یہاں تقسیم شدہ دنیا میں مکالمے کی ضرورت، رفو کا خوبصورت استعارہ موجود ہے۔

اب وہ دنیا عجیب لگتی ہے
جس میں امن و امان باقی ہے

پر آشوب دور کی حقیقت  کو بیان کرتا شعر کہ جہاں انسان بد امنی کا عادی ہو چکا ہے اورامن اسے بے چین کرتا ہے۔

اس عہد کے انسان میں وفا ڈھونڈھ رہے ہیں
ہم زہر کی شیشی میں دوا ڈھونڈھ رہے ہیں

اس عہد میں وفاداری کی تلاش اسی طرح ہے جیسے زہر میں دوا ڈھونڈھنے کی کوشش۔

دنیا کو سمجھ لینے کی کوشش میں لگے ہم
الجھے ہوئے دھاگے کا سرا ڈھونڈھ رہے ہیں

ان کا یہ شعر فلسفیانہ گہرائی لئے ہوئے ہے۔

بیچ ڈالا ہم نے کل اپنا ضمیر
زندگی کا آخری زیور گیا

راجیش ریڈی کے اس شعر میں اخلاقی گراوٹ  کو بیان کیا گیا ہے۔

آنکھ میں اشک کی آہٹ ہوئی دل چونک اٹھا
کان صحرا کے کھڑے ہو گئے پانی سن کر

جدائی کی نزاکت، صحرا میں پانی کی آہٹ بھی دل کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔

میں نے جس شخص کے آنسو کبھی گرنے نہ دیے
ہنس پڑا وہ بھی مری رام کہانی سن کر

راجیش ریڈی کے اس شعر میں ایثار اور قربانی کے صلے میں بے وفائی اور بے حسی کے مظاہرے کا بیان ہے۔


یہ اشعار راجیش ریڈی کی شاعری کی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے یہاں سادہ زبان میں کائناتی دکھ، سماجی کجی پر حیرت، انسانیت کی تلاش موجود ہے۔ ندا فاضلی اور گوپی چند نارنگ کے تبصروں نے ان کی شاعری کو مزید اعتبار بخشا ہے۔

ہندو شعرا نے اردو کو ہمیشہ امیر کیا۔ چکبست کی وطنیہ، فراق کی رومانیت، گلزار کی جدیدیت اور راجیش ریڈی کی انسانیت پسندی... یہ سب گنگا جمنی تہذیب کی جھلکیاں ہیں۔ آج کے تقسیم زدہ دور میں ان کی غزلیں اتحاد، مکالمہ اور انسانیت کا درس دیتی ہیں۔ راجیش ریڈی جیسے شعرا کی بدولت اردو نئی نسلوں تک زندہ رہے گی۔ ان کی شاعری پڑھ کر دل کہتا ہے کہ انسانیت ہی سب سے بڑا دین ہے اور غزل اس کی سب سے شیریں عبادت۔

ان کے کچھ خوبصورت مگر فکر انگیز اشعار پڑھیے اور سر کو دھنتے رہیے۔

گیتا ہوں قرآن ہوں میں
مجھ کو پڑھ انسان ہوں میں

---

ایسا لگا کہ جیسے دنیا ہی باندھ لی
کچھ اس ادا سے اس نے زلفوں کے بال باندھے

---

جتنی بٹنی تھی بٹ چکی یہ زمیں
اب تو بس آسمان باقی ہے

---

کچھ اپنی جیب سے ہر دن لگانا پڑتا ہے
ہمیں تو روز خسارا کمانا پڑتا ہے

---

دل بھی اک ضد پہ اڑا ہے کسی بچے کی طرح
یا تو سب کچھ ہی اسے چاہیے یا کچھ بھی نہیں

---

شام کو جس وقت خالی ہاتھ گھر جاتا ہوں میں
مسکرا دیتے ہیں بچے اور مر جاتا ہوں میں

---

کسی دن زندگانی میں کرشمہ کیوں نہیں ہوتا
میں ہر دن جاگ تو جاتا ہوں زندہ کیوں نہیں ہوتا

---

ملتے نہیں ہیں اپنی کہانی میں ہم کہیں
غائب ہوئے ہیں جب سے تری داستاں سے ہم

---

میں نے تو بعد میں توڑا تھا اسے
آئینہ مجھ پہ ہنسا تھا پہلے

---

دوستوں کا کیا ہے وہ تو یوں بھی مل جاتے ہیں مفت
روز اک سچ بول کر دشمن کمانے چاہئیں

---

میسر مفت میں تھے آسماں کے چاند تارے تک
زمیں کے ہر کھلونے کی مگر قیمت زیادہ تھی

اجازت کم تھی جینے کی مگر مہلت زیادہ تھی
ہمارے پاس مرنے کے لیے فرصت زیادہ تھی

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔