ترقی پسند نظریہ ساز: سردار جعفری... یومِ پیدائش پر خصوصی پیشکش...علی جاوید

ہمہ جہت شخصیت کے مالک سردار جعفری نے نظموں اور غزلوں کے ذریعے جو اعلیٰ ادبی معیار پیش کیے وہ ان کو صف اول کے شاعروں میں شامل کرتی ہے، آنے والے زمانوں میں ان کی تخلیقات ہماری راہنمائی کرتی رہیں گی

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

علی جاوید

سردار جعفری کی ولادت 29 نومبر 1913ء کو بلرام پور (اتر پردیش) میں ایک علمی اور ادبی سادات گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم خاندانی روایت کے مطابق گھر پر جس میں مذہبی علوم کے علاوہ عربی اور فارسی میں حاصل کی اور پھر بلرام پور سے ہی ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ پاس کر کے اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اس وقت علی گڑھ کے علمی اور ادبی ماحول میں ترقی پسند نظریات کا بول بالا تھا جس کے تحت سردار جعفری پر بھی ان نظریات کا گہرا اثر پڑا اور جلد ہی وہ کمیونسٹ تحریک کے ایک اہم رکن بن گئے اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باعث یونیورسٹی سے نکال دیے گئے اور لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی میں بھی کمیونسٹ نظریات سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے علاوہ اساتذہ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے جن کے درمیان سردار جعفری نے جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی اور اپنی سرگرمیوں کے باعث لکھنؤ یونیورسٹی کے طلباء کی یونین کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ اس دوران سیاست کے علاوہ ان کی ادبی دلچسپیاں بڑھیں اور اس زمانے کے بڑے ادیبوں اور دانشوروں سے بھی گہرے تعلقات پیدا ہوئے جن میں جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی اور فراق گورکھپوری وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ 41-1940 میں جنگ مخالف تحریک میں شامل ہونے اور نظم لکھنے کے الزام میں گرفتار ہوئے اور جیل بھیج دیے گئے۔ ادبی میدان میں 1936ء میں ترقی پسند ادبی انجمن کا قیام ان کے ادبی قد کو نکھارنے میں فیصلہ کن ثابت ہوا جس میں اس طرح شامل ہوئے کہ زندگی کے آخری لمحے تک اس سے منسلک رہے۔

اپنے ابتدائی ادبی اور سیاسی وابستگی کے تحت ان کی تخلیق کا پہلا کارنامہ ’منزل‘ کے عنوان سے 1938ء میں شائع ہوا جو ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے اور ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ 1944ء میں ’پرواز‘ کے نام سے منظرعام پر آیا۔ اپنی نظریاتی وابستگی کے تحت سردار جعفری ان چند ادیبوں میں ہیں جنھوں نے ترقی پسند ادبی نظریات کی سمت کے تعین کا کارنامہ بھی انجام دیا اور اسی مقصد کے تحت 1939 تحریک کے بنیاد گزاروں میں سے ایک سید سبط حسن کے ساتھ مل کر ’نیا ادب‘ نام کا ادبی رسالہ جاری کیا اور 1951 میں ترقی پسند ادبی نظریات پر ایک بھرپور کتاب ’ترقی پسند ادب‘ لکھی جو علمی اور ادبی حلقوں میں آج بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔


جیسا کہ عام طور پر ہم جانتے ہیں کہ ترقی پسند ادبی تحریک 1936ء میں وجود میں آئی جو سماج میں ہر طرح کے ظلم و زیادتی اور محنت کش عوام کے بے جا استحصال کے خلاف پرچم بلند کرنے کا اہم ستون بنی جس نے ادیبوں اور شاعروں کو اپنے جذبات کے اظہار کا ایک مستحکم پلیٹ فارم فراہم کیا۔ چونکہ تحریک کا مقصد محنت کشوں کے حقوق کی وکالت اور سرمایہ داری نظام کی مخالفت پر مبنی تھا اس لیے فطری طور پر سرمایہ داروں نے اس تحریک کو کمزور اور بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے اور ایسے زرخرید ادیبوں کی ذہن سازی کی کہ جن کے ذریعے یہ ثابت کیا جا سکے کہ ادب اپنے سماجی سروکار سے بالاتر ہوتا ہے جو ایک مقصد کے تحت تخلیق نہیں کیا جا سکتا بلکہ ادب تو اپنے ذاتی اظہار کی تسکین کا ذریعہ ہے جسے عوام اور سماج سے جوڑنا ادب کی ادبیت کو مجروح کرنا ہے۔ اس گروہ کے ادیبوں کا رد عمل ہمیں ’ادب برائے زندگی‘ کے نظریے کے خلاف ’ادب برائے ادب‘ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس ضمن میں اگر تمام ترقی پسند ادیبوں میں کسی ایک ادیب نے بھرپور دلائل کے ساتھ ’ادب برائے زندگی‘ کی حمایت میں نظریہ سازی کی تو وہ نام علی سردار جعفری کا ہے۔ یہ کوئی غیر فطری بات نہیں تھی کہ نظریاتی سطح پر ترقی پسند ادب کے مخالفین نے اگر دشمنی کی حد تک کسی ترقی پسند ادیب کے خلاف منظم ہو کر محاذ آرائی کی تو اس کا ہدف سردار جعفری رہے ہیں کیونکہ نظریاتی سطح پر وہ ایسی شخصیت کے مالک تھے جس کا مطالعہ اتنا گہرا تھا کہ جو عالمی سطح پر فلسفیوں اور دانشوروں کے خیالات و نظریات کی بنیاد پر بحث کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور منطقی سطح پر کوئی ترقی پسند مخالف تنقید نگار ان کے مقابلے میں بحث کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔

اپنی تنقیدی بصیرت کے ساتھ سردار جعفری کی نگارشات، خصوصاً شاعری بھی جو شاعری کا معیار پیش کرتی ہیں وہ اعلیٰ تخلیقی عمل کی بہترین مثالیں ہیں۔ اکثر ان کو نعرے بازی کا شاعر کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اپنی نظموں اور غزلوں کے ذریعے انھوں نے جو اعلیٰ ادبی معیار پیش کیے ہیں وہ ان کو صف اول کے شاعروں میں شامل کرتی ہے۔ شاعری کے تعلق سے سردار جعفری عربی اور فارسی کی ادبی روایات کے ساتھ ہندوستان کی قدیم تہذیبی روایات پر قادر ہی نہیں بلکہ عالمی ادبی تاریخ پر بھی نظر رکھتے ہوئے عصری سماجی اور سیاسی مسائل پر بھی گرفت رکھتے ہیں اور ادب کے جمالیاتی پہلوؤں کو ان سے الگ کر کے نہیں دیکھتے۔ ان کا خیال ہے کہ موجودہ سماج میں انسان مشین پر نہیں بلکہ مشین انسان پر حاوی ہے جو ظلم اور استحصال کی علامت بن کر سامنے آتی ہے۔ اس لیے ان کے یہاں ایسی تصویریں بھی ملیں گی:


’’چمنیاں، بھتنیوں کی طرح بال کھولے ہوئے ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں؛ ’’مگر یہی بھتنیاں ہمارے قبضے میں آنے کے بعد شہزادیاں بن جائیں گی اور پھر ہم ’ناچتی چرخیوں‘ اور ’گنگناتی ہوئی تکلیوں‘ اور ’کارخانوں میں مشینوں کے دھڑکتے ہوئے‘ گیت گائیں گی۔‘‘

یہ بات انھوں نے مئی 1953ء میں ’پتھر کی دیوار‘ کی اشاعت کے موقع پر کہی تھی۔ دوسرے ترقی پسند ادیبوں کی طرح سردار جعفری نے بھی 1947ء میں ملک کی آزادی کو صحیح معنوں میں آزادی تسلیم نہیں کیا اور کہا:

کون آزاد ہوا

کس کے ماتھے سے غلامی کی سیاہی چھوٹی

مادرِ ہند کے چہرے پہ اداسی ہے وہی

یا

تم نے فردوس کے بدلے میں جہنم دے کر

کہہ دیا ہم سے کہ گلشن میں بہار آئی ہے

مزدوروں کے استحصال کی منظرکشی کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ماں ہے ریشم کے کارخانے میں

باپ مصروف سوتی مل میں ہے

کوکھ سے جب سے ماں کی نکلا ہے

بچہ کھولی کے کالے دل میں ہے

جب یہاں سے نکل کے جائے گا

کارخانوں کے کام آئے گا

ہاتھ سونے کے پھول اگلیں گے

جسم چاندی کا دھن لٹائے گا

کھڑکیاں ہوں گی بینک کی دوش

خون اس کا دیے جلائے گا

یہ جو ننھا ہے، بھولا بھالا ہے

خونی سرمائے کا نوالہ ہے

پوچھتی ہے یہ اس کی خاموشی

کوئی مجھ کو بچانے والا ہے

اس کے علاوہ انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات اور جنگ پر جو نظمیں کہی ہیں وہ آج بھی اس موضوع پر کہی جانے والی نظموں میں اولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان میں ’کون دشمن ہے؟‘ اور ’صبح فردا‘ اردو کے ادبی شعری سرمائے کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔ ’صبح فردا‘ کے ایک بند میں کہتے ہیں:

محبت حکمراں ہو، حسن قاتل، دل مسیحا ہو

وہ دن آئے کہ آنسو ہو کے نفرت دل سے بہہ جائے

وہ دن آئے یہ سرحد بوسۂ لب بن کے رہ جائے

طویل نظم ’نئی دنیا کو سلام‘ کے علاوہ ان کی مختصر نظمیں جیسے ’پیراہن شرر‘ جن اعلیٰ معیار کی ترجمانی کرتی ہیں وہ سردار جعفری کو جدید اردو شاعری کے صف اول کے شاعروں میں شامل کرتی ہیں۔ ایک جگہ فراق صاحب نے انھیں ’ہسنیا اور ہتھوڑے‘ کا شاعر کہا ہے جو زیادتی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ان کی پوری شاعری کا مطالعہ کیجیے، کہیں بھی سردار جعفری کے یہاں شاعری کا جارحانہ لہجہ نہیں نظر آتا۔ جو شستہ انداز ان کی شاعری میں نظر آتا ہے، وہ کہیں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ اپنے اس خیال کی وضاحت کے لیے اس نظم کی چند لائنیں ملاحظہ کیجیے جو ان کی نرم روی ثابت کرنے کو کافی ہے:

لیکن میں یہاں پھر آؤں گا

بچوں کے دہن سے بولوں گا

چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا

جب بیج ہنسیں گے دھرتی میں

جب کونپلیں اپنی انگلی سے

مٹی کی تہوں کو چھیڑیں گی

میں پتی پتی، کلی کلی

پھر اپنی آنکھیں کھولوں گا


ہمہ جہت شخصیت کا یہ مالک جسے ہم سردار جعفری کے نام سے جانتے ہیں، اس نے دیگر ادبی خدمات کے علاوہ ہندی کے قاری کے لیے میر اور غالب کی شاعری پر کتابیں ترتیب دیں تو انھوں نے کبیر اور میرا بائی پر ’کبیر وانی‘ اور ’پریم وانی‘ جیسی کتابیں بھی لکھیں، جو آج بھی حوالے کی کتابوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اردو ادب کا یہ نظریہ ساز شاعر پہلی اگست 2000ء کو ہم سے رخصت ہوا لیکن آنے والے زمانوں میں اس کی تخلیقات ہماری راہنمائی کرتی رہیں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Nov 2020, 11:11 AM
/* */