اردو ادب میں سنگ میل قائم کرنے والا فکشن نگار: پرو فیسر عبدالصمد
پروفیسر عبدالصمد نے اردو فکشن میں اعلیٰ مقام حاصل کیا، 14 ناول اور 8 افسانوی مجموعے لکھے، ایک ناول پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ملا اور اسے کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا

آج اردو کے ایک ایسے قلمکار کا تذکرہ مقصود ہے جس نے ادبی تخلیقات کے میدان میں کئی سنگ میل قائم کئے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ قلمکار عمومی طور سے اردو قلمکاروں کی طرح اردو کا باقاعدہ اسکالر نہیں رہا نہ اس نے اردو میں ایم اے کیا نہ ایم فل اور نہ کوئی تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی لیکن فکشن نگاری کے میدان میں ایسے ادبی کارنامے انجام دئے کہ معاصر فکشن نگاروں میں وہ بہت اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہے۔ وہ فکشن نگار کوئی اور نہیں بلکہ پرو فیسر عبدالصمد ہیں۔ عبدالصمد اب تک 14 ناول لکھ چکے ہیں جبکہ ان کے تحریر کردہ افسانوں کے 8 مجموعے بھی شائع ہو کر فکشن کے قارئین کی داد و تحسین سمیٹ چکے ہیں۔ ان کے ایک ناول کو ساہتیہ اکادمی نے ایوارڈ کا مستحق گردانا۔ یہی نہیں بلکہ ساہتیہ اکادمی نے اس ناول کو ملک کی 24 زبانوں میں ترجمہ کرا کر شائع بھی کیا۔
ان کی ادبی تخلیقی مہارت اور رجحانات کے سلسلے میں گفتگو کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر، تعلیمی سفر اور تعلیم کے شعبے میں ان کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
عبدالصمد بہار کے اندھواس، نالندہ میں محمد شبلی کے گھر 8 جولائی 1952 میں پیدا ہوئے، جن کا گھرانہ زمین داروں کا گھرانہ تھا اور علاقے میں اپنا ایک الگ مقام اور وقار رکھتا تھا۔ عبدالصمد کی ابتدائی تعلیم مقامی طور پر ہی ہوئی۔ وہ پہلے سائنس کے طالب علم تھے، بعد میں ان کی طبیعت آرٹس کی طرف مائل ہو گئی۔ انہوں نے پالیٹیکل سائنس میں بی اے آنرس کیا۔ 1973 میں انہوں نے مگدھ یونیورسٹی سے پالیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا اور یونیورسٹی بھر میں ٹاپ کیا۔ انہوں نے پالیٹیکل سائنس میں ہی پی ایچ ڈی بھی کی ۔ جہاں تک انکی تدریسی خدمات کا تعلق ہے تو وہ حاجی پور کے آر این کالج اور پٹنہ کے اورئینٹل کالج کے پرنسپل رہے۔ وہ بہار کے راج بھاشا محکمہ میں اردو ترجمہ کاروں اور ٹائپسٹوں کی تقرری کی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ممبر بھی رہے۔ وہ حکومت بہار کی اردو مشاورتی کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ بہار حکومت نے انہیں 20 نکاتی پروگرام کے نفاذ کے لئے قائم اعلیٰ سطحی کمیٹی کا ممبر بھی بنایا تھا۔ عبدالصمد کے ادبی قد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ساہتیہ اکادمی کی مجلس عاملہ اور گیان پیٹھ ایوارڈ کمیٹی کے 1993 سے 1997 تک ایک ساتھ رکن رہے۔
عبدالصمد ادبی میدان میں محض 15 برس کی عمر میں اس وقت داخل ہو گئے تھے، جب انہوں نے اپنی پہلی کہانی لکھی تھی۔ جب وہ محض 20 برس کے تھے تب ان کے افسانوں کے مجموعے ’بارہ رنگوں والا کمرہ‘ کے لئے انہیں 1981 میں اتر پردیش اردو اکیڈمی نے انعام سے نوازا تھا۔ 1983 میں افسانوی مجموعے ’پس دیوار‘ کے لئے بہار اردو اکیڈمی نے انعام کا مستحق سمجھا۔ فکشن نگاری کے میدان میں ان کا ناول ’دو گز زمین‘ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1990 میں اس ناول کو ساہتیہ اکادمی نے ایوارڈ کا مستحق سمجھا۔ ’دو گز زمین‘ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ساہتیہ اکادمی نے اس ناول کا ہندی، انگریزی، بنگلہ، پنجابی، تیلگو، کنڑا، اڑیہ، میتھلی اور کشمیری سمیت ملک کی 24 زبانوں میں ترجمہ کرا کے شائع کیا۔ ساہتیہ اکادمی نے ان کی ادبی خدمات اور شخصیت پر ایک گھنٹے کی فلم بھی ریلیز کی، جبکہ دوردرشن نے ناول پر سیریل بنایا۔
عبدالصمد کا گھر بہار شریف (نالندہ) میں کبھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ان کے ماموں سید محمد عقیل ڈاکٹر شری کرشنا سنہا کی وزارت میں وزیر تھے اور ان کے والد ایک نمایاں سیاسی و سماجی کارکن تھے۔ ان تمام عوامل نے ان کی ذہنی ساخت پر اثر ڈالا۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ سیاسیات کے طالب علم رہے اور سیاسیات کی تعلیم بھی دیتے رہے۔ انہوں نے سیاست کی حقیقتوں کو قریب سے دیکھا۔ ان سب کا ان کے اوپر اور ان کے طرز تحریر پر گہرا اثر پڑا۔ ناول ’دو گز زمین‘ نہ صرف تقسیم ہند کی کہانی ہے، بلکہ ملک کی اندرونی سیاست، فرقہ واریت اور بنگلہ دیش کے قیام کی بھی کہانی ہے۔ معروف اردو نقاد پروفیسر محمد حسن عبدالصمد کے ادبی رجحان کے سلسلے میں کہتے ہیں، ’’1980 کے آس پاس صمد کی تحریر میں ایک اہم تبدیلی آئی۔ اچانک انہوں نے انتہائی علامتی اور تجریدی مختصر کہانیاں چھوڑ دیں اور زیادہ سماجی اہمیت اور سیاسی طور پر متعلقہ معاصر مسائل کی طرف رخ کیا۔ مصنف اپنے گرد و نواح کے واقعات سے سخت پریشان تھا- فرقہ وارانہ فسادات، بدعنوانی، مفلسی، غربت اور انسانی اقدار کی افسوسناک تنزلی۔ بلا شبہ یہ دور ایک بہت پرانی دہائی تک پھیلا ہوا تھا جس نے 1971-72 کی ہند و پاک جنگ، بنگلہ دیش کی تشکیل اور اس ملک سے مہاجرین کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کا مشاہدہ کیا— جنہیں تذلیل کے لہجے میں ’بہاری‘ کہا جاتا ہے۔ یہ انسانی مصائب کی شدت، جو اتفاقاً ایک تجرباتی تجریدی فنکار کو ایک ذمہ دار اور پرعزم مصنف میں پختگی کی نشاندہی کرتی ہے۔‘‘
اس ناول کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے، ’’اچانک بی بی صاحبہ اٹھیں اور کمرے کے دروازے کو پیٹنے لگیں۔ پاکستان، ارے او نامراد تو میرے بچے کو کھا گیا۔ میرے خاندان کو برباد کر دیا۔ اب میری بچی کو تو نہ کھا۔ خدا کے لئے یہاں سے واپس چلا جا۔ تجھ پر خدا کی مار۔ میں تیرے ہاتھ جوڑتی ہوں پاکستان۔ اب تو میرا پیچھا چھوڑ دے۔ میں نے تو تیرا کچھ نہیں بگاڑا۔ آخر تو مجھے کون سے گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔ پاکستان۔ اے پاکستان۔‘‘
صمد کا ایک اور ناول ’کشکول‘ بھی اردو ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’کشکول‘ اردو کا پہلا ناول ہے جو کووڈ 19 اور لاک ڈاؤن کے موضوع پر لکھا گیا۔
’کشکول‘ کے تعلق سے گوپی چند نارنگ کا کہنا ہے کہ ’’...عبدالصمد نے اپنے ناول کشکول میں ایک نیا تجربہ کرنے کی جسارت کی ہے اور بہت کامیابی کے ساتھ۔ انہوں نے گداگروں کی زندگی کے پس منظر میں کووڈ 19 پر تخلیقی انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ناول کے مطالعے سے یقیناً ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ کووڈ 19 پر بہت کچھ لکھا جائے گا مگر مجھے یقین ہے کہ ’کشکول‘ کی انفرادیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔‘‘
کشکول معاشرے کے پسماندہ طبقات، خاص طور پر فقیروں اور مہاجروں کی تکالیف کو بیان کرتا ہے۔ صمد نے اس ناول کو وبائی مرض کی پہلی لہر کے دوران مکمل کیا۔ انہوں نے کہیں بھی وبائی مرض کا نام نہیں لیا۔ جس کی وجہ سے ناول کا دائرہ لا محدود ہو گیا۔
کشکول میں راجو چچا اور شبراتی کی زندگیوں کا موازنہ ٹھیکیدار صاحب اور راشد حسین سے کیا گیا ہے، جو معاشرے کے بالائی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ناول دکھاتا ہے کہ کس طرح امیر بھی غریبوں کی طرح بے بس ہیں۔ وبائی مرض نے سب کو متاثر کیا لیکن امیر اور غریب اسے مختلف طریقے سے قبول کرتے اور نمٹتے ہیں۔ صمد نے ناول کے کرداروں کو اس طرح ترتیب دیا کہ ان کی متوازی زندگیوں کا تضاد نمایاں ہو۔
پروفیسر عبدالصمد کی فکشن نگاری اور ان کے موضوعات کے بارے میں معروف فکشن نگار ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کا کہنا ہے کہ ’’عبدالصمد کے ناول اور افسانوں کے موضوعات موجودہ دنیا کے مسائل ہیں۔ خواہ ان کا تعلق بہار سے ہو یا مہاراشٹر سے، خلیجی ممالک سے ہو، فلسطین یا پاکستان ہے ہو، امریکہ اور یورپ کا مسئلہ ہو یا نئی صدی کے نئے مسائل، سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہو یا نئی نسل کا بدلتا ہوا روپ، رشتوں کی پامالی ہو یا مذہبی جنون، سیاسی بد عنوانیاں ہوں یا مذہب کے نام پر سیاست، اعلیٰ اور پسماندہ ذاتوں کا ٹکراؤ، محکمہ پولیس کے کارنامے ہوں یا فقیروں کی بے بسی، کورونا کا قہر ہو یا ہمارا ہانپتا کانپتا میڈیکل نظام، دہشت گردی کے واقعات ہوں یا ایک قوم کو دہشت گرد بنانے کا پروپیگنڈا، غرض وہ سارے معاملات جن کا تعلق موجودہ زمانے سے ہے عبدالصمد کے فکشن یعنی ناولوں اور افسانوں میں جا بجا ملتے ہیں۔‘‘
ناول ’دھمک‘ کا یہ اقتباس ان کی الفاظ و بیان پر گرفت، تحریر کا بہاؤ اور منظر نگاری کے خوبصورت انداز کا ثبوت ہے: ’’لوگ سمجھاتے سمجھاتے تھک چکے تھے لیکن اس کی مٹھیاں اتنی سختی سے بھنچ گئی تھیں کہ کھلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ تین دنوں پہلے آنکھوں میں جو خون اترا تھا اس کی سرخی کم ہونے کے بدلے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ سارے جسم پر تشنج کی ایک کیفیت۔ رہ رہ کر اس کے منھ سے غرانے کی آواز نکلتی جو کبھی کبھی ان الفاظ کی شکل اختیار کر لیتی۔ بدلہ، میں بدلہ لے کر رہوں گا۔ انہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا، مجھ سے بچ کر وہ کہیں نہیں جا سکتے۔ اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘
انکے ایک ناول ’خوابوں کا سویرا‘ کا ڈان آف ڈریمز کے نام سے انگریزی میں ترجمہ ہوا ہے۔ ان کے دیگر ناولوں میں ’بکھرے اوراق‘، ’مہاتماُ اور ’مہاساگر‘ بھی ہیں، جبکہ ’بارہ رنگوں والا کمرہ‘، ’پس دیوار‘، ’سیاہ کاغذ کی دھجیاں‘، ’میوزیکل چیئر‘ اور ’آگ کے اندر راکھ‘ ان کے تحریر کردہ افسانوں کے مجموعے ہیں۔ انہوں نے پالیٹیکل سائنس سے متعلق دو کتابیں بھی لکھی ہیں۔ انہوں نے اپنی یادداشت بھی قلم بند کی ہے۔ صمد وہ واحد با حیات فکشن نگار ہیں جن کی تخلیقات اور شخصیت پر بڑی تعداد میں اسکالرز ایم فل اور پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ان کے ہر ناول پر ایم فل کی جا چکی ہے۔ ہند و پاک کی مختلف یونیورسٹیز میں ان کی نگارشات پر کم و بیش 25 اسکالرز تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔
بڑے پیمانے پر ان کی ادبی تخلیقی خدمات کا بھی اعتراف کیا گیا۔ مدھیہ پردیش حکومت نے انہیں ’اقبال سمان‘ سے نوازا۔ بہار اردو اکیڈمی نے انہیں ’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘ دیا۔ ’غالب ایوارڈ برائے اردو نثر اور ’فروغ اردو بین الاقوامی ایوارڈ‘ کے علاوہ متعدد عالمی اور ملکی ایوارڈ اور اعزازات سے سرفراز کیا جا چکا ہے۔
عبدالصمد بھلے ہی 73 برس کے ہو گئے ہیں لیکن ان کے قلم پر ضعف طاری نہیں ہوا ہے۔ وہ تخلیقی طور پر ابھی جوان ہیں اور ان کا ایک اور ناول اشاعت کے آخری مرحلے میں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔