پروفیسر گوپی چند نارنگ: ایک روشن عہد کا خاتمہ... ڈاکٹر مشتاق صدف

عالمی شہرت یافتہ ادیب و نقاد کا یوں جانا پوری اردو برادری کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ہم سب کے لیے یہ ایک افسوسناک خبر ہے۔ میرا تو ذاتی خسارہ ہے۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ (دائیں) کے ساتھ ڈاکٹر مشتاق صدف
پروفیسر گوپی چند نارنگ (دائیں) کے ساتھ ڈاکٹر مشتاق صدف
user

ڈاکٹر مشتاق صدف

میرے محسن، مربی، کرم فرما اور اردو ادب کے عظیم نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کا امریکہ کے شمالی کیرولینا (North Carolina) میں 15جون 2022 کو انتقال ہو گیا۔ وہ اور ان کی اہلیہ منورما نارنگ دونوں ان دنوں اپنے چھوٹے بیٹے ترون نارنگ کے ساتھ تھے۔ تاجکستان آنے کے بعد بھی ان سے میری مسلسل بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ وہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر کوئی پریشانی آتی تھی، بیمار ہو جاتے تھے تو کسی سے اس کا ذکر بھی نہیں کرتے تھے۔ 20 مئی 2022 سے 30 مئی 2022 تک میں نے کئی بار ان کو فون کیا اور میسیج بھی، لیکن بات نہیں ہو سکی۔ شاید وہ بیمار ہوں گے۔ جب میری ان سے بات31 مئی 2022 کو ہوئی تو میں نے ان کی خیریت معلوم کی۔ کہنے لگے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تھوڑی بہت طبیعت ناساز رہتی ہے جو معمول کی زندگی کا حصہ ہے۔ لیکن ان کی آواز اور گفتگو کے انداز سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ پوری طرح ٹھیک نہیں ہیں۔ میں نے پھر اپنی نئی کتاب "نئی فکریات اور گوپی چند نارنگ" کے سرورق کے تعلق سے بات شروع کی۔ انہوں نے دو سرورق میں سے ایک کی بہت تعریف کی۔ انہوں نے اصغر ندیم سید کے پیش لفظ اور ناصر عباس نیر کی مختصر راۓ کی بڑی پذیرائی کی۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ: ایک روشن عہد کا خاتمہ... ڈاکٹر مشتاق صدف

جون کے ابتدائی ہفتہ میں بھی ان سے گفتگو رہی۔ میری کتاب کے مشمولات اور دیگر دوسرے مسائل پر بھی بات کی اور پہلے کی طرح خوب سمجھاتے رہے۔ کتاب کے سرورق میں اور خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے کچھ مشورے بھی دیئے۔ پھر وہ ٹائٹل جون کے دوسرے ہفتے اور انتقال سے کچھ دن قبل فائنل ہو گیا۔ آخری گفتگو میں انہوں نے ایک بات پر بہت زور دیا تھا اور وہ یہ کہ میں اور موسی رضا ہم دونوں آپسی رنجش اور ناراضگی دور کر لیں۔ دراصل اسی ناراضگی کی وجہ سے کچھ دنوں تک میں نارنگ صاحب سے اور نارنگ صاحب مجھ سے خفا رہے۔ جس کا ذکر اردو والوں نے خوب بڑھا چڑھا کر کیا۔ بعد میں سب کچھ پھر معمول پر آ گیا۔ ادھر ان سے جب بھی بات ہوتی تھی وہ کہتے تھے رضا کو ہماری گفتگو کا علم نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ وہ بہت نالاں ہو جاۓ گا۔ سو میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ جون کے دوسرے ہفتہ میں آنٹی منورما نارنگ سے بھی کئی بار بات چیت ہوئی۔ دونوں کے مربیانہ کردار نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔


عالمی شہرت یافتہ ادیب و نقاد کا یوں جانا پوری اردو برادری کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ہم سب کے لیے یہ ایک افسوسناک خبر ہے۔ میرا تو ذاتی خسارہ ہے۔ میری زندگی کی کوئی بھی کہانی ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ ان جیسے اردو زبان و ادب کے دیوانے اور ادیب و نقاد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ دراصل ان کے جانے سے ایک روشن عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ اردو کے اس ستون کا ذکر ہمیشہ ہوتا رہے گا۔

مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میں نے سب سے زیادہ اپنے محسن پروفیسر گوپی چند نارنگ کی خدمت کی اور سب سے زیادہ ان کے ساتھ رہا اور کام بھی کیا۔ ایک طویل سفر ہے شناسائی اور کرم فرمائی کا۔ ایک طویل سلسلہ ہے محبتوں کا اور ایک طویل داستان ہے اردوزبان و ادب کے تعلق سے جس کا ذکر انشاءاللہ کبھی تحریری طور پر کروں گا۔ دل بہت اداس ہے، غمگین ہے۔ اردو کے اس نامور نقاد، عظیم انسان اور عظیم دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ صاحب کے اس دار فانی سے رخصت ہونے کا غم سب کو ہے۔ انہوں نے بہت سارے شاہکار ادبی کارنامے انجام دیئے۔ دنیا جانتی ہے۔ وہ اردو کے دستخط تھے۔ بین الاقوامی سطح پر اردو کی شناخت اور اس کے سیکولر کردار کو روشن اور مضبوط کرنے والوں میں وہ سب سے آگے رہے۔ اس تعلق سے بھی وہ ہمیشہ زندہ وتابندہ رہیں گے۔ ان کی رحلت زبان و ادب کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے جو ناقابل تلافی ہے۔ ہم سب اس غم میں برابر کے شریک ہیں۔ خدا ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا کرے، ان کی نیکیوں کو پہاڑ کی صورت بنا دے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */