پَلوں میں طے کیا برسوں کا فاصلہ جس نے... سید خرم رضا

عزیز بانو داراب وفا نے 23 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور ابتداء میں ان کا رجحان افسانے اور ناول لکھنے کی طرف تھا۔

تصویر ویڈیو گریب
تصویر ویڈیو گریب
user

سید خرم رضا

میں کم سنی میں بھی گڑیا کبھی نہیں کھیلی

پَلوں میں طے کیا برسوں کا فاصلہ میں نے

حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان کی معروف شاعرہ عزیز بانو داراب وفا نے اپنے اشعار کے ذریعہ برسوں کا فاصلہ پلوں میں طے کیا۔ انہوں نے اس وقت شاعری کے میدان میں قدم رکھا جب یہ میدان شاعرات کے لئے یہ ممنوعہ علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اشعار اپنی تسلی و تشفی کے لئے کہتی تھیں۔ انہوں نے مشاعروں میں شرکت کی اور اپنا کلام پڑھا لیکن اس وقت ادب کے اس گوشے پر شاعروں کی اجارہ داری تھی۔

عزیز بانو داراب کا تخلص وفاؔ تھا اور 23 اگست 1926ء کو بدایوں میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کا تعلق شری نگر کے درابو خاندان سے تھا اور ان کے اجداد اس وقت فرانس کے ساتھ شالوں کی تجارت کرتے تھے۔ 1801ء میں ان کے پردادا فارسی کے مشہور استاد شاعر عزیزالدین آٹھ سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ ہجرت کر کے لکھنو آئے اور یہیں مقیم ہوئے۔ ان کے والد شریف الدین داراب ڈاکٹر تھے۔ ان کا گھرانا اپنی قدیمی روایات کے باوجود تعلیم نسواں کا حامی تھا اور یہی وجہ تھی کہ جب خواتین کا گھر سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا اس وقت عزیز داراب بانو وفا نے تھوبرن کالج سے بی اے اور 1949ء میں لکھنؤ یونورسٹی سے ایم اے کیا۔


عزیز بانو داراب وفا نے 23 سال کی عمر میں اشعار کہنے شروع کر دئے تھے اور ابتداء میں ان کا رجحان افسانے اور ناول لکھنے کی طرف تھا۔ بیگم سلطانہ نے 1960ء میں اندرا گاندھی کی صدارت میں ایک مشاعرہ منعقد کروایا، جس میں عزیز بانو نے بھی شرکت کی۔ جہاں ان کی شاعری کی تعریف خود اندرا گاندھی نے کی۔ بعد میں انہوں نے ریڈیو پروگرام میں بھی اپنے اشعار پڑھے اور مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے ہندوستان اور بیرون ملک کے مشاعروں میں شرکت بھی کی۔ مرحومہ نے اپنا دیوان چھپوانے کی طرف کبھی توجہ نہ دی اور یہی وجہ ہے کہ ان کا شعری مجموعہ ’’گونج‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ 13 جنوری 2005ء کو لکھنؤ میں ان کا انتقال ہو گیا۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اشعار میں نسائی جذبات حاوی رہے لیکن انہوں نے ہر موضوع پر اشعار کہے اور عام لوگوں کے ارد گرد موجود چیزوں کو اپنے احساسات پہنچانے کے لئے اپنے اشعار میں جگہ دی، جس سے ان کے اشعار عام فہم ہوں اور ان کو عام لوگوں سے جو ڑ سکے۔ وہ پوری سنجیدگی اور انتہائی خوبصورتی کے ساتھ نسوانی احساسات کو منظرعام پر لائیں۔ انہوں نے اپنے اشعار میں سورج، دھوپ، سائے، ندی، سمندر وغیرہ کو بہت خوب انداز میں جگہ دی ہے۔ ہندوستانی ثقافت کو انہوں نے اپنے اشعار کی زینت بخشی اور اپنے احساسات عوام تک پہنچانے کے لئے انہوں نے رادھا اور موہن کے کرداروں کو اپنے اشعار میں اس خوبصورتی سے پرویا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔


کبھی گوکل کبھی رادھا کبھی موہن بن کے

میں خیالوں میں بھٹکتی رہی جوگن بن کے

ہر جنم میں مجھے یادوں کے کھلونے دے کے

وہ بچھڑتا رہا مجھ سے مرا بچپن بن کے

میرے اندر کوئی تکتا رہا رستہ اس کا

میں ہمیشہ کے لئے رہ گئی چلمن بن کے

زندگی بھر میں کھلی چھت پہ کھڑی بھیگا کی

صرف اک لمحہ برستا رہا ساون بن کے

میری امیدوں سے لپٹے رہے اندیشوں کے سانپ

عمر ہر دور میں کٹتی رہی چندن بن کے

اس طرح میری کہانی سے دھواں اٹھتا ہے

جیسے سلگے کوئی ہر لفظ میں ایندھن بن کے

اردو شاعری سے فارسی کا دبدبہ ختم کرنے میں اور اشعار کو عوام تک پہنچانے کے لئے انہوں نے جس زبان کا استعمال کیا اس کے بارے میں جتنا لکھا جائے کم ہے۔ پیش خدمت ہے ان کی ایک شاندار غزل۔

پھونک دیں گے مرے اندر کے اجالے مجھ کو

کاش دشمن مرا قندیل بنا لے مجھ کو

ایک سایہ ہوں میں حالات کی دیوار میں قید

کوئی سورج کی کرن آ کے نکالے مجھ کو

اپنی ہستی کا کچھ احساس تو ہو جائے مجھے

اور نہیں کچھ تو کوئی مار ہی ڈالے مجھ کو

میں سمندر ہوں کہیں ڈوب نہ جاؤں خود میں

اب کوئی موج کنارے پہ اچھالے مجھ کو

تشنگی میری مسلم ہے مگر جانے کیوں

لوگ دے دیتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیالے مجھ کو


لہو سے اٹھ کے گھٹاؤں کے دل برستے ہیں

بدن چھتوں کی طرح دھوپ میں جھلستے ہیں

ہم ایسے پیڑ ہیں جو چھاؤں باندھ کر رکھ دیں

شدید دھوپ میں خود سائے کو ترستے ہیں

ہر ایک جسم کے چاروں طرف سمندر ہے

یہاں عجیب جزیروں میں لوگ بستے ہیں

سبھی کو دھن ہے کہ شیشے کے بام و در ہوں مگر

یہ دیکھتے نہیں پتھر ابھی برستے ہیں

بہا کے لے گیا سیلاب راستے جن کے

وہ شہر اپنے خیالوں میں اب بھی بستے ہیں

مآل کیا ہے اجالوں کے ان دفینوں کا

جنہیں چھوئیں تو اندھیروں کے ناگ ڈستے ہیں

عجیب لوگ ہیں کاغذ کی کشتیاں گڑھ کے

سمندروں کی بلا خیزیوں پہ ہنستے ہیں

عزیز بانو داراب وفا کے بارے میں ان کے شعر کی زبان میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ

کسی قدیم کہانی کا اک چراغ ہوں میں

بجھا کے چھوڑ گئی طاق پر ہوا مجھ کو 

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔