ٹوئٹر نے بھی غالب کو کیا سلام، ٹرینڈ میں سلمان خان بھی پیچھے

مرزا غالب کی شہرت و مقبولیت ہی ہے کہ گوگل نے بطور خراجِ عقیدت ان کا ’ڈوڈل‘ بنایا۔ یقیناً مرزا غالب کی شاعری میں ہمہ جہت گوشے دیکھنے کو ملتے تھے۔

تصویر ویپن/قومی آواز
تصویر ویپن/قومی آواز
user

آشوتوش شرما

مغل دور کے آخری عظیم شاعر مرزا اسداللہ خاں غالب جب قرض اور مفلسی کی حالت سے گزر رہے تھے تو انھیں دہلی کے ایک تعلیمی ادارہ میں پڑھانے کی پیشکش کی گئی تھی۔ دراصل مرزا غالب کی شاعری کے پرستار ایک شخص نے دہلی کالج کے پرنسپل سے درخواست کی تھی کہ وہ انھیں ٹیچنگ کی ملازمت پر رکھ لیں۔ یہ درخواست قبول ہوئی اور طے شدہ دن مرزا غالب کالج کے دروازے تک گئے لیکن بلاوقت گنوائے ملازمت کی پیشکش ٹھکرا کر واپس ہو گئے۔

دراصل مرزا غالب کی آمد کی خبر سن کر کالج کے پرنسپل تیز قدموں کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھے اور ان کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ’’محترم غالب، میں اس کالج میں آپ کے پہلے دن پر استقبال کرنے کے لیے آیا ہوں۔ آپ یہاں اپنی خدمات انجام دیں گے۔آج کے بعد سے آپ خود اس یونیورسٹی میں داخل ہوں گے اور آپ کے استقبال کے لیےمیں روزانہ موجود نہیں رہوں گا۔‘‘ ان جملوں میں مرزا غالب کے ہوش اڑا دیے۔ انھوں نے کہا کہ ’’جو ملازمت میرے وقار کو کم کرتا ہے وہ میرے لیے قابل قبول نہیں ہے۔‘‘

کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لیے

کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں

مرزا غالب کی شہرت و مقبولیت ہی ہے کہ گوگل نے بطور خراجِ عقیدت ان کا ’ڈوڈل‘ بنایا۔ یقیناً مرزا غالب کی شاعری میں ہمہ جہت گوشے دیکھنے کو ملتے تھے۔ ان کا یہ مشہور شعر ہی دیکھ لیجیے:

ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

’’بہت طویل عرصہ گزر چکا ہے مرزا غالب کو اس دارِ فانی سے کوچ کیے ہوئے، لیکن اب تک وہ اپنے شیدائیوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ ٹوئٹر پر #MirzaGhalib ہیش ٹیگ #HappyBirthdaySalmanKhan اور #JaiRamThakur سے اوپر اوّل مقام پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے زمانے میں ٹوئٹر ٹرینڈ کو کافی اہمیت حاصل ہے اور غالب کا ٹرینڈ لسٹ میں سرفہرست ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مرزا غالب کے پرستاروں کی تعداد کتنی زیادہ ہے، اور ان پرستاروں نے ٹوئٹر ہینڈل پر انھیں خراج عقیدت پیش کر کے غالب کے تئیں اپنی محبت کا اظہار بھی کر دیا ہے۔

فروری 1869 کو 72 سال کی عمر میں غالب نے دہلی میں آنکھیں موند لیں۔ ان کا انتقال پرانی دہلی واقع چاندنی چوک کے بلیماران میں موجود ان کے گھر پر ہوا جو ’غالب کی حویلی‘ کے نام سے مقبول ہے۔ اب یہ ’غالب میموریل‘ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔