میر ببر علی انیس: مرثیوں کے میر اور گنگا جمنی تہذیب کے پیروکار، یومِ وفات پر خصوصی پیشکش

میر انیس کی ابتدائی تعلیم ان کے گھر میں ہی ہوئی اور والدہ کے بعد مولوی میر نجف علی و مولوی حیدر علی لکھنوی ان کے استاد بنے جنھوں نے غیر رسمی طور پر ان کو ایک مبنی بر مقصد تعلیم دی۔

میر انیس
i
user

کرشن پرتاپ سنگھ

’اردو کے شیکسپیئر‘ اور ’مرثیوں کے میر‘... جی ہاں، اردو ادب کی درباری روایت کی کلائیاں مروڑنے میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے انوکھے شاعر میر ببر علی انیس کو (جو بعد میں میر انیس کے نام سے مشہور ہوئے) ان کے شیدائی ان دو القاب سے تو نوازتے ہی ہیں، ثقافتی تبادلہ اور گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ شاعر کی شکل میں بھی یاد کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں میر تقی میر، مرزا غالب اور علامہ اقبال کے ساتھ انھیں اردو شاعری کے 4 ستون میں شمار کیا جاتا ہے۔

ان کے یوم پیدائش اور سال پیدائش کو لے کر مورخین میں اتفاق رائے نہیں ہے، البتہ ان کے مقام پیدائش کو لے کر کوئی نااتفاقی نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اودھ کے نوابوں کی راجدھانی فیض آباد کے گلاب باڑی علاقہ میں 1796 سے 1805 کے درمیان ان کی پیدائش ہوئی اور وقت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے کسی شاہی دربار کی پناہ لیے بغیر انھوں نے اپنی شاعری کو اس مقام تک پہنچایا جہاں ان کی مقبولیت کسی ملک کی سرحد یا شاہی دربار کی محتاج نہیں رہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پیدائش کے 2 صدی گزر جانے کے بعد بھی انھیں بھلایا نہیں جا سکا ہے۔ اودھ میں تو ان کی گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ شاعر کے طور پر آج تک ان کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ 2003 میں ہندوستان اور پاکستان کے کئی حصوں میں ان کی پیدائش کی دوسری صدی اس اندازے کے مطابق منائی گئی کہ وہ اپنے والد میر خلیق کے شاگرد اور مشہور شاعر نواب سعید محمد خان ’رند‘ سے 4 سال چھوٹے تھے اور رند کی پیدائش کا سال 1799 مانا جاتا ہے۔


میر انیس کی ابتدائی تعلیم ان کے گھر میں ہی ہوئی اور والدہ کے بعد مولوی میر نجف علی و مولوی حیدر علی لکھنوی ان کے استاد بنے، جنھوں نے غیر رسمی طور سے ان کو ایسی مبنی بر مقصد تعلیم دی تاکہ وہ اپنے نسب کی 5 نسلوں سے چلی آ رہی خدائے واحد، پیغمبر اور بزرگانِ دین کی تعریف و توصیف کی روایت کو آگے بڑھا سکیں۔ آگے چل کر انھوں نے لکھنؤ میں بھی تعلیم حاصل کی۔ لیکن ان کے اساتذہ کو جلد ہی سمجھ آ گیا کہ ان کی دلچسپی روایت میں اتنی نہیں ہے جتنی سائنس اور عقل و دانش کے استعمال میں ہے۔ انھوں نے فنون سپہ سالاری کی بھی تربیت حاصل کی تھی اور اپنے جسم کو ورزشی بنائے رکھنے کی کوئی بھی کوشش چھوڑنا انھیں گوارا نہیں تھا۔ فطرت کے تو وہ ایسے عاشق تھے کہ اس کی خوبصورتی اور معجزات کو دیکھتے ہوئے اکثر کہیں گم ہو جایا کرتے تھے۔

سماج، ادب و ثقافت کے رازوں سے پردہ اٹھانے کے جذبہ نے ایک دانشور کی شکل میں ان کو (آخری دنوں کی سنگین خرابیٔ صحت کے کچھ سالوں کو چھوڑ کر) پوری زندگی فعال و سرگرم بنائے رکھا۔ ان کا سائنسی نظریہ علم کی شعاعوں کو جہاں سے اور جیسے بھی تلاش کر سکتی تھی، تلاش کر لائی اور انھوں نے اپنی تصنیفات میں ان کا تخلیقی استعمال کیا۔ اسی استعمال نے انھیں ثقافتی تبادلہ اور گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ شاعر کی شکل میں مقبولیت عطا کی۔


ایک اور بات جو میر انیس کو بڑا شاعر بناتی ہے، وہ ہے ان کا عزت نفس پر مبنی مزاحمتی شعور۔ اپنے خاندان کی کئی نسلوں سے چلی آ رہی روایت کو توڑ کر انھوں نے اودھ کے نواب کا درباری بننا منظور نہیں کیا۔ کسی اور نواب کے دربار سے بھی وہ نہیں جڑے۔ نواب واجد علی شاہ چاہتے تھے کہ وہ 3 دیگر اردو شاعروں ورق، اسیر اور قبول کے ساتھ مل کر ان کے نسب کا شاہنامہ لکھیں۔ لیکن انیس نے کہہ دیا کہ میں کربلا کے شہیدوں کا، ان کی داستانِ عظیم کا شاعر ہوں اور کسی بادشاہ یا نواب کی تعریف و ستائش میں شاعری نہیں کر سکتا۔

میر انیس نے اردو شاعری کے اس دور میں زندگی گزاری، جب غزلوں کا پرچم چہار جانب بلند تھا۔ شاعر حضرات غزل لکھنے میں مہارت کو شعبۂ شاعری میں کامیابی کی گارنٹی تصور کرتے تھے۔ لیکن میر انیس ان کی راہ پر نہیں چلے۔ شاید انھوں نے سوچا کہ دوسروں کی طرح غزلیں لکھ کر بڑے شاعر بنے تو کیا کمال کیا، اور ’جو کاسی تن تجے کبیرا تو رامے کون نہورا رے‘ کی طرز پر مرثیوں کی تخلیق کا مشکل راستہ اختیار کیا۔


مرثیے ہندوستان میں اردو شاعری کی ایسی خصوصیت ہیں جو اس شکل میں کہیں دوسری جگہ موجود نہیں۔ یہ بنیادی طور پر مرحومین کی تعزیت میں کیا جانے والا اظہار ہے اور ہندوستان میں مسلم حکومت کے دوران فروغ پاتے پاتے اس روایت نے ایک بالکل مختلف اور مجموعی شکل اختیار کر لی تھی۔ میر انیس نے اس کے اسی شکل کو قبول کر آگے بڑھاتے ہوئے اپنے مرثیوں میں امن و خیر سگالی جیسے اصولوں کی مضبوط پیروکاری کی۔

مرثیوں کا موضوع انھوں نے کربلا کی اس مشہور جنگ کو بنایا جس میں ہوئی شہادتوں کی مذہب اسلام کے پاسداروں کے لیے الگ ہی اہمیت ہے، لیکن اس میں انسانی جذبات اور شعریت کے ساتھ ایسا ہندوستانی رنگ بھرا کہ پڑھنے والوں کو وہ اودھی کے رزمیہ داستانوں ’پدماوت‘ یا ’رام چرت مانس‘ جیسی داستان لگنے لگے۔ اودھ میں رہ کر انھوں نے ہندوستانی طرز زندگی کا جو باریک جائزہ لیا تھا اور اودھی میں دستیاب منظوم داستانوں کے عناصر سے ان کا جیسا قریبی تعارف تھا، وہ اس میں ان کے کام آیا۔


چونکہ وہ خود بھی فن سپہ سالاری جانتے تھے، انھوں نے اپنے مرثیوں میں کربلا کی جنگ کا اس طرح تذکرہ کیا ہے کہ لگتا ہے سب کچھ آج اور ابھی پڑھنے والے کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ان کے بیان میں اتنا اثر ہے کہ ذہن میں تیار تصویروں کا عکس کہیں سے ٹوٹنے نہیں پاتا۔ اور ایسا بھی نہیں کہ صرف جنگ کے ہی مناظر زندہ و جاوید بن پڑے ہوں، انیس کو فطری مناظر کی لفظی تصویریں بنانے میں بھی ویسی ہی مہارت حاصل ہے۔ اتنا ہی نہیں، داستانِ کربلا کا ماحول بتانے میں اور اس کے کرداروں کو بہتر انداز میں شعری جامہ پہنانے میں، انسانی جذبات کو ظاہر کرنے میں بھی وہ قابل شاعر ہیں۔

1874 میں 10 دسمبر کو لکھنؤ میں آخری سانس لینے سے پہلے وہ مرثیہ گوئی کہیں یا مرثیہ خوانی، اس کی انوکھی روایت کو اتنا مضبوط کر گئے تھے کہ اسے آج بھی کسی اور فنکار کے سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔