’مرے مقدر میں ٹوٹنا ہے اصول ہوں میں‘ غالب اکیڈمی دہلی میں شاندار مشاعرہ کا انعقاد

دہلی اقلیتی کمیشن کے ’اقلیتی بیداری پروگرام‘ کے تحت ’آل انڈیا سوشل اویرنیس سوسائٹی‘ اور ’سُر دھروہر فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے غالب اکیڈمی میں شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا

مشاعرہ کی فائل تصویر
مشاعرہ کی فائل تصویر
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: دہلی اقلیتی کمیشن کے ’اقلیتی بیداری پروگرام‘ کے تحت ’آل انڈیا سوشل اویرنیس سوسائٹی‘ اور ’سُر دھروہر فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ غالب اکیڈمی، بستی حضرت نظام الدین میں منعقد ہونے والے اس مشاعرے کی صدارت جنگ پورہ کے رکن اسمبلی پروین کمار نے کی۔ جبکہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ذاکر خان اور گوکل پوری کے ایم ایل اے سریندر کمار تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔

دریں اثنا، دہلی حج کمیٹی کے چیئرمین مختار احمد انصاری، سینئر لیڈر ویریندر وڈھوڑی، عام آدمی پارٹی کے سینئر کارکن صابر علی اور سوشل ورکر ارشد حسین نے اردو، محبت اور انسانیت کے نام پر مشاعرے کی شمع روشن کی۔ اس موقع پر سماجی کارکن زاہد حسین، سابق کونسلر چودھری بھاگ ویر، دہلی اسٹیٹ مائنارٹی ونگ کے نائب صدر حاجی رئیس احمد، میڈیا پرسنالٹی شمیم اے خان، اکھل بھارتیہ منصوری سماج کے قومی جنرل سکریٹری عثمان منصوری سمیت کئی سرکردہ افراد مہمان ذی وقار کے طور پر موجود تھے۔ شرکائے مشاعرہ میں بڑی تعداد میں قابل ذکر شخصیات موجود تھیں۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ذاکر خان نے اقلیتوں کے لئے مختلف سرکاری اسکیموں کی جانکاری لوگوں کو دی۔


مشاعرے کے مہتمم شاہد انجم نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے مشاعرے کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور زبان و ادب کے فروغ کے لئے ’آل انڈیا سوشل اویرنیس سوسائٹی‘ اور ’سُردھروہر‘ کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ مشاعرے کی نظامت معروف صحافی اور عالمی شہرت یافتہ شاعر معین شاداب نے شگفتہ و شائستہ لہجے میں انجام دی۔

مشاعرے میں شریک شعرا کے منتخب اشعار نذر قارئین ہیں:

کچھ ایسے زندگی کی سزا کاٹنی پڑی، بھیگے ہوئے پروں سے ہوا کاٹنی پڑی...طیب آزاد

...

میں تو سمجھ رہا تھا مرے زخم سل گئے، فصل بہار آئی نئے پھول کھل گئے...جاویدمشیری

...

کیا آگ، کیسی آگ مجھے کیا خبر کہ میں، اے حسن لاجواب تجھے دیکھتا رہا...ارشد ندیم

...

جہاں پانی کی امیدیں فرشتے چھوڑ دیتے ہیں، خدا والے اسی صحرا میں بچے چھوڑ دیتے ہیں...شاہد انجم

...

نکلتے وقت ان کے دل سے یہ محسوس ہوتا تھا، دوبارہ جیسے جنت سے نکالے جا رہے ہیں ہم...معین شاداب

...


بہت سنبھالے ہوئے ہوں خود کو مگر یہ سچ ہے، مرے مقدر میں ٹوٹنا ہے اصول ہوں میں...خالد اخلاق

...

دعویٰ تو ناخدائی کا کرتے ہیں سب یہاں، لیکن کسی کے ہاتھ میں پتوار بھی نہیں...حامد علی اختر

...

ہم تو اپنے قد کے برابر بھی نہ ہوئے، لوگ نہ جانے کیسے خدا ہو جاتے ہیں...خان رضوان

...

مائیکے جاؤں تو اب بھی مری چوکھٹ پہ وسیم، میری ہی شکل کی اک لڑکی کھڑی ملتی ہے...وسیم راشد

...

جسے سر پر سجانے کو ہزاروں سر نکل آئے، ہم ایسے تاج کو بھی مار کر ٹھوکر نکل آئے...شکیل بریلوی

...

چلتا ہے ساتھ ساتھ خموشی کا اک ہجوم، تھک کر گریں گے ہم تو صدائیں لگائیں گے...شاہ رخ عبیر

...

ہمارا دل نہیں بس سر جھکا تھا، ہمکتے رہ گئے سجدے ہمارے...علی ساجد

...

بڑا بننے کی اس ضد نے بہت کچھ لے لیا ہم سے، بہت دولت ملی بس باپ کی میّت نہ مل پائی...نوشاہی نور

....

میں تھک جاتی ہوں باتیں کرتے کرتے، تری تصویر کتنا بولتی ہے...سریتا جین

ان کے علاوہ جے پی راوت، انل کمار یادو اکیلا ،اقبال فردوسی، انس فیضی اور اروشی اگروال وغیرہ نے بھی مشاعرے میں اپنا کلام پیش کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */