منٹو: بے باک، بے لاگ اور بے خوف افسانہ نگار

آج سعادت حسن منٹو کا یومِ وفات ہے۔ 18 جنوری 1955 کو جب ان کا انتقال ہوا اس وقت ان کی عمر محض 42 سال تھی، لیکن اس قلیل عرصہ میں انھوں نے ایسے بیش قیمت افسانے لکھے جس نے انھیں زندہ و تابندہ کر دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پرگتی سکسینہ

سعادت حسن منٹو کا نام زبان پر آتے ہی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کی یاد آ جاتی ہے۔ منٹو دراصل ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی تفصنیفات ان کی زندگی میں جتنی مبنی بر حقائق تھیں اس سے کہیں زیادہ آج ہیں۔ یوں تو وہ اردو کے مصنف تھے لیکن ان کی تصنیفات حقیقی انسانی جذباتوں اور احساسات کو جس سچائی کے ساتھ بیان کرتی ہیں وہ کسی بھی زبان میں کھری اترتی ہیں۔

سعادت حسن منٹو نے بہترین کہانیاں لکھیں، بے شمار ریڈیو سیریز لکھے، فلم انڈسٹری میں بھی کام کیا اور فلمی ہستیوں پر ان کے سوانحی خاکے لاجواب ہیں۔ یہ سوانحی خاکے زیادہ پڑھے نہیں گئے ہیں لیکن منٹو شاید ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے فلم اداکاروں اور اداکاراؤں کے بارے میں بہت بے باکی اور بغیر کسی خوف کے لکھا ہے۔ ان کی تحریر کی یہی ایک خوبی ہے۔ وہ انسانی تنگ دلی، عیاری، سطحیت اور سماج کے اندھیرے و غلیظ گلیاروں کے بارے میں بغیر کسی تبدیلی کے ویسے ہی لکھتے ہیں جیسا کہ وہ ہے۔ یہی چیز ان کی کہانیوں کو مزید حقیقی بنا دیتے ہیں۔

اس ملک کی تاریخ میں سب سے افسوسناک اور دنیا کے ایسے تنہا واقعہ، یعنی ملک کی تقسیم پر لکھتے ہوئے بھی بہت بے باک رہے، جب کہ اس واقعہ سے اگر کوئی سب سے زیادہ پریشان ہوا تو شاید وہ منٹو ہی تھے۔ پہلی بات تو یہ کہ انھوں نے دل سے کبھی تقسیم کو قبول نہیں کیا، لیکن جب اداکار اشوک کمار کے گھر سے لوٹتے ہوئے ان پر حملہ ہوا تو انھوں نے نئے ملک پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن تقریباً دس دن وہاں گزارنے کے بعد ہی انھوں نے فون پر اپنے دوستوں سے کہا کہ پاکستان جانے کا فیصلہ شاید ان کی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ تھا۔

منٹو پر اپنی بے باک کہانیوں کے لیے چھ مرتبہ فحاش نگاری کا مقدمہ چلا۔ تین مرتبہ ہندوستان میں اور تین مرتبہ پاکستان میں۔ لیکن ہر بار انھیں باعزت بری کیا گیا۔ اردو کی ایک معروف مصنفہ عصمت چغتائی نے اپنی یادداشت ’کاغذی ہے پیرہن‘ میں منٹو کی تصنیفات کے بارے میں بہت واضح طور پر لکھا تھا کہ منٹو اگر (اپنی تصنیفات میں) کیچڑ اچھالتے ہیں تو اس سے وہ گندگی دکھائی دیتی ہے اور ساتھ ہی اس گندگی کو صاف کرنے کی ضرورت بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔

منٹو پر چلے مقدمے کی سماعت کا ایک قصہ بہت دلچسپ ہے۔ دراصل مقدمہ کی سماعت کے دوران ہند-پاکستان دونوں ممالک کے مصنفین اور دانشوروں کی برادری ایک ساتھ منٹو کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی اور عدالت میں بہت واضح لفظوں میں ان لوگوں نے کہا تھا کہ منٹو کی تصنیفات حقیقت بیان کرتی ہیں اور وہ کہیں سے بھی ایک سماج کی اخلاقیات کو نہیں لانگھتی۔

دیال سنگھ کالج کے سابق پرنسپل سید عابد ایل عابد نے عدالت میں اپنی گواہی کے دوران کہا تھا کہ ’’ولی سے غالب تک سبھی رائٹرس نے وقت وقت پر ایسا کچھ لکھا جسے فحش مان لیا گیا۔ ادب کبھی بھی فحش نہیں ہو سکتا، اور جو منٹو لکھتے ہیں وہ ادب ہے۔‘‘

واقعی منٹو نے جو لکھا، جو وقت کے تمام تھپیڑوں کو جھیلتے ہوئے آج بھی ہمارے سماج میں نہ صرف زندہ ہے بلکہ مزید حقیقی ہو گیا ہے۔ یہی ادب کی خوبی ہے۔ پوری شان و شوکت کے ساتھ اجراءِ کتب کے ذریعہ تحریروں کو قارئین تک پہنچایا جانے والا آج کا ادب یہ چمک کھو چکا ہے۔

منٹو اس طرح کے رائٹر تھے بھی نہیں جسے اپنا نام تاریخ میں درج کرانے کی خواہش رہی ہو یا پھر اپنی تحریروں سے سماج میں تبدیلی لانے کا انقلابی جذبہ ہو۔ وہ ایماندار مصنف تھے، اپنے آس پاس کے واقعات، قصوں اور کرداروں کو کبھی چٹکی لیتے ہوئے تو کبھی سنجیدگی سے یا پھر کبھی اداسی اور حیرت سے بھی اپنے الفاظ میں ڈھال لیتے تھے۔ منٹو کی یہی خوبی تھی جس کے سبب وہ ’کھول دو‘ یا ’ٹھنڈا گوشت‘ جیسا دل کو جھنجھوڑ دینے والی کہانی لکھ سکے۔ ’کھول دو‘ میں ایک سنگین طور پر زخمی اور عصمت دری کی شکار لڑکی اپنے آخر وقت میں ڈاکٹر کے ٹیبل پر پڑی ہے۔ کھڑکی کی طرف جاتی ہوئی نرسوں سے ڈاکٹر کہتا ہے ’کھول دو‘ اور لڑکی مشین کی تیزی کے ساتھ اپنا شلوار کھول دیتی ہے۔ جہاں تک ’ٹھنڈا گوشت‘ کی بات ہے، یہ ایک مردہ لڑکی سے عصمت دری کی کہانی ہے۔

یہ کہانیاں تقسیم کے دوران ہوئے تمام غلط کاریوں، ناقابل تصور مظالم پر ایک چوٹ کی طرح ہیں۔ خود پر فحش نگاری کے مقدمے کی سماعت کے دوران منٹو نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ ٹھنڈا گوشت کہانی کا مقصد انسانوں کو یہ بتانا ہے کہ جب وہ وحشیانہ سلوک کرتے ہیں تو وہ اپنی انسانیت اور انسانی ذمہ داری سے الگ یا آزاد نہیں ہو جاتے۔ وہ انسانیت ان کے جانور پر کبھی نہ کبھی بھاری پڑتی ہی ہے۔ آج جب ہم روزانہ عصمت دری کے ظالمانہ واقعات سے متعلق خبروں میں پڑھتے ہیں تو ’ٹھنڈا گوشت‘ اور ’کھول دو‘ کہانیاں اس سماج کی انسانیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں، شاید اس امید میں کہ کبھی تو انسانیت اس حیوانیت پر بھاری پڑے گی، کبھی تو ہم ذات، مذہب اور اونچ نیچ سے الگ ہو کر ایک انسان کی شکل میں اپنے بارے میں سوچیں گے اور اگر نہیں سوچ پائے تو تقسیم کے جس درد کا تذکرہ منٹو نے کیا ہے اس سے کہیں گہرا اندھیرا ہمارے سماج کو برباد کر دے گا۔ ان کی کہانیوں میں یہ درد اور خوف دونوں ہی اثرانداز طریقے سے ظاہر ہوتے ہیں جسے ہمیں اور آنے والی نسلوں کو یاد رکھنا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Jan 2018, 7:09 PM