’ہندی اور اردو‘... سعادت حسن منٹو کے یومِ پیدائش پر پڑھیے ان کا تحریر کردہ چشم کشا مضمون

’’ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلمان، اردو کے تحفظ کے لئے کیوں بے قرار ہیں۔۔۔؟ زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>سعادت حسن منٹو، تصویر بشکریہ&nbsp;rekhta.org</p></div>

سعادت حسن منٹو، تصویر بشکریہrekhta.org

user

قومی آوازبیورو

عالمی شہرت یافتہ افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے سماجی و اخلاقی موضوعات پر صرف افسانے ہی نہیں لکھے ہیں، بلکہ انھوں نے کچھ ایسے مضامین بھی لکھے ہیں جو لوگوں کو غور و خوض کی دعوت دیتے ہیں۔ آج سعادت حسن منٹو کا یومِ پیدائش ہے۔ وہ 11 مئی 1912 کو پیدا ہوئے اور 43 سال کی عمر میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ سعادت حسن منٹو کی یاد میں آج ’قومی آواز‘ ان کا تحریر کردہ مضمون ’اردو اور ہندی‘ پیش کر رہا ہے۔ عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں اردو اور ہندی زبان کو لے کر ہو رہے جھگڑے کا تذکرہ ہے۔ یہ مضمون ان لوگوں کی آنکھیں کھول دینے والا ہے جو اردو کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، یا پھر جو ہندی سے نفرت کرتے ہیں۔

’’ہندی اور اردو کا جھگڑا ایک زمانے سے جاری ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب، ڈاکٹر تارا چند جی اور مہاتما گاندھی اس جھگڑے کو سمجھتے ہیں لیکن میری سمجھ سے یہ ابھی تک بالاتر ہے۔ کوشش کے باوجود اس کا مطلب میرے ذہن میں نہیں آیا۔ ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلمان، اردو کے تحفظ کے لئے کیوں بے قرار ہیں۔۔۔؟ زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔ میں نے اس تازہ اور گرما گرم موضوع پر کچھ لکھنا چاہا تو ذیل کا مکالمہ تیار ہو گیا۔‘‘


منشی نرائن پرشاد، اقبال صاحب یہ سوڈا آپ پئیں گے؟

مرزا محمد اقبال، جی ہاں۔ میں پیوں گا۔

منشی، آپ لیمن کیوں نہیں پیتے۔

اقبال، یونہی، مجھے سوڈا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے گھر میں سب سوڈا ہی پیتے ہیں۔

منشی، تو گویا آپ کو لیمن سے نفرت ہے۔

اقبال، نہیں تو۔۔۔ نفرت کیوں ہونے لگی منشی نرائن پرشاد۔۔۔ گھر میں چونکہ سب یہی پیتے ہیں۔ ا س لئے عادت سی پڑ گئی ہے۔ کوئی خاص بات نہیں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ لیمن سوڈے کے مقابلے میں زیادہ مزیدار ہوتا ہے۔

منشی، اسی لئے تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میٹھی چیز چھوڑ کر آپ کھاری چیز کیوں پسند کرتے ہیں۔ لیمن میں نہ صرف یہ کہ مٹھاس گھلی ہوتی ہے بلکہ خوشبو بھی ہوتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے۔

اقبال، آپ بالکل بجا فرماتے ہیں۔۔۔ پر۔۔۔

منشی، پر کیا؟

اقبال، کچھ نہیں۔۔۔ میں یہ کہنے والا تھا کہ میں سوڈا ہی پیوں گا۔

منشی، پھر وہی جہالت۔۔۔ کوئی سمجھے میں آپ کو زہر پینے پر مجبور کر رہا ہو۔۔۔ ارے بھائی لیمن اور سوڈے میں فرق ہی کیا ہے۔۔۔ ایک ہی کارخانے میں یہ دونوں بوتلیں تیار ہوئیں۔ ایک ہی مشین نے ان کے اندر پانی بند کیا۔۔۔ لیمن میں سے مٹھاس اور خوشبو نکال دیجئے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔

اقبال، سوڈا۔۔۔ کھاری پانی۔۔۔

منشی، تو پھر اس کے پینے میں حرج ہی کیا ہے۔

اقبال، کوئی حرج نہیں۔

منشی، تو لو پیؤ۔

اقبال، تم کیا پیؤ گے؟


منشی، میں دوسری بوتل منگوا لوں گا۔

اقبال، دوسری بوتل کیوں منگواؤ گے۔۔۔ سوڈا پینے میں کیا حرج ہے؟

منشی، کو۔۔۔ کوئی حرج نہیں۔

اقبال، تو لو پیو یہ سوڈا۔

منشی، تم کیا پیو گے؟

اقبال، میں۔۔۔ میں دوسری بوتل منگوا لوں گا۔

منشی، دوسری بوتل کیوں منگواؤ گے۔۔۔ لیمن پینے میں کیا حرج ہے؟

اقبال، کو۔۔۔ ئی۔۔۔ حر۔۔۔ ج۔۔۔ نہیں۔۔۔ اور سوڈا پینے میں کیا حرج ہے؟

منشی، کو۔۔۔ ئی۔۔۔ حر۔۔۔ ج۔۔۔ نہیں۔

اقبال، بات یہ ہے کہ سوڈا ذرا اچھا رہتا ہے۔

منشی، لیکن میرا خیال ہے کہ لیمن۔۔۔ ذرا اچھا ہوتا ہے۔

اقبال، ایسا ہی ہوگا۔۔۔ پر میں تو اپنے بڑوں سے سنتا آیا ہوں کہ سوڈا اچھا ہوتا ہے۔

منشی، اب اس کا کیا ہوگا۔۔۔ میں بھی اپنے بڑوں سے یہی سنتا آیا ہوں کہ لیمن اچھا ہوتا ہے۔

اقبال، آپ کی اپنی رائے کیا ہے؟

منشی، آپ کی اپنی رائے کیا ہے؟

اقبال، میری رائے۔۔۔ میری رائے۔۔۔ میری رائے تو یہی ہے کہ۔۔۔ لیکن آپ اپنی رائے کیوں نہیں بتاتے۔


منشی، میری رائے۔۔۔ میری رائے۔۔۔ میری رائے تو یہی ہے کہ۔۔۔ لیکن میں اپنی رائے کا اظہار پہلے کیوں کروں۔

اقبال، یوں رائے کا اظہار نہ ہو سکے گا۔۔۔ اب ایسا کیجئے کہ اپنے گلاس پر کوئی ڈھکنا رکھ دیجئے۔ میں بھی اپنا گلاس ڈھک دیتا ہوں۔ یہ کام کر لیں تو پھر آرام سے بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔

منشی، ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔ بوتلیں کھل چکی ہیں۔ اب ہمیں پینا ہی پڑیں گی۔ چلئے جلدی فیصلہ کیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی ساری گیس نکل جائے۔۔۔ ان کی ساری جان تو گیس ہی میں ہوتی ہے۔

اقبال، میں مانتا ہوں۔۔۔ اور اتنا آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ لیمن اور سوڈے میں کچھ فرق نہیں۔

منشی، یہ میں نے کب کہا تھا کہ لیمن اور سوڈے میں کچھ فرق ہی نہیں۔۔۔ بہت فرق ہے۔۔۔ زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک میں مٹھاس ہے۔ خوشبو ہے۔ کھٹاس ہے۔ یعنی تین چیزیں سوڈے سے زیادہ ہیں۔ سوڈے میں تو صرف گیس ہی گیس ہے اور وہ بھی اتنی تیز کہ ناک میں گھس جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں لیمن کتنا مزیدار ہے۔ ایک بوتل پیو۔ طبیعت گھنٹوں بشاش رہتی ہے۔ سوڈا تو عام طور پر بیمار پیتے ہیں۔۔۔ اور آپ نے ابھی ابھی تسلیم بھی کیا ہے کہ لیمن سوڈے کے مقابلے میں زیادہ مزیدار ہوتا ہے۔

اقبال، ٹھیک ہے۔ پر میں نے یہ تو نہیں کہا کہ سوڈے کے مقابلے میں لیمن اچھا ہوتا ہے۔ مزیدار کے معنی یہ نہیں کہ وہ مفید ہو گیا۔ اچار بڑا مزیدار ہوتا ہے مگر اس کے نقصان آپ کو اچھی طرح معلوم ہیں۔ کسی چیز میں کھٹاس یا خوشبو کا ہونا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ بہت اچھی ہے۔ آپ کسی ڈاکٹر سے دریافت فرمایئے تو آپ کو معلوم ہو کہ لیمن معدے کے لئے کتنا نقصان دہ ہے۔ سوڈا البتہ چیز ہوئی نا۔۔۔ یعنی اس سے ہاضمے میں مدد ملتی ہے۔


منشی، دیکھئے اس کا فیصلہ یوں ہو سکتا ہے کہ لیمن اور سوڈا دونوں مکس کر لئے جائیں۔

اقبال، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

منشی، تو اس خالی گلاس میں آدھا سوڈا ڈال دیجئے۔

اقبال، آپ ہی اپنا آدھا لیمن ڈال دیں۔۔۔ میں بعد میں سوڈا ڈال دوں گا۔

منشی، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ پہلے آپ سوڈا کیوں نہیں ڈالتے۔

اقبال، میں سوڈا لیمن مکسڈ پینا چاہتا ہوں۔

منشی، اور میں لیمن سوڈا مکسڈ پینا چاہتا ہوں۔

(مآخذ: منٹو کے مضامین)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔