پروین شاکر— کلام کرنے کا لہجہ مجھے سکھاتی ہیں

’’پروین شاکر زیادہ کہتی ہیں مگر اچھا کہتی ہیں۔‘‘صادقین

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

گوہر رضا

چوبیس سال کی عمر میں کوئی ادب کی دنیا میں داخل ہو، 44 سال کی عمر میں جہانِ فانی سے کوچ کر جائے اور ادب کی دنیا پر ایسی گہری چھاپ چھوڑے کہ آنے والے شاعروں کے لیے نئے راستے کھل جائیں، ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ پروین شاکر اردو ادب کی دنیا میں ایک ایسا ہی نام ہے۔ کچھ لوگوں کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ان پر یہ مصرعے صادق آتے ہیں کہ:

عمر چھوٹی ہے تو کیا

جذبوں کی لو تیز کرو

پروین شاکر کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ ایک شمع جو تھوڑے ہی وقفے روشن رہی، مگر جتنی دیر بھی روشن رہی اس کی شعاعوں کا اجالا تیز تر ہوتا گیا۔ روشنی دور تک اور دیر تک پھیلتی گئی۔ روشنی کی ان شعاعوں نے صرف آنے والی شاعرات پر ہی اثر نہیں ڈالا بلکہ پروین شاکر کی ہمعصر شاعرات کو بھی وہ مضمون چننے پر مجبور کر دیا جو ابھی تک اردو شاعری میں ممنوع نہ سہی، شاعری کی دسترس سے باہر سمجھے جاتے تھے۔ پہلی کتاب ’خوشبو‘ 1976 میں چھپ کر آئی، مشہور فنکار صادقین صاحب نے اس کا کور بنایا تھا۔ اس کو دیکھ کر فیض احمد فیض مسکرا کر بولے کہ ’’میں نے تو عمر بھر میں اتنی نظمیں کہیں ہیں‘‘۔ صادقین صاحب نے جواب دیا ’’پروین شاکر زیادہ کہتی ہیں مگر اچھا کہتی ہیں۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

پروین صاحبہ نے یہ کتاب یعنی ’خوشبو‘ احمد ندیم قاسمی صاحب کو نذر کی اور اس کی پہلی نظم بھی انہی کو نذر ہے۔ اس کی چند لائنیں اس طرح ہیں:

سرِ شاخِ گل

وہ سایہ دار شجر

جو مجھ سے دور، بہت دور ہے، مگر اس کی

لطیف چھاؤں

سجل، نرم چاندنی کی طرح

مرے وجود، مری شخصیت پہ چھائی ہے!

وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں

جو ہر عذاب میں مجھ کو سمیٹ لیتی ہیں

وہ ایک مشفق دیرینہ کی دعا کی طرح

شریری جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی

کلام کرنے کا لہجہ مجھے سکھاتی ہیں

---

اور ایک آخری بند (حالانکہ آزاد نظم میں بند تلاش کرنا کچھ غلط معلوم ہوتا ہے) ہے:

مرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی

جو بے چراغ کوئی شب اترنے لگتی ہے

تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہے

دبیز پردے، نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں

ہزار چاند، سرِ شاخِ گل ابھرتے ہیں!

یہ آزاد نظم کئی وجہوں سے چونکا دینے والی ہے۔ زبان کی سادگی سے پیدا ہونے والی خوبصورتی، خیالات کا تسلسل، ادائیگی میں بے باکی اور جذبات کا قرض ایمانداری سے اتار دینا یہ صرف اس نظم کی خاصیت نہیں بلکہ پروین شاکر کی پوری شاعری ان ہی خوبیوں سے پیدا ہونے والا ادب ہے۔ پروین کو پڑھ کر ایک بار پھر یقین ہو جاتا ہے کہ ’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘۔

اس مجموعے کا پہلا شعر بھی کم چونکانے والا نہیں، وہ ساری خوبیاں جو میں نے اوپر درج کی ہیں ان دو مصرعوں میں موجود ہیں:

چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو

ہوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ ٹھہرا

علی سردار جعفری نے 1977 کے جون۔دسمبر کے گفتگو کے شمارے میں ایک مضمون میں پروین شاکر کی شاعری پر احمد ندیم قاسمی کے خیالات کو درج کیا ہے ’’نہ وہ اپنے آپ کو فریب دیتی ہے اور نہ اپنے قاری سے کچھ چھپاتی ہے۔ اس نے محبت کے جذبے کی حیرت انگیز تہذیب کی ہے۔ پروین نے اس پامال موضوع کو رفعت بخشی ہے اور اس کی قدامت کو جدت میں بدل دیا۔‘‘

اگر پروین شاکر کو پڑھا جائے تو یہ تنقید کھری اترتی ہے۔ مجھے عشقیہ شاعری سے کچھ زیادہ لگاؤ نہیں ہے۔ اس راستے پر شاعروں کی اتنی آمد و رفت رہی ہے کہ خیالات دھول کے غبار میں دھندلے ہی نظر آتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ شعرا حضرات کی کتابیں چھان ماریے کہیں کوئی ایک آدھ مصرعہ ہی ہاتھ آتا ہے جس میں خیال کی تازگی ہو یا الفاظ کی جدت نظر آئے۔ اس صحرا میں جدت کا پودا لگانا بے حد مشکل کام اس لیے بھی ہے کہ آپ کچھ بھی لکھیں وہ یا تو استادوں کے کلام کے سامنے ہیچ محسوس ہوتا ہے یا ان کے کلام کی پرچھائیں۔ پروین شاکر عادتاً عشقیہ شاعرہ ہیں اور جیسا میرا خیال ہے کہ اس سے صحرا میں نئے رنگوں کا کوئی پھول کھلنا مشکل تھا اس لیے ان کی راہ اگر جدا نہ ہوتی تو وہ بھی شعرا کی بھیڑ میں کھو جاتیں۔ یہ دو اشعار ملاحظہ ہوں:

میں اس کی دسترس میں ہوں، مگر وہ

مجھے میری رضا سے مانگتا ہے

کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل

بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے

یہ اشعار ’عظیم اشعار‘ کا درجہ نہیں رکھتے مگر اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ عشقیہ شاعری کے ہجوم میں لہجے، مضمون اور برجستگی کی وجہ سے انفرادیت رکھتے ہیں۔ پوری غزل اسی رنگ میں ہے۔

یوں تو اردو شاعری کی صنف ’غزل‘ کا مطلب ہی (خواتین سے) عشق اور محبت کی بات کرنا ہوتی ہے مگر پوری عشقیہ شاعری پر مرد قابض نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پوری اردو شاعری پر مردوں کا قبضہ رہا ہے، مگر خاص طور سے کچھ ایسا لگتا ہے کہ عشقیہ شاعری پر کئی صدی تک مردانہ اظہار عشق ہی حاوی تھا۔ عورتوں کی طرف سے جو اظہار کیا گیا اس میں بھی نقطہ نظر مردانہ ہی رہا۔ کم و بیش پرانے وقتوں میں شاعرات نے بھی اسی رسم کو قائم رکھا۔ پروین شاکر وہ پہلی شاعرہ ہیں جنھوں نے اس رسم پر ایسا ہتھوڑا چلایا کہ اس سے پڑھنے والے دنگ رہ گئے۔ پہلی بار شاعرات کو یہ احساس ہوا کہ شاعری یوں بھی کی جا سکتی ہے۔ ایک عورت کے جذبات کی عکاسی، ایمانداری کے ساتھ, بے باکی سے نظموں اور غزلوں کا موضوع بن سکتی ہے۔ غزل کے دو شعر ہیں:

آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو

رات بھر جاگی ہوئی جیسے دلہن کی خوشبو

---

پیراہن میرا مگر اس کے بدن کی خوشبو

اس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو

دونوں اشعار میں منظر کشی خوبصورتی کی ہواؤں کو چھو رہی ہے اور نقطہ نظر صنف نازک کا ہی ہے۔

ایک نظم ایکاسٹیسی، جو وصل کی کیفیت بیان کرتی ہے، کے آخری دو مصرعے ہیں:

کانپتے ہونٹوں پہ اللہ سے صرف ایک دعا

کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں، ٹھہر جائیں ذرا

اس موضوع پر لکھنے کے لیے ہمت تو چاہیے ہی، مگر اس کے ساتھ تہذیب کا بھرم قائم رکھنا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس موضوع پر جب ’خدائے سخن‘ میر تقی میر نے طبع آزمائی کی تب بھی شاعری تہذیب کی پٹری سے اتر کر ’فحش شاعری‘ کے میدان میں آ گئی۔

فیض کی مشہور نظم ’رقیب سے‘ نے ’رقیب لفظ‘ کو نئے اور انقلابی معنی دیے، مگر پروین شاکر اس عشقیہ مضمون کو، جسے لاتعداد بار کھنگالا گیا ہے، ’گئے جنم کی صدا‘نظم میں ایک عجیب طرح سے دیکھتی ہیں۔ نظم کی شروعاتی لائن ہی چونکانے والی ہیں:

وہ ایک لڑکی

کہ جس سے شاید میں ایک پل بھی ملی نہیں ہوں

میں اس کے چہرے کو جانتی ہوں

کہ اس کا چہرا

تمھاری نظموں، تمھارے گیتوں کی چلمنوں سے اُبھر رہا ہے

مجھے یہ چہرہ تمھارے اپنے وجود سے بھی عزیز تر ہے

---

عورت کے جذبات کی، عورت کی زبان میں عکاسی کی دو اور مثالیں دیکھ لیں:

میں جب بھی چاہوں اسے چھو کے دیکھ سکتی ہوں

مگر وہ شخص کہ لگتا ہے اب بھی خواب ایسا

اور

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

عشقیہ شاعری کرنے والے شعرا یا شاعرات آنے والی کئی پیڑھیوں تک پروین شاکر کی شاعری سے لطف اندوز ہی نہیں بلکہ اثر انداز بھی ہوتی رہیں گی۔ مگر میں اکثر سوچتا ہوں یہ ذہین شاعرہ اگر عشقیہ شاعری کے جنجال میں نہ کھو جاتی اور ایک بڑے کینوس پر رنگ بکھیرتی تو کیا اردو زبان کو کوئی نیا اور وسیع موڑ ملتا۔ بہر حال، پروین شاکر کا بے وقت حادثہ کا شکار ہونا اور اس جہان سے اٹھ جانا اردو دنیا کے لیے کسی بڑے حادثے سے کم نہیں۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Nov 2017, 7:03 PM
/* */