اردو شاعری کی خاتون اول ’ادا جعفری‘

ادا جعفری کا تعلق بدایوں سے تھا، بدایوں ہمیشہ سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے، ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا، وہ 22 اگست 1924 میں بدایوں کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئیں۔

<div class="paragraphs"><p>ادا جعفری</p></div>

ادا جعفری

user

جمال عباس فہمی

اردو شاعری میں خواتین قلمکاروں کا بہت اہم رول رہا ہے۔ سخن ترازی اور نثر نگاری کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں خواتین قلمکار اپنے جلوے بکھیرنے کے لئے موجود نہ ہوں۔ اردو شاعرات میں ادا جعفری ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ اردو ادب کے ناقدین نے انہیں ’اردو شاعری کی خاتون اول‘ قرار دیا ہے۔ حالانکہ ان سے پہلے بھی صاحب طرز شاعرات گزری ہیں اور ان کے بعد بھی شاعرات نے اپنی نگارشات کے جوہر دکھائے ہیں، لیکن ادا جعفری اردو شاعری کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں۔ ادا جعفری نے اس دور میں روایتی نسائی شاعری سے انحراف کیا جب خواتین کی شاعری روایت پسندی کے ارد گرد ہی گھوما کرتی تھی۔ ادا جعفری شاعرہ بھی تھیں اور مصنفہ بھی۔ انہوں نےافسانے بھی لکھے اور خود نوشت بھی۔ خود نوشت بہت مقبول ہوئی، اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ ادا جعفری کی قلمی سرگزشت پر نظر ڈالنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کا جائزہ لینا بر محل محسوس ہوتا ہے۔

ادا جعفری کا تعلق شمالی ہند کی مردم خیز سر زمین بدایوں سے تھا۔ بدایوں ہمیشہ سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا۔ وہ 22 اگست 1924 میں بدایوں کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئیں لیکن محض تین برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کا بچپن نانیہال میں گزرا۔ انہیں کبھی اسکول کالج جانے کا موقع نہیں ملا۔ ان کی تعلیم گھر پر ٹیوٹر رکھ کر کرائی گئی۔ انھوں نے اردو فارسی اور انگریزی میں مہارت حاصل کی۔ دو صدمے وہ زندگی بھر فراموش نہ کر سکیں۔ ایک تو نہایت کم عمری میں داغ یتیمی کا ملنا اور دوسرا باقاعدہ کالج میں جا کر تعلیم حاصل نہ کر پانے کا ملال۔ ان کو بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ شعر و ادب کے مطالعہ کا شوق ہی ان کے شعر گوئی کی جانب مائل ہونے کا سبب بنا۔ انہوں نے محض نو سال کی عمر میں ہی شعر موزوں کرنا شروع کر دیئے تھے۔ ان کی شاعری کے ذوق کو پروان چڑھانے میں ان کی ماں کا بہت اہم رول رہا۔ عزیز جہاں کی شاعری کی شہرت اس دور کے معیاری رسائل کی بدولت بہت جلد دور دور تک پھیل گئی تھی۔ ان کی ابتدائی غزلیں اور نظمیں 1940 کے آس پاس اختر شیرانی کے رسالہ ’رومان‘ کے علاوہ اس وقت کے معیاری ادبی رسالوں ’شاہکار‘ اور ’ادب لطیف‘ وغیرہ میں شائع ہونے لگی تھی۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’ساز ڈھونڈتی رہی‘ 1947 میں ہی تیار ہو گیا تھا لیکن تقسیم وطن کے ہنگاموں اور ان کی پاکستان ہجرت کے سبب اس کی اشاعت 1950 میں ممکن ہو سکی۔ 1947ء میں ان کی شادی برطانوی ہندستان کے ایک اعلی افسر نورالحسن جعفری سے ہو گئی۔ شادی کے بعد عزیز جہاں ادا جعفری ہو گئیں۔ تقسیم ملک کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ 1948ء میں پاکستان منتقل ہو گئیں۔ ادا جعفری کا پہلا مجموعہ کلام 1950 میں منظر عام پر آیا اور جسے شاعری کے دلدادہ افراد کے ساتھ ساتھ ناقدین نے بھی سراہا۔ ادا جعفری نے شاعرات میں اپنا ایک خاص مقام بنایا۔ انھوں نے جاپانی صنف سخن ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی اور ہائیکو پر مشتمل پورا ایک مجموعہ ترتیب دیا۔ ایک دور میں انہوں نے افسانے بھی لکھے۔ انہوں نے قدیم اردو شعراء کے حالات بھی قلمبند کئے۔ اُن کی خود نوشت’جو رہی سو بے خبری رہی‘ تو اتنی زیادہ مقبول ہوئی کہ ان کی زندگی میں ہی اس کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے تھے۔


وہ جدید اردو شاعری کے معماروں میں شمار ہوتی ہیں۔ ادا جعفری نے یکساں مہارت کے ساتھ غزلیں اور نظمیں کہیں۔ ادا جعفری کی شاعری زندگی کے فرسودہ نظام کے خلاف بغاوت سے عبارت بھی ہے اور روایتی نسائی شاعری سے یکسر انحراف بھی۔ جو عوامل اور عناصر ادا جعفری کی شعری اور تخلیقی جوہر کو منفرد اور ممتاز بناتے ہیں وہ ان کے لہجے کی شائستگی، دلآویزی اور صدا آفرینی ہے۔

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی

پھول بالوں میں اک سجانے کو

انھوں نے ایک خاتون قلمکار کی حیثیت سے انسان کی ایسی نفسیاتی اور جذباتی کیفیات کو بیان کیا ہے جو نہ کسی مرد شاعر سے ممکن ہے اور نہ ان کی ہم عصر اور ان سے قبل کی شاعرات کی رسائی ان موضوعات و کیفیات تک تھی۔

صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنت‌ انساں

میں جنت انساں کا پتہ پوچھ رہی ہوں

۔۔۔

تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا

یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں


ادا جعفری نے ذات کے خول سے باہر نکل کر کائنات کے عام لوگوں کے احساسات، جذبات اور مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ ادا جعفری کے یہاں عشق کا برملا اظہار نہیں ہے بلکہ عشق و محبت اور وارفتگی کی تپش ان کے لہجے میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے

آئے تو سہی، برسر الزام ہی آئے

۔۔۔

ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے

کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا

۔۔۔

اس نے نظریں اٹھا کے دیکھ لیا

عشق کی جرأت نگاہ گئی

اس دور کے بڑے ناقد ادب ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ادا جعفری کو ’اردو شاعری کی خاتون اول‘ قرار دیا تھا، جس پر اردو کے تنقیدی حلقوں میں کافی لے دے مچی تھی۔ انہوں نے ادا جعفری کی شاعری کے حوالے سے اپنے موقف کا دفاع مسلسل کیا۔ اپنے ہاتھوں مرتب کردہ کتاب ’ادا جعفری فن اور شخصیت‘ میں انہوں نے لکھا کہ ’’انہوں نے ادا جعفری کو اردو شاعری کی خاتون اول ان ہی معنیٰ میں کہا تھا جن معنیٰ میں محمد حسین آزاد نے ’آب حیات‘ میں ولی دکنی کو اردو شاعری کا ’باوا آدم‘ کہا تھا۔ ورنہ یہ حقیقت ہے کہ ولی سے پہلے اردو میں درجنوں صاحب دیوان شعرا گزر چکے تھے۔ ولی کو اردو شاعری کا باوا آدم کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ولی اردو ادب کے پہلے ایسے بلند پایہ شاعر ہیں جن کا نام بہ اعتبار فکر و فن ہر زاویہ سے قابل قدر و معتبر اور تا دیر زندہ رہنے والا ہے۔ انہوں نے بھی ادا جعفری کو انہی صفات کی اساس پر اقلیم اردو شاعری کی خاتون اول کہا تھا اور آج بھی میں ایسا کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کیونکہ ادا جعفری کی شاعری نے بیسویں صدی کی وسطی دہائیوں میں بہ اعتبار رہنمائی و اثر پذیری اردو شاعرات کے حق میں وہی کردار ادا کیا جو اٹھارہویں صدی میں ولی نے عام شعرا کے حق میں ادا کیا تھا۔‘‘

ادا جعفری کی غزلوں میں تازگی، شعور کی پختگی اور فن پر مضبوط گرفت نمایاں ہے۔

ابھی تو خواب چہرے سب دعا کی رہ گزر میں تھے

کہانی ختم کیسے ہو گئی آغاز سے پہلے

۔۔۔

اک راہ رک گئی تو ٹھٹک کیوں گئیں اداؔ

آباد بستیاں ہیں پہاڑوں کے پار بھی

۔۔۔

وہ اور ہوں گے کنارے سے دیکھنے والے

مری نہ پوچھ کہ طوفاں کے ناز اٹھائے ہیں


ادا جعفری نے غزلوں کی طرح یکساں مہارت کے ساتھ نظمیں بھی کہی ہیں۔ ان کے یہاں قدیم طرز حیات کی قید سے آزاد ہونے کی کشمکش نظر آتی ہے۔ ان کی ایک نظم اسی کیفیت کی عکاسی کرتی ہے:

سوچتی ہوں کہ کوئی حجلہ تاریک ہے کیا

یہ گرانبار تسلسل یہ حیات جامد

جس کی دیواروں کی سنگینی سے لرزاں ہے خیال

کوئی روزن بھی نہیں کوئی دریچہ بھی نہیں

ایک دنیا کہ ہے تیرہ و محدود و اداس

نور و نکہت سے گریزاں مہ و انجم سے نفور

جس کی دیواروں کی سنگینی سے لرزاں ہے خیال

کاش پڑ جائے کہیں ایک خراش ایک شگاف

غم کے ہاتھوں ہی سہی

اور بھولے سے کبھی

کوئی آوارہ سی چنچل سی کرن آ نکلے

میرے تاریک گھروندے میں اجالا ہو جائے

اپنی ایک اور نظم میں ادا جعفری نے نسائی نقطہ نظر سے یاس و بیزاری کو یوں ظاہر کیا ہے:

میں نے گلریز بہاروں کی تمنا کی تھی

مجھے افسردہ خیالوں کے سوا کچھ نہ ملا

چند سہمے ہوئے سایوں کے سوا کچھ نہ ملا

جگمگاتے ہوئے تاروں کی تمنا کی تھی

میں نے موہوم امیدوں کی پناہیں ڈھونڈیں

شدت یاس میں مبہم سا اشارہ نہ ملا

ڈگمگاتے ہوئے قدموں کا سہارا نہ ملا

ہائے کس دشت بلا خیز میں راہیں ڈھونڈیں


نسائی جذبات و احساسات کا بیان ان کے ہائیکو میں بھی نظر آتا ہے:

نہیں ہے جرأت حرف تکلم بھی

کہ دنیا میں قدم دھرتے ہی گروی رکھ چکی ہوں میں

غموں کی شام بھی صبح تبسم بھی

۔۔۔

نہیں رکو نہیں

یہ سارے خواب تتلیوں سے ہیں

انہیں چھوؤ نہیں

لیکن یاس و بیزاری کے عالم میں بھی ادا جعفری امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں:

افق کے پار ستاروں کی خواب گاہوں سے

فسوں بدوش نظارے بلا رہے ہیں مجھے

ادا جعفری اپنی فکر اور جذبات کے طرز اظہار کے حوالے سے الگ پہچان رکھتی ہیں۔ ادا جعفری نے نسائی جذبات کے اظہار کی وہ راہیں روشن و ہموار کیں کہ جن پر کشور ناہید، پروین شاکر اور فہمیدہ ریاض جیسی شاعرات نے چل کر خواتین کی شاعری کو عالمی معیار تک پہنچایا۔ ادا جعفری نے بھرپور ادبی زندگی جی اور مختصر سی بیماری کے بعد 12 مارچ کو 2015 کراچی میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔