فانی بدایونی: یاسیت جس کی محبوبہ تھی

فانی بدایونی کی پوری زندگی پر جان ایلیا کا ایک مصرع پوری طرح صادق آتا ہے- ’خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘

<div class="paragraphs"><p>فانی بدایونی</p></div>

فانی بدایونی

user

جمال عباس فہمی

رنج و الم، حسرت و یاس اور مایوسی و غم کا بیان اردو شاعری میں ہمیشہ رہا ہے۔ ہر شاعر کے یہاں المیہ جذبات کسی نہ کسی عنوان سے موجود رہے ہیں لیکن غم پسندی کا جو رجحان فانی بدایونی کے یہاں ملتا ہے وہ کسی اور اردو شاعر کے یہاں نہیں ملتا۔ یاسیت ان کی محبوبہ اور غم و الم ان کے یہاں معشوق کی طرح جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اردو کی المیہ شاعری امام غزل میر تقی میر سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا سرا آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی المیہ شاعری سے جا کر ملتا ہے لیکن المیہ شاعری کی تیسری قسط فانی بدایونی سے شروع کر انہی پر تمام بھی ہوتی ہے۔ فانی غموں کو سگریٹ کے دھوئیں اور قہقہوں میں اڑا دینے والے شاعر نہیں ہیں بلکہ رنج و الم کو اپنی ذات کے اندر سمو لینے والے شاعر ہیں۔ فانی غم کو برداشت نہیں کرتے بلکہ پانی کی طرح پی جاتے جو ان کے رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے اور اشعار کی صورت میں نکل کر باہر آتا ہے۔ کسی ادیب کی شخصیت سازی میں اس کا خاندانی پس منظر، تعلیم و تربیت اور ماحول کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے۔ فانی بدایونی کو سمجھنے کے لئے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور ماحول کو سمجھنا ضروری ہے۔

فانی کا اصل نام شوکت علی خاں تھا۔ ان کی پیدائش صوفیا، اولیا اور ادیبوں کی بستی بدایوں کے اسلام نگر میں 13 ستمبر 1879 کو ہوئی۔ وہ افغانی النسل تھے۔ شاہ عالم کے دور میں ان کے مورث اعلیٰ اصالت خاں کابل سے ہندستان آئے تھے اور دربار سے وابستہ ہو گئے تھے۔ مغل دربار کی جانب سے اصالت خاں اور ان کی اولادیں خوب نوازی گئیں۔ فانی کے پردادا بشارت خاں کو بدایوں کا گورنر بنایا گیا۔ وہ دو سو مواضعات پر مشتمل جاگیر کے مالک تھے۔ لیکن زمانہ ایک سا نہیں رہتا۔ 1857 کے بعد ایک وقت وہ بھی آیا کہ انگریز حکومت نے تمام جاگیر ضبط کر لی۔ فانی کے والد شجاعت علی خاں کو پولیس محکمہ میں نوکری کرنا پڑی۔ فانی نے قدرے فراغت کے دور میں آنکھیں کھولیں۔ روش زمانہ کے مطابق پہلے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انگریزی پڑھی۔ 1901 میں فانی نے بی اے اور 1908 میں والد کے دباؤ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے لکھنؤ، آگرہ اور بدایوں میں وکالت کی لیکن عدم دلچسپی کے سبب بطور وکیل ناکام رہے۔ مزاج میں خود داری بھی تھی اور وضع داری بھی، پٹھان ہونے کا ٹھسہ بھی تھا۔ گیارہ برس کی عمرسے ہی شعر گوئی شروع کر دی تھی لیکن والد کے سخت گیر مزاج کی وجہ سے اس شغل و شوق کو پوشیدہ رکھا۔ والد شاعری کے سخت خلاف تھے۔ فانی پہلے شوکت کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے۔ ان کی ابتدائی شاعری کا رنگ کیسا تھا اس کے بارے میں اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ والد نے ان کے یکجا شدہ کلام کو نذر آتش کر دیا تھا۔


فانی کو زندگی کا پہلا صدمہ اپنی بچپن کی منگیتر کی دوسری جگہ شادی اور اس کی موت سے لگا۔ اس کے بعد انہوں نے خود کو شاعری میں غرق کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد پے در پے دو اور صدمے ماں اور باپ کی موت کی صورت میں لگے۔ وکالت میں دل نہیں لگتا تھا۔ شاعری سے گزر بسر نہیں ہوتی تھی، نوبت مالی خستگی کی آ گئی لیکن شاعری اوڑھنا بچھونا بنتی جا رہی تھی۔ وکالت چھوڑ کر درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ وزیر آباد ہائی اسکول سے منسلک ہو کر کچھ عرصہ وہاں گزارا۔ اس کے بعد مستعفی ہو گئے۔ اٹاوہ میں ایک اسکول میں ملازمت ملی لیکن اس کو بھی کچھ روز بعد چھوڑ دیا۔ انسپکٹر آف اسکولس کی حیثیت سے گونڈہ میں تعینات ہو گئے لیکن افتاد طبع کی وجہ سے وہ ملازمت بھی زیادہ روز نہیں کی۔ لکھنؤ، اٹاوہ اور گونڈہ میں وہ طوائفوں کے عشق میں گرفتار بھی ہوئے۔ جیسے جیسے مالی شیرازہ بکھرتا جا رہا تھا، شاعری پر شباب آ رہا تھا۔ وہ تو بھلا ہو ریاست حیدر آباد کے وزیر اعظم مہاراجہ کشن پرساد کا جن کی وجہ سے حیدر آباد پہونچ گئے اور انہوں نے ایک معقول وظیفہ مقرر کر دیا۔ کچھ روز کے بعد ایک اسکول میں پرنسپل مقرر کر دیے گئے۔ حیدر آباد میں قیام فانی بدایونی کی زندگی میں مالی استحکام اور شاعری کے عروج کا دور رہا لیکن وہ بھی پائیدار ثابت نہ ہوا۔ مہاراجہ کشن پرساد کے انتقال کے بعد حرماں نصیبی نے پھر ان کو گھیر لیا۔ ریاست حیدر آباد کے کچھ دوسرے شہروں میں انہیں ملازمتیں ملیں بھی، لیکن رات رات بھر مشاعروں اور احباب کی صحبت میں گزارنے کے بعد ملازمت کیا خاک ہوتی۔ نتیجہ مفلوک الحالی کی صورت میں برآمد ہوا۔ خود داری اور وضع داری احباب تک سے حالات بیان کرنے میں مانع ہوتی تھی۔ اس دوران پہلے اہلیہ اور بعد میں جوان بیٹی کی موت نے فانی کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ فانی کی خود داری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ایک قریبی رفیق کو فانی کے گھریلو حالات کا علم ہوا تو اس نے مالی مدد کرنا چاہی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ رفیق نے یہ سوچ کر کہ ان کی مدد بھی ہو جائے گی اور ان کی خود داری کو ٹھیس بھی نہیں پہنچے گی ان کا کلام خریدنے کی پیشکش کی، لیکن فانی نے یہ بھی گوارہ نہیں کیا کہ کوئی ترس کھا کر ان کی اس طریقے سے بھی مدد کرے۔ یہ وہ دور تھا جب فانی بدایونی کوڑی کوڑی کو محتاج تھے۔ آخر کار 27 اگست 1941 کو نہایت کسمپرسی کی حالت میں فانی نے دم توڑ دیا۔

جہاں تک فانی بدایونی کی شاعری کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری کا بنیادی عنصر حزن و ملال اور غم ہی ہے اور یہی وہ عناصر ہیں جن کی وجہ سے فانی اپنے معاصر غزل گو شعرا میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک ایسے دور میں کہ جب ان کے معاصر شعرا غزل کو مختلف رنگوں سے نکھار رہے تھے۔ حسرت موہانی غزل کو ارضیت کا پیرایہ عطا کر رہے تھے۔ جگر مراد آبادی نے تغزل کو نیا رنگ و آہنگ دیا اور اصغر گونڈوی نے غزل میں تصوف کا رنگ بھرا تو فانی نے غم و الم اور اندوہ و یاس کو غزل کا موضوع بنایا اور ’یاسیت کے امام‘ کہلائے۔ فانی زندگی کی اس منزل میں تھے جہاں مسرت و کامرانی نہیں بلکہ اس کی اصل حقیقت ناکامی، محرومی، اور حزن و یاس ہے۔ تب ہی تو انہوں نے کہا:

زندگی کا کوئی پہلو ہی نہ تھا جو غم نہ تھا

ہوش کا سودا جنون عاشقی سے کم نہ تھا


وہ اسی فلسفہ غم کی روشنی میں خوشی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

غم بھی گزشتنی ہے خوشی بھی گزشتنی

کر غم کو اختیار کہ گزرے تو غم نہ ہو

فانی بدایونی کو ایسے غم کی تلاش رہی جو عارضی نہ ہو بلکہ جاودانی ہو۔

وہ بدگماں کہ مجھے تاب رنج زیست نہیں

مجھے یہ غم کہ غم جاوداں نہیں ملتا

فانی بدایونی کی شعری فکر ’حزن‘ کے جن پہلوؤں پر مرکوز رہی ان میں ’احساس محرومی‘، ’موت کی آرزو‘، ’زندگی کی خوبصورتی سے بیزاری‘ اور ’خود اذیتی‘ خاص ہیں۔ ان احساسات کا احاطہ کرنے والے ان کے کچھ اشعار بطور نمونہ پیش ہیں۔

مری حیات ہے محروم مدعائے حیات

وہ رہ گزر ہوں جسے کوئی نقش پا نہ ملا

---

تو کہاں تھی اے اجل اے نامرادوں کی مراد

مرنے والے راہ تیری عمر دیکھا کیے

---

بیمار ترے جی سے گزر جائیں تو اچھا

جیتے ہیں نہ مرتے ہیں یہ مر جائیں تو اچھا

---


فانی کے یہاں موت، کفن، کافور اور قبر کا ذکر بھی کثرت سے ملتا ہے۔ فانی موت کو ایک عرفانی زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہی عرفانی زاویہ کریہہ اور مہیب موت کو خوبصورت بنا دیتا ہے۔ تب ہی تو وہ کہتے ہیں:

ادا سے آڑ میں خنجر کی منھ چھپائے ہوئے

وہ لائے میری قضا کو دولہن بنائے ہوئے

---

سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے

کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

---

فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن

غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا

---

زندگی عمر گزشتہ کی ہے میت فانی

زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

---

فانی کا غم جب بڑھتا ہے تو یاس کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں جہاں موت اور حیات میں انہیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔

فانی کی زندگی بھی کیا زندگی ہے یارب

موت اور زندگی میں کچھ فرق چاہیے تھا

درد، غم، یاس، الم کے احساس والے کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے:

دل سراپا درد تھا وہ ابتدائے عشق تھی

انتہا یہ ہے کہ فانی درد اب دل ہو گیا

---

اے درد یہ چٹکیاں کہاں تک

اٹھ اور جگر کے پار ہو جا

---

اجڑا ہے تو اب یہ کبھی آباد نہ ہوگا

میرا دل برباد ہے ویرانہ نہیں ہے

---

ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب

اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے

---

ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر

آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے

---


فانی بدایونی کے حالات زندگی، طرز حیات، مزاج اور افتاد طبع کا گہرائی سے مطالعہ اور تجزیہ کرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ عزیزوں کی ناگہانی اموات کو چھوڑ کر بقیہ جو بھی پریشانیاں اور مشکلات انہیں پیش آئیں وہ ان کی خریدی ہوئی تھی۔ جس یاس، غم اور حرما نصیبی کا وہ رونا روتے رہے اس کے ذمہ دار وہ خود تھے۔ انہوں نے ملازمتوں کو ٹھوکریں مار مار کر دور بھگایا۔ فانی بدایونی کی پوری زندگی پر جان ایلیا کا ایک مصرع پوری طرح صادق آتا ہے- ’خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔