ہمہ جہت ادبی تخلیق کار ڈاکٹر منظر عباس نقوی… جمال عباس فہمی

امروہہ کے معروف کراماتی صوفی بزرگ سید حسین شرف الدین شاہ ولایت منظر عباس نقوی کے مورث اعلی ہیں۔ جن کا نسب دس واسطوں سے فرقہ امامیہ کے دسویں امام علی نقی تک پہنچتا ہے۔

ڈاکٹر منظر عباس نقوی
ڈاکٹر منظر عباس نقوی
user

جمال عباس فہمی

ادب گاہ امروہہ کو صرف یہی اعزاز حاصل نہیں ہے کہ اس نے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کو گہرہائے آبدار دیئے بلکہ بہت سے ایسے ہیروں کی تراش خراش یہاں کے لوگوں نے کی جن کی آب و تاب نے ادبی دنیا کو جگمگا دیا۔ معروف اردو شاعر خواجہ حیدر علی آتش کی اردو شاعری پر امروہہ کے مصحفی کا احسان ہے تو اردو شعرو سخن پر امروہہ کے ہی میر سعادت علی کا احسان ہے کہ میر تقی میر جیسا امام غزل اس کے دامن کو ملا، یہ میر سعادت علی ہی تھے جنہوں نے میر تقی میر کو اردو میں سخن گوئی کی ترغیب دی۔ اس سے پہلے میر تقی میر فارسی میں شعر کہتے تھے۔ ان ہی میر سعادت علی کے خانوادے کے چراغ کا نام ہے ڈاکٹر پروفیسر سید منظر عباس نقوی۔

میر سعادت علی منظر عباس کی والدہ اعجاز فاطمہ نقوی کے پردادا تھے۔ منظر عباس نقوی امروہہ کے محلہ حقانی میں جس مکان میں رہائش پذیر تھے وہ میر سعادت علی کی ہی حویلی کا ایک حصہ ہے۔ منظر عباس نقوی نے یادگار کے طور پر سعادت علی کی حویلی کے کچھ در محفوظ رکھے ہوئے تھے۔ منظر عباس نقوی ایک تنقید نگار، محقق، مصنف، مرتب، شاعر، مرثیہ گو۔ اور مترجم کے طور پر اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ منظر عباس نقوی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ رہے ہیں۔ پروفیسر منظر عباس نقوی نے درجنوں کتابیں تحریر کیں، متعدد شخصیات اور موضوعات پر لیکچرز دیئے، پچاسیوں پیپرز تحریر کئے۔ انہوں نے انگریزی کے کئی معروف شاعروں کی نظموں کا اردو میں منظوم ترجمہ بھی کیا، منظر عباس نقوی کو آل انڈیا میر اکیڈمی امتیاز میر ایوارڈ سے نواز چکی ہے۔


امروہہ کے معروف کراماتی صوفی بزرگ سید حسین شرف الدین شاہ ولایت منظر عباس نقوی کے مورث اعلی ہیں۔ جن کا نسب دس واسطوں سے فرقہ امامیہ کے دسویں امام علی نقی تک پہنچتا ہے۔ اور اس سے اوپر جاکر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اور دختر رسول بی بی فاطمہ سے متصل ہوجاتا ہے۔ جبکہ مادری سلسلہ نسب پانچ واسطوں سے ہوتا ہوا میر تقی میر کے ہم عصر اور بہ تحقیق ڈاکٹر عبدالحق ان کے استاد میر سعادت علی امروہوی سے متصل ہوتا ہے۔ میر سعادت علی بھی شاہ ولایت کی اولاد میں ہی ہیں۔

منظر عباس یکم نومبر1933 یں امروہہ کے محلہ حقانی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید عسکر حسن تھا، 1954 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے آنرس اور 1955 میں بی ایڈ کیا۔ اے ایم یو سے ہی 1959 میں ایم اے کیا۔ 1962 میں پروفیسر مجنوں گورکھپوری کی نگرانی میں وحید الدین سلیم کی حیات اور ادبی خدمات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بحیثیت استاد اے ایم یو کے شعبہ اردو سے ہی وابستہ ہو گئے 1975میں ریڈر بنے۔ 1983 میں پروفیسر ہوئے اور جولائی 1990 میں اردو کے صدر شعبہ مقرر ہوئے۔ اکتوبر1993 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔


منظر عباس تنقید کے میدان کے شہسوار ہیں۔ اسلوبیات ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ لیکن غضب کا شعری ذوق رکھتے ہیں۔ یہ ان کا شعری ذوق ہی ہے کہ کسی استاد شاعر کے آگے زانوئے ادب طے کئے بغیر انگریزی شعرا کے کلام کا اردو میں منظوم ترجمہ بھی کیا اور تین مراثی بھی نظم کئے۔ منظر عباس کا قلمی سرمایہ بہت ہے۔ انہوں نے نثر اور نظم دونوں میدانوں میں کام کیا۔ 'نثر نظم اور شعر' ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں اسلوب اور اس کی تخلیق، خطوط غالب کا اسلوبیاتی مطالعہ۔ خورشید الاسلام کی نثر ایک تجزیہ، ناول کا فن، میر کی امیجری اور اقبال کا شعری اسلوب عنوان کے تحت مضامین شامل ہیں۔ جبکہ تنقیدی مضامین کا ایک اور مجموعہ 'اسلوبیاتی مطالعہ' کے نام سے بھی شائع ہوا۔ جس میں نثر نظم اور شعر کے مضامین کے ساتھ ساتھ پریم چند کی افسانہ نگاری، خیالستان کا اسلوب، رشید صاحب کا اسلوب، مولانا آزاد کا اسلوب، یادوں کی برات کا اسلوبیاتی مطالعہ، تخلیق شعر، جون ایلیا کے انشائیے، جون ایلیا کی غزل گوئی،غزلیات جون ایلیا، تغزل کا مفہوم اور شناخت، مراثی انیس میں تاریخ کی شعری تعریف، مرثیہ کی لسانی اہمیت، جذبی کی غزل گوئی، اختر الایمان کا آرٹ، بال جبریل کی غزلیں، صنف سلام، علامہ طالب جوہری کی شاعری،، جدید مرثیہ کا بانی نسیم امروہوی کے عنوان سے مضامین شامل ہیں۔ نسیم امروہوی کی مرثیہ نگاری پر ایک طویل مضمون میں منظر عباس نقوی نے ان کے خصائص فن کا لسانی مہارت، علمی اساس، مکالماتی اسلوب، تمثیل نگاری اور امیجری کے پس منظر میں جائزہ لیا۔ بقول منظر عباس نسیم امروہوی کی زبان عام بول چال کی اردو نہیں ہے بلکہ در حقیقت اردو معلیٰ ہے۔ وہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ 'نسیم کے مرثیوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں کہیں شاعرانہ تخیل بے لگام نہیں ہونے پاتا'۔

منظر عباس کی 'اسلوبیاتی مطالعہ' کتاب کئی تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہے۔ جبکہ 'تنظیم مدرسہ' نامی کتاب معلم اردو کے نصاب کا حصہ ہے۔ 'تفہیم اور تجزیہ' بھی ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ 'نوائے دروں' منظر عباس کی نظم کردہ نعتوں، منقبتوں اور مراثی پر مشتمل مجموعہ ہے۔ منظر عباس نے 'حسرت موہانی ایک تعارف' کے عنوان سے بھی ایک کتاب لکھی اس میں منظر عباس نے حسرت موہانی کا سوانحی خاکہ پیش کرنے کے ساتھ حسرت موہانی کی شاعری، ادبی خدمات، اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلو قلم بند کئے ہیں۔ 'اردو شاعری کا قومی کردار انیسویں صدی کے آئینے' میں اور 'اقبال کی معنویت عہد حاضر میں' بھی منظر عباس کی لائق مطالعہ تحریریں ہیں۔ منظر عباس نے عراق، ایران اور شام کے اپنے سفر کے تجربات اور مشاہدات کو 'سفر شوق ' کے عنوان سے قلم بند کیا ہے۔ 'منکہ' کے عنوان سے مختصر سوانح بھی تحریر کی۔ 'قلم فرسائیاں میری' کے عنوان سے ان کے تنقیدی اور ادبی مضامین کا مجموعہ بھی منظر عام پر موجود ہے۔ 'صدائے استغاثہ' مرثیہ بھی شائع ہو کر مراثی کے با ذوق قارئین کی داد حاصل کرچکا ہے۔


منظر عباس کا ایک اور بڑا ادبی کارنامہ معروف انگریزی شاعروں کے منتخب کلام کو اردو نظم کے قالب میں ڈھالنا ہے۔ منظر عباس نے یہ کام شوقیہ کیا۔ کسی زبان کی شاعری کو دوسری زبان کا شعری پیراہن عطا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے انگریزی زبان اور اس کی گرامر پر مکمل عبور بھی درکار ہے اور اردو زبان کی شعری نزاکتوں کا ادراک بھی ضروری ہے۔ بقول منظر عباس کے 'انہوں نے قاری کو اصل متن سے مانوس کرنے کے لئے ترجمے میں حسب ضرورت شعری تصریحات سے کام لیا ہے'۔ اسی لئے انہوں نے اسے لفظی ترجمہ نہیں کہا بلکہ معنوی ترجمانی کہا۔ انگریزی نظموں کے اردو ترجمے پر مبنی 'نغمات فرنگ' کے عنوان سے ان کی ایک کتاب بہت مقبول ہوئی ہے۔ نغمات فرنگ' میں ولیم ورڈز ورتھ، جان ملٹن، جارج بائرن، ٹامس مور، رابرٹ فراسٹ الفریڈ ٹینی سن اور سی جی روزیٹی کی منتخب نظموں کا اردو میں منظوم ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ولیم ورڈز ورتھ، منظر عباس کے پسندیدہ انگریزی شاعر ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ 'نغمات فرنگ' میں ورڈز ورتھ کی پانچ نظموں کا منظوم اردو پیراہم شامل ہے۔ 'نغمات فرنگ' 2017 میں شائع ہوئی۔

ولیم ورڈس ورتھ کی مختصر نظم لوسی کو منظر عباس نے جس خوبصورتی کے ساتھ اردو کا پیراہن عطا کیا ہے۔ وہ قابل تعریف ہے۔

وہ رہا کرتی تھی اس دنیا کے ہنگاموں سے دور

یعنی دنیا کی بشر پامال سب راہوں سے دور

ایک دوشیزہ کہ جس کا قدر داں کوئی نہ تھا

جاننے پہچاننے والا یہاں کوئی نہ تھا

گو بنفشہ پوری صورت سے نظر آتا نہیں

پتھروں میں چھپ کے لیکن بانکپن جاتا نہیں

اس ستارے کی طرح دلکش جو اکثر رات میں

بادلوں سے جھانکتا ہو موسم برسات میں

آہ وہ لڑکی کہ جس کا جاننے والا کوئی نہ تھا

موت کا جس کی کسی کے لب پہ چرچا تک نہ تھا

یوں تو کتنے ماہ رو دام اجل میں آگئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے


منظر عباس نے ورڈز ورتھ کی ایک طویل نظم

Ode on limitation of immorality from the recollection of early childhood کو 'عالم جاودانی کی باتیں' کے عنوان سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ پیش ہے اس نظم کا پہلا بند

اک زمانہ تھا کہ سبزہ زار و کنج و جوئبار

یہ زمیں اور اس کا ہر نظارہ

ایسا لگتا تھا کہ ہے نور ازل سے ہمکنار

ایک خواب خوش جسے بھولا نہ تھا میں زینہار

اب کسی شے میں مگر پہلی سی کیفیت نہیں

جس طرف بھی اٹھ کے جاتی ہے نظر

کوئی نظارہ بھی اب تو روکش جنت نہیں

منظر عباس نے تین مراثی نظم کئے۔ انہوں نے شعری تخلیقات کا کام ریٹائرمنٹ کے بعد شروع کیا۔ کربلا کے شہید تصویر پیغمبراکرمؐ جناب علی اکبر کے حال کے مرثیہ کے چند بند نمونے کے طور پر پیش ہیں۔

رخصت ہو فلک سے جو تاروں کا کارواں

اور دشت میں سحر کی سپیدی ہوئی عیاں

اس وقت تھا عجیب ہی کچھ نور کا سماں

باہر نکل کے جب علی اکبر نے دی اذاں

تکبیر سن کے جن و ملک جھومنے لگے

جبریل شاہزادے کا منہہ چومنے لگے

.....

تکبیر ہے خدا کی جلالت کا اعتراف

خلاق شش جہات کی رفعت کا اعتراف

رزاق کائنات کی سطوت کا اعتراف

سر چشمہ حیات کی قوت کا اعتراف

تکبیر کی صدا سے فضا نور بار ہے

تکبیر وجہ رحمت پرور دگار ہے

.....

مفہوم لا الہ ہے توحید ایزدی

یعنی شریک کار خدائی نہیں کوئی

ہے ساری کائنات کا فرماں روا وہی

بس اک اسی کی ذات ہے شایان سروری

غیر از خدا کسی کی پرستش روا نہیں

مسجود آدمی کا کوئی دوسرا نہیں

.....

میداں میں جیسے جسے ضیائے سحر بڑھی

اور دور دور پھیل گئی دن کی روشنی

شہرت تو تھی بہت علی اکبر کے حسن کی

لیکن نصیب سب کو زیارت ہوئی نہ تھی

دیکھا انہیں تو دور نبی یاد آگیا

حسن و جمال مصطفوی یاد آگیا

.....


زلفیں وہی جبین پر انوار بھی وہی

مژگان و چشم و ابروئے خمدار بھی وہی

بینی و گوش بھی وہی رخسار بھی وہی

دنداں وہی دہان گہر بار بھی وہی

صورت غرض بیان ہو کیا اس جناب کی

تصویر ہو بہو تھی رسالت مآب کی


استاد میر تقی میر میر سعادت علی کے خانوادے کا یہ چراغ 25 اپریل 2021 کو گل ہوگیا اور اپنے پیچھے اپنا قیمتی قلمی سرمایہ چھوڑ گیا۔ منظر عباس نقوی کی ادبی حیثیت کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ لیکن امید کی جانی چاہئے کہ اردو اسکالروں میں نئی نسل کا کوئی جوان ضرور منظر عباس نقوی کی شخصیت اور ادبی خدمات پر قلم اٹھائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔