یومِ اُردو پر خصوصی پیشکش: ’ہند کے جلوۂ صد رنگ کی ترجمان اُردو‘... ڈاکٹر آفتاب احمد منیری

پنڈت دیا شنکر نسیم، منشی ہرگوپال تفتہ، رتن ناتھ سرشار، تلوک چند محروم، پریم چند، مالک رام، فراق گورکھپوری اور پنڈت آنند موہن گلزار دہلوی جیسے سینکڑوں نام ہیں جو اردو کے جمہوری کردار کی گواہی دیتے ہیں

اردو زبان
اردو زبان
user

آفتاب احمد منیری

نو نومبر کی تاریخ کو محبان اُردو کے نزدیک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس افتخار کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آج ہی کے دن شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال پنجاب کے شہر سیالکوٹ (لاہور) میں پیدا ہوئے تھے۔ اقبال، جن کو دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزر چکا ہے، باوجود اس کے ان کی فلسفیانہ اور حکیمانہ شاعری کے اسرار و رموز ابھی تک علمی دنیا کے اوپر منکشف نہیں ہو سکے ہیں۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت کے اثبات کے لیے فقط اتنا ہی کہہ دینا کافی ہوگا کہ ان کی شاعری مشرقی ادبیات کی شعری روایت کا نقطہ عروج ہے۔ ہندوستان کی قدیم مشترکہ تہذیب اور متحدہ قومیت کے سب سے بڑے مفسر اقبال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے اپنی پیامی شاعری کے ذریعہ ادب کے قاری کو حب الوطنی اور وطن دوستی کے معنی بتائے ہیں۔ ترانۂ ہندی، بچے کی دعا، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اور نیا شوالہ جیسی لازوال نظموں کے خالق اقبال مشرق و مغرب میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ ان کا پیش کردہ فلسفہ خودی، فلسفہ حرکت و عمل اور پیام عشق جسد مردہ میں زندگی کی روح بیدار کر دینے کی قوت رکھتا ہے۔ نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں اڑتے پرندے ’شاہین‘ کی پرواز میں فلسفہ زندگی تلاش کرنے والے اقبال کی بین الاقوامی مقبولیت کے پیش نظر اہل اردو ان کے یوم پیدائش کو ’عالمی یومِ اردو‘ کے عنوان سے نہایت تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں۔ علامہ اقبال بجا طور پر اس کا استحقاق بھی رکھتے ہیں۔ مشرق و مغرب کے تمام مکاتب ہائے فکر سے خوشہ چینی کرنے والے اس فلسفی شاعر کی بدولت ہی زبان اردو کو عالمگیر شناخت حاصل ہوئی ہے۔ علامہ کے یہ اشعار اس سلسلے میں سند کی حیثیت رکھتے ہیں:

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

---

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

---

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

---

مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

زبان اردو ایک زندہ تہذیب کی علامت:


یہ واقعہ ہے کہ اردو زبان ہماری قدیم مشترکہ تہذیب اور متحدہ قومیت کا روشن ترین استعارہ ہے۔ قلب و نظر کو مسحور کرنے والی یہ زبان جس کی شیرینی اور لطافت دلوں کو مسخر کر لیتی ہے، اسی سرزمین ہند میں پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی اور یہیں بامِ عروج حاصل کیا۔ اقبال اشہر کے یہ اشعار زبان اردو کے آغاز و ارتقا کی جانب لطیف اشارے کرتے ہیں:

اردو ہے مرا نام میں خسرو کی پہیلی

میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی

دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا

سوداّ کے قصیدوں نے مرا حسن بڑھایا

ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا

میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی

تاریخ ادب اردو کا روشن ترین باب ہندوستان کی قومی تحریک آزادی ہے، جہاں میر و غالب کی اردو مجاہدین آزادی کے ہمراہ آزادی و حریت کے نغمے گاتی دکھائی دیتی ہے۔ دلوں کو گرما دینے والے یہ انقلابی اشعار اردو شاعروں کی قوتِ تخیل کا شاہکار کہے جا سکتے ہیں:

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

---

غازیوں میں بو رہے گی جب تلک ایمان کی

تخت لندن تک چلے گی تیغ ہندوستان کی

---

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا


اردو زبان کی تاریخ پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ اس زبان کی آبیاری میں بلاتفریق مذہب و ملت تمام باشندگان ہند نے اپنا خونِ جگر پیش کیا ہے۔ لہٰذا اس زبان کی تہذیبی تاریخ کے سیاق میں اگر کوئی بات سب سے زیادہ مستند قرار دی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ یہ زبان ہندوستان کے جلوۂ صد رنگ کی ترجمان ہے۔ پنڈت دیا شنکر نسیم، منشی ہرگوپال تفتہ، رتن ناتھ سرشار، تلوک چند محروم، پریم چند، مالک رام، فراق گورکھپوری اور پنڈت آنند موہن گلزار دہلوی جیسے سینکڑوں نام ہیں جو اردو کے جمہوری کردار کی گواہی دیتے ہیں۔

تقسیم وطن کے سانحۂ عظیم کے نتیجہ میں جب وطن عزیز کے اندر متحدہ قومیت کی بنیادیں کمزور پڑنے لگیں تو اردو زبان کو بھی شک کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔ ایسے پر آشوب دور میں بھی ایسے محبان اردو نکل کر سامنے آتے رہے جنھوں نے اس فرقہ پرستانہ سوچ کی نفی کی اور اہل اردو کی وطن دوستی و انسانیت نوازی کے گیت گائے۔

تقسیم وطن کے 70 سالوں بعد آج ملک میں وہ طاقتیں پھر سے سرگرم ہو گئیں ہیں جو اردو زبان کی روشن تاریخ اور اس کے جمہوری کردار سے خائف ہیں۔ ایسے نازک وقت میں یہ اہل اردو کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی زبان کے تحفظ کے لیے آگے آئیں اور منصوبہ بند طریقے سے اردو زبان کی ہمہ جہت ترقی کے لیے کوشش کریں۔

نسخۂ کیمیا:

یہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی ہوش ربا ترقی کا دور ہے۔ اس مشینی دور میں وہی زبانیں زندہ رہ سکتی ہیں جن کا براہ راست تعلق ٹیکنالوجی سے استوار ہو گیا ہو۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس ’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‘ جیسے سرکاری ادارے موجود ہیں جو اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کر رہے ہیں۔ حال کے برسوں میں اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا پر اردو کی موجودگی اس ادارہ کی فعالیت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔


اردو کی بقا اور ترقی کے حوالے سے اہل اردو کا رویہ نہایت افسوسناک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اردو اکیڈمی اور دیگر اداروں کے ذمہ داران اردو زبان کی تدریس اور سرکاری نوکریوں میں اردو کے امکانات کے سوال پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ یونیورسٹی کے پروفیسران کی بیدار مغزی اور اردو دوستی کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس اپنی مادری زبان کے فروغ اور اس کے مستقبل کو لے کر کوئی فکرمندی نہیں پائی جاتی۔

ایسے وقت میں اہل مدارس اور معلمین اردو کی مجاہدانہ کاوشوں کو سلام ہے جنھوں نے باد مخالف کے مقابل اردو کی شمع فروزاں کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔