زنجیر پہن کر رقص کرنے والا شاعر ’حبیب جالب‘

24 مارچ 1928 کو ہندوستان میں پیدا ہوئے اور 12 مارچ 1993 کو پاکستان میں آخری سانس لینے والے حبیب جالب نے اپنی 65 سالہ زندگی میں آمریت کے خلاف جو علم بلند کیا اس کی نظیر نہیں۔

گرافکس قومی آواز
گرافکس قومی آواز
user

تنویر احمد

اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا

رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا

لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا

ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا

نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو

حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا

یہ اشعار ہیں اردو ادب کے معروف شاعر اور جمہوریت کے حق میں سینہ سپر رہنے والے حبیب جالب کے۔ حبیب جالب، یعنی ایک ایسی شخصیت جو تادم حیات نہ کبھی کسی حکمراں کے سامنے جھکے اور نہ ہی عوام کے مسائل اور ان پر ہونے والے مظالم سے چشم پوشی کی۔ وہ آمریت کے خلاف مرد مجاہد کی طرح کھڑے رہنے کے ساتھ ساتھ عوام کو متحد اور بیدار بھی کرتے تھے۔ اسی لیے تو انھوں نے مذکورہ بالا غزل کے مقطع میں فرمایا ہے:

کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہ کے مصاحب جالبؔ

رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا

آج (24 مارچ) حبیب جالب کا یومِ پیدائش ہے اور اس موقع پر ’دستور‘، ’اُٹھو مرنے کا حق استعمال کرو‘ اور ’بگیا لہو لہان‘ جیسی نظمیں یاد آ رہی ہیں۔ 1928 کو ہندوستان کے ہوشیار پور میں پیدا ہوئے جالب محض 15 سال کی عمر سے مشق سخن کرنے لگے تھے۔ کسان گھرانے سے تعلق رکھنے والے جالب کو نظیر اکبر آبادی کے بعد دوسرا سب سے بڑا عوامی شاعر تصور کیا جاتا ہے لیکن انھوں نے شروع میں روایتی شاعری ہی کی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ پھر 1956 میں لاہور چلے گئے۔ اس درمیان پاکستان کے اندر انھوں نے جس طرح کی معاشرتی ناانصافیوں کو دیکھا اس سے بے حد متاثر ہوئے اور حکمراں طبقہ کے خلاف جو علم بلند کیا اس کو کبھی جھکنے نہیں دیا۔ انھوں نے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کے دور میں آمریت کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں متعدد بار جالب کو قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں، لیکن بنیادی طور پر کمیونزم کے حامی اس ذی ہوش نے کبھی پیٹھ نہیں دکھائی۔ انھوں نے جو دیکھا اور محسوس کیا، نتائج کی فکر کیے بغیر اس کو اپنے اشعار میں اتارتے رہے۔ بطور مثال نظم ’جمہوریت‘ کا ایک حصہ دیکھیے:

دس کروڑ انسانو!

زندگی سے بیگانو!

صرف چند لوگوں نے

حق تمہارا چھینا ہے

خاک ایسے جینے پر

یہ بھی کوئی جینا ہے

بے شعور بھی تم کو

بے شعور کہتے ہیں

حبیب جالب اپنی نظموں سے عوام کو بیدار کرتے ہوئے ان میں انقلاب پیدا کرنے کی بھی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ عوام کو سب سے زیادہ جو چیز متاثر کرتی ہے وہ اشعار میں استعمال کیے جانے والے حبیب جالب کے عام فہم الفاظ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں اپنے پن کا احساس دلاتی تھیں اور زبان زد ہو جایا کرتی تھیں۔ ’اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو‘ نظم کا یہ بند ہی دیکھ لیں:

جینے کا حق سامراج نے چھین لیا

اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو

ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے

مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو

مقبول زمانہ نظم ’دستور‘ کا بھی یہ بند دیکھ لیجیے جس میں ان کے بے باک قلم نے ظلم، زیادتی اور عدم مساوات کا احاطہ کیا جو زبان زدِ عام ہو گیا:

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

اس کا اگلا بند بھی دیکھیے جس میں وہ نہ پھانسی سے گھبراتے ہیں اور نہ قید و بند کی صعوبتوں سے:

میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے

میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

ظلم کی بات کو جہل کی رات کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

مشہور پاکستانی فلم ’زرقا‘ میں ’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘ نغمہ سے شہرت دوام حاصل کرنے والے حبیب جالب ہمیشہ ایک عام آدمی کی طرح سوچتے تھے۔ وہ پاکستان کے محنت کش طبقہ کی زندگی میں تبدیلی کے خواہاں تھے اسی لیے سماج کے ہر اس پہلو سے جنگ چھیڑی جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا۔ انھوں نے اپنی انقلابی سوچ سے آخری سانس تک سماج کے محکوم طبقہ کو اعلیٰ طبقات کے استحصال سے چھٹکارا دلانے کی کوشش کرتے رہے۔ انھوں نے صرف اپنی نظموں سے ہی نہیں، غزلوں سے بھی مجبور انسانوں کی حالت زار بیان کی اور انھیں ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کا حوصلہ بخشا۔ غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ہر شخص اپنے اپنے غموں میں ہے مبتلا

زنداں میں اپنے ساتھ رلائیں کسی کو کیا

جینے کی دعا دینے والے یہ راز تجھے معلوم نہیں

تخلیق کا اک لمحہ ہے بہت بیکار جئے سو سال تو کیا

کچھ بھی ہوتا پر نہ ہوتے پارہ پارہ جسم و جاں

راہزن ہوتے اگر ان رہنماؤں کی جگہ

کتنا سکوت ہے رسن و دار کی طرف

آتا ہے کون جرأت اظہار کی طرف

ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم

کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم

عوام کے تئیں حبیب جالب کی محبت اور آمریت سے نفرت ظاہر کرنے والے کئی واقعات ان کی زندگی میں گزرے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک بار ڈپٹی کمشنر نے انھیں مشورہ دیا کہ حکمرانوں کی مخالفت چھوڑ دو۔ تم غریب آدمی ہو، اپنا نہیں تو کم از کم اپنے بچوں کا ہی خیال کرو۔ اس پر جالب نے کہا کہ ’’دیکھو ڈپٹی کمشنر، تم نے زندگی میں اتنا کمایا نہیں جتنا میں نے ٹھکرایا ہے۔‘‘ پاکستان کے کالم نگار سلیمان کھوکھر نے بہت خوب لکھا ہے کہ:

’’جنرل ایوب خاں سے لے کر جنرل ضیاء تک جالب کی جدوجہد کی داستان ایک نہیں کئی داستانیں ہیں۔ ان کہانیوں میں دار و رسن کے نوحے بھی ہیں اور شعر و سخن کے زمزمے بھی، قید تنہائی کا سناٹا بھی ہے اور زور قلم کا فراٹا بھی۔ عوامی حقوق کی باتیں بھی ہیں اور جرنیلوں کی گھاتیں بھی، پچھلے پہر کی یادیں بھی ہیں اور دیدہ و دل کی فریادیں بھی۔ غرض زلف و زنجیر کے رشتے اور زخم و مرہم کے ناطے جالب کے فکر کے بین السطور کی آبرو ہیں۔‘‘

حبیب جالب کی نظموں کے پانچ مجموعے منظر عام پر آئے ہیں جن کے نام ہیں ’برگِ آورہ‘، ’سر مقتل‘، ’عہدِ ستم‘، ’ذکر بہتے خون کا‘ اور ’گوشے میں قفس کے‘۔ ان مجموعوں کے ناموں سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے عوامی مسائل اور لوگوں پر ہوئے ظلم کو اپنی شاعری میں جیا ہے۔ 12 مارچ 1993 کو عوام کا یہ ’رہنما‘ اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ ایسا لگتا ہےجیسے حکمراں طبقہ اور احباب حل و عقد سے لڑتے لڑتے وہ تھک گئے تھے، اسی لیے تو انھوں نے یہ شعر کہا تھا:

چلتے پھرتے روشن رستے تاریکی میں ڈوب گئے

سو جاؤ اب جالبؔ تم بھی کیوں آنکھیں سلگاتے ہو

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Mar 2018, 6:07 PM