راہی معصوم رضا: گنگا-جمنی تہذیب کا علمبردار

مایہ ناز ادیب راہی معصوم رضا
مایہ ناز ادیب راہی معصوم رضا
user

تنویر احمد

میرا نام مسلمانوں جیسا ہے

مجھ کو قتل کرو اور میرے گھر میں آگ لگا دو۔

لیکن میری رگ رگ میں گنگا کا پانی دوڑ رہا ہے،

میرے لہو سے چلّو بھر کر

مہادیو کے منھ پر پھینکو،

اور اس جوگی سے یہ کہہ دو

مہادیو! اپنی اس گنگا کو واپس لے لو،

یہ ہم ذلیل ترکوں کے بدن میں

گاڑھا، گرم لہو بن بن کے دوڑ رہی ہے۔

یہ نظم آج کے ماحول کی کتنی بہترین ترجمانی کر رہی ہے۔آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ یہ نظم 1965 میں شائع ہوئے شعری مجموعہ ’اجنبی شہر، اجنبی راستے‘ میں شامل تھی جس کے مصنف ہیں راہی معصوم رضا۔ جی ہاں، وہی راہی معصوم رضا جنھوں نے گنگا-جمنی تہذیب کو اپنے دل میں بسائے رکھا اور اپنی تحریروں، اپنے ناولوں اور اپنے اشعار سے خود کو حقیقی معنوں میں ’ہندوستانی‘ ثابت کیا۔ ان کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ فرقہ پرستی کے خلاف آواز بھی بلند کرتے تھے اور سماجی و اخلاقی اقدار کی مشعل بھی جلاتے تھے۔ یہی سبب ہے یکم ستمبر 1927 کو اتر پردیش کے گنگولی میں پیدا ہوئے راہی معصوم رضا کو جتنی محبت اُردو والوں سے ملی، اتنی ہی ہندی والوں سے بھی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ’مہابھارت‘ سیریل کے ڈائیلاگ لکھ کر انھوں نے گنگا-جمنی تہذیب کی بہترین مثال پیش کی۔ اس سیریل نے انھیں نئی شناخت دی اور شہرت کی اونچائیوں پر پہنچا دیا۔ ہندو طبقہ میں تو وہ ’دوسرے وید ویاس‘ کہے جانے لگے۔

ویسے تو راہی معصوم رضا کو لوگ ان کی سماجی اور انقلابی شاعری کی وجہ سے زیادہ جانتے ہیں لیکن انھوں نے ’آدھا گاؤں‘، ’ٹوپی شکلا‘، ’اوس کی بوند‘، ’ہمت جون پوری‘ اور ’دل ایک سادہ کاغذ‘ جیسے ناول بھی لکھے جس میں ہند-پاکستان کی تقسیم کا درد، فسادات کے لمحات اور سماجی و سیاسی مسائل کو موضوع بنایا گیا۔ جب آپ ان کا مطالعہ کیجیے گا تو احساس ہوگا کہ راہی معصوم رضا 1947 سے 1980 کے درمیان کے درد اور مسائل بیان نہیں کر رہے ہیں بلکہ اکیسویں صدی کے ہندوستان کے درد اور مسائل پیش کر رہے ہیں۔ 1966 میں منظر عام پر آنے والے ناول ’آدھا گاؤں‘ کا وہ اقتباس ہی دیکھ لیں جو اس ناول کا حصہ آغاز ہے:

’’غازی پور کے پرانے قلعے میں اب ایک اسکول ہے جہاں گنگا کی لہروں کی آواز تو آتی ہے لیکن تاریخ کے گنگنانے یا ٹھنڈی سانسیں لینے کی آواز نہیں آتی۔ قلعے کی دیواروں پر اب کوئی پہرے دار نہیں گھومتا، نہ ہی ان تک کوئی طالب علم ہی آتا ہے جو ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں چمچماتی ہوئی گنگا سے کچھ کہے یا سنے۔ گدلے پانی کی اس دھارا کو نہ جانے کتنی کہانیاں یاد ہوں گی، لیکن مائیں تو جنوں، پریوں، بھوتوں اور ڈاکوؤں کی کہانیوں میں مگن ہیں اور گنگا کے کنارے نہ جانے کب سے بے قرار اِس شہر کو اس کا خیال بھی نہیں آتا کہ گنگا کی پاٹھ شالہ میں بیٹھ کر اپنے اجداد کی کہانیاں سنے۔‘‘

اس اقتباس میں بھاگ دوڑ بھری زندگی کا عکس اور گنگا ندی سے جڑی بے شمار ایسی کہانیوں کی طرف اشارہ ہے جو تاریخ کے دھندلکے میں کہیں کھو گئیں۔ اس میں گنگا کی جن لہروں کا تذکرہ ہے اس کو آپ غازی پور کے پرانے قلعہ سے ہٹا کر اپنے علاقے کی کسی ندی کی لہروں سے جوڑ کر دیکھیے۔ یقیناً آپ محسوس کریں گے کہ راہی معصوم رضا آپ کے علاقے کی کہانی کہہ رہے ہیں۔

راہی معصوم رضا نے اپنی آنکھیں غازی پور میں ضرور کھولیں، اور اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ضرور حاصل کی، لیکن اپنی زندگی کا آخری حصہ ممبئی میں گزارا۔ 1968 میں ممبئی کو اپنی قیام گاہ بنانے والے راہی ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کے ساتھ فلموں کے لیے اسکرپٹ رائٹنگ بھی کرنے لگے۔ اس سے صرف ان کی روزی روٹی کا مسئلہ ہی حل نہیں ہوا بلکہ ان کی صلاحیتوں نے انھیں قدآور بنا دیا۔ ’مہابھارت‘ کا تذکرہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے، اس کے علاوہ انھوں نے ’نیم کا پیڑ‘، ’میں تلسی تیرے آنگن کی‘ جیسے سیریل میں بھی اسکرین پلے رائٹنگ کی۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ انھوں نے تقریباً 300 فلموں اور سیریلوں کے لیے اسکرین پلے رائٹنگ اور ڈائیلاگ رائیٹنگ کی ذمہ داری نبھائی۔ ’میں تلسی تیرے آنگن‘ فلم کے لیے 1979 میں راہی کو فلم فیئر ایوارڈ (بیسٹ ڈائیلاگ رائٹنگ) بھی دیا گیا۔

جہاں تک راہی معصوم رضا کی شاعری کا سوال ہے، انھوں نے اپنی شاعری میں لوگوں کے دَرد کو اس طرح پیش کیا جیسے وہ اُن کا اپنا درد ہو۔ یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دَرد کو لوگوں کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ لوگ اُسے اپنا دَرد سمجھنے کے لیے مجبور ہو گئے۔ راہی کو اپنے وطن گنگولی اور غازی پور سے بے انتہا محبت تھی، لیکن جب انھیں روزی روٹی کی تلاش میں اپنا شہر چھوڑنا پڑا تو بہت تکلیف ہوئی۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے دوسرے وطن پرستوں کو اپنا وطن چھوڑتے ہوئے ہوتی ہے۔ غالباً اسی محبت کے عالم میں انھوں نے یہ شعر لکھا:

ہم تو ہیں پردیس میں، دیس میں نکلا ہوگا چاند

اپنی رات کی چھت پر، کتنا تنہا ہوگا چاند

آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ کیا یہ صرف راہی معصوم رضا کا درد ہے! یقیناً یہ ہر پردیسی کا درد ہے۔ اس غزل کو جگجیت سنگھ اور چترا نے اپنی سحر انگیز آواز میں گایا بھی ہے۔ آپ سنیں گے تو آنکھیں نم ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گی۔ پھر ایک دوسری غزل کا یہ شعر بھی دیکھیے جس میں پردیس میں رہتے ہوئے اپنا دِل بہلانے کی کوشش کی گئی ہے:

سوچتا تھا کیسے کٹیں گی راتیں پردیس کی

یہ ستارے تو وہی ہیں میرے آنگن والے

گویا کہ غریب الوطنی کا دَرد مٹانے کے لیے دَوا بھی وہ خود ہی تلاش کر رہے ہیں۔ ایک عام آدمی کی زندگی میں بے شمار مسائل ہوتے ہیں۔ ان مسائل کا سامنا بھی راہی معصوم رضا نے کیا۔ لوگوں کے طرح طرح کے الزامات کا بھی سامنا کیا، سماجی مسائل سے بھی دو چار ہوئے اور معاشی پریشانیوں میں بھی مبتلا ہوئے۔ اسی طرح کے حالات کا عکس ان کے اس شعر میں نظر آتا ہے:

زہر ملتا رہا زہر پیتے رہے، روز مرتے رہے روز جیتے رہے

زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی، اور ہم بھی اسے آزماتے رہے

یقیناً آپ اس شعر پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکے ہوں گے۔ اسی طرح کے اشعار تو ہیں جس نے لوگوں کے دلوں میں انھیں مخصوص مقام عطا کر دیا ہے۔ 15 مارچ 1992 کو اپنی تحریروں سے سحر پیدا کرنے والا یہ قلم کار اس دنیا سے ضرور چلا گیا، لیکن وہ آج بھی ہر مذہب اور ہر عقیدہ کو ماننے والے لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ان جیسا گنگا-جمنی تہذیب کا علمبردار اب ڈھونڈے نہیں ملتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Sep 2017, 8:31 PM