’ہر اِک مکان میں جلا پھر دیا دیوالی کا‘، مشہور شاعر نظیر اکبر آبادی کے لازوال اشعار میں ’دیوالی کا جشن‘ دوبالا کرنے کا جادو
ایک ایسے وقت میں جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر تھی اور انگریز اپنی نوآبادیاتی گرفت مضبوط کر رہے تھے، تب نظیر کی شاعری ہندوستان کی کثرت میں وحدت کی درخشاں علامت بن کر ابھری۔

ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دیوالی کا
ہر اک طرف کو اُجالا ہوا دیوالی کا
سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دیوالی کا
جب اردو کے مشہور و معروف شاعر نظیر اکبرآبادی (1830-1740) نے دیوالی سے متعلق اپنے درخشاں اشعار قلم بند کیے، تو وہ محض ’روشنیوں کے تہوار‘ پر نہیں لکھ رہے تھے، بلکہ وہ ایک ایسے ہندوستان کی روح رقم کر رہے تھے جہاں خوشی مذہب سے بالاتر تھی، جہاں ثقافتی جشن اجتماعی تھا، اور جہاں دیے کی روشنی مشترکہ وراثت کی علامت تھی۔
ایک ایسے وقت میں جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر تھی اور انگریز اپنی نوآبادیاتی گرفت مضبوط کر رہے تھے، تب نظیر کی شاعری ہندوستان کی کثرت میں وحدت کی درخشاں علامت بن کر ابھری۔ انہوں نے دیوالی کو کسی ایک مذہب کے ذریعہ رسماً منایا جانے والا تہوار نہیں سمجھا بلکہ ایک ایسا ثقافتی میلہ قرار دیا جو سبھی کے لیے تھا۔ شاعر سیماب اکبر آبادی کہتے ہیں کہ ’’ان کے زمانے میں ہندو اور مسلمان صرف عبادت کے طریقوں میں مختلف تھے، زندگی گزارنے کے طریقے میں نہیں۔‘‘ یعنی تہوار، موسیقی، خوراک و زبان مشترک تھی، اور تہواروں میں سب سے زیادہ خوشگوار ماحول دیوالی میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ نظیر کے ہندوستان میں چراغ ہر گھر کو روشن کرتے تھے، اور دل ہر محفل کو منور:
ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دیوالی کا
ہر اک طرف کو اجالا ہوا دیوالی کا
سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دیوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا دیوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا دیوالی کا
رنگوں، مٹھائیوں اور انسانیت کا تہوار:
اپنی مشہور نظم ’ساماں دیوالی کا‘ میں نظیر عام چیزوں کو غیر معمولی بنا دیتے ہیں۔ وہ بازار کو رنگوں اور آوازوں کے ایک آرکیسٹرا کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مٹھائیاں جواہرات کی طرح چمکتی ہیں، کھلونے بچوں کی طرح چہکتے ہیں اور گلیوں میں قہقہے گونجتے ہیں:
کھلونے کھیلوں بتاشوں کا گرم ہے بازار
ہر اک دکاں میں چراغوں کی ہو رہی ہے بہار
اور یہ بھی کہ:
مٹھائیوں کی دکانیں لگا کے حلوائی
پکارتے ہیں کہ ’لا لا! دوالی ہے آئی‘
نظیر کی دنیا میں دیوالی بچوں کی ہنسی، مٹھائیوں کی خوشبو اور چراغوں کی جھلمل کے امتزاج کا نام ہے۔ اس نظم (ساماں دیوالی کا) کا ہر شعر دیوالی کی اصل روح کو بیان کرتا ہے، یعنی اس میں گرمجوشی، سخاوت اور اجتماعی مسرت موجود ہے۔ غربت یا محرومی بھی اس خوشی کو ماند نہیں کرتی۔ نظیر طنز و مزاح کے ساتھ انسان دوستی کا جذبہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری
جو کچھ تھی جنس میسر بنا بنا ہاری
کسی نے چیز کسی کسی کی چرا چھپا ہاری
کسی نے گٹھری پڑوسن کی اپنی لا ہاری
یہ ہار جیت کا چرچا پڑا دوالی کا
یہاں جوا، جسے عام طور پر برائی تصور کیا جاتا ہے، مسرت اور شادمانی کی علامت بن جاتا ہے۔ ایک ایسی وقتی دیوانگی جو سب کو ہنسی اور روشنی میں متحد کر دیتی ہے۔ نظیر خود بھی اعتراف کرتے ہیں کہ وہ دیوالی کے جواری ہیں۔ مثلاً:
جو جواری ہو نہ برا اس کا مانیو یارو
نظیرؔ آپ بھی ہے جواریا دیوالی کا
اپنی ایک دیگر نظم ’ہمیں ادائیں دیوالی کی زور بھاتی ہیں‘ میں نظیر کی منظر نگاری فلمی تفصیل لیے ہوئے ہے۔ ان کی دیوالی مندروں یا آنگنوں تک محدود نہیں، وہ گلیوں، بازاروں، چھتوں اور دلوں میں بہتی ہے:
ہمیں ادائیں دیوالی کی زور بھاتی ہیں
مکاں مکاں میں بہاریں ہی جھم جھماتی ہیں
نظیر برفی، جلیبی، امرتی، لڈو اور بالوشاہی سے بھری مٹھائی کی دکانوں کو دیکھتے ہیں جہاں خریدار خوشی خوشی جمع ہیں۔ وہ کھلونا فروشوں کو دیکھتے ہیں جو رنگ برنگے مٹی کے ہاتھی، گھوڑے اور پرندے سجاتے ہیں:
کبوتروں کو دیکھو تو گٹ گٹاتے ہیں
ہرن اچھلے ہیں، گھوڑے ہنہناتے ہیں
مزید آگے بڑھتے ہیں تو نظیر کے یہاں کمہار کے بنائے ہوئے مٹی کے کھلونے ہندوستانی فنکارانہ روح کی علامت بن جاتے ہیں۔ وہ حیرت سے کہتے ہیں:
قلم کمہار کی کیا کیا ہنر جتاتی ہے
نظیر اکبر آبادی کے اشعار دولت نہیں، فن کی قدر کرتے ہیں۔ وہ عام دستکاری کو عوامی خوشی کا غیر معمولی مظہر بنا دیتے ہیں۔
تہوار کی ملی جلی روح:
شاید نظیر کی دیوالی کا سب سے متاثر کن لمحہ وہ ہے جب وہ بلا تعصب یہ منظر دکھاتے ہیں کہ عقیدے خوشی میں گھل مل گئے ہیں:
مسلمان کہتے ہیں حق اللہ، بولو مٹھو جان
ہنود کہتے ہیں پڑھو جی شری بھگوان
یہی اشعار گنگا جمنی تہذیب کی اصل روح کو سمیٹ لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی مشترکہ ثقافت کی مثال ہے جہاں مذہبی فرق نے دلوں کو آپس میں جدا نہیں کیا۔ نظیر کے نزدیک دیوالی کسی خاص مذہب کا تہوار نہیں، بلکہ یہ ایک ہندوستانی جشن ہے جو سبھی کا ہے۔ اُس دور میں روحانیت اور سماجیت ایک ہی جگہ گھل گئے تھے۔ آج جب شناخت کی سیاست تہواروں کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہے، نظیر کی دیوالی ہمیں اس پرانی، روشن دیوالی کی یاد دلاتی ہے جہاں اللہ اور بھگوان دونوں ایک ہی چراغ کی روشنی میں شامل تھے۔
زندگی اور روشنی کا دائمی تہوار:
نظیر کے لیے دیوالی محض چراغ جلانے یا رسم ادا کرنے کا دن نہیں بلکہ یہ انسانی تعلق، رشتوں کی تجدید اور خود زندگی کے جشن کا نام ہے۔
اٹاری، چھجے، در و بام پر بحالی ہے
جدھر کو دیکھو، اُدھر روشنی اجالی ہے
یہ اشعار صدیوں پر محیط ہیں۔ وہ اٹھارہویں صدی کے آگرہ پر بھی صادق آتے ہیں اور اکیسویں صدی کے دہلی پر بھی۔ دیے کی روشنی اب بھی امید، نئے پن اور ہم آہنگی کی علامت ہے۔ ایک نظم میں نظیر کہتے ہیں:
دوستوں کیا کیا دیوالی میں نشاط و عیش ہے
سب مہیا ہے جو اس ہنگام کے شایانِ شئے ہے
اور پھر یہ اشعار تو ان کے عقیدے اور جشن کے فلسفے کو سمیٹ لیتے ہیں:
ہے دسہرے میں بھی یوں گر فرحت و زینت نظیر
پر دیوالی بھی عجب پاکیزہ تر تیوہار ہے
کثرت میں وحدت کی روشنی کو پھر سے جلانا:
آج کے ہندوستان میں، جہاں تہواروں کو اکثر مذہبی رنگ دیا جاتا ہے، نظیر اکبرآبادی کی دیوالی کو یاد کرنا ثقافتی بازیافت کا عمل ہے۔ ان کے اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ دیوالی کبھی (اور اب بھی ہو سکتی ہے) ہندوستانی ہم آہنگی کی علامت تھی، جہاں ایمان ذاتی تھا لیکن جشن اجتماعی۔ جب وہ لکھتے ہیں کہ ’ہر اک دانت سے پیڑے اٹکتے پھرتے ہیں/امرتی اچھلے ہیں، لڈو ڈھلکتے پھرتے ہیں‘، تو وہ صرف منظر نہیں لکھ رہے تھے، بلکہ ایک تہذیبی روح کو منا رہے تھے۔ ایک ایسا ہندوستان جہاں ہنسی، تجارت اور روشنی نے لوگوں کو اس طرح جوڑا، جیسا ذات یا مذہب کبھی نہ جوڑ سکے۔ نظیر کی شاعری کے ذریعے دیوالی کو دوبارہ جینا دراصل اس ہندوستانی تصور کو دوبارہ حاصل کرنا ہے، جہاں ’ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دیوالی کا‘۔
(مضمون نگار سینٹ زیویرس کالج، ممبئی کے شعبۂ تاریخ کے سابق رکن ہیں)