قلندر صفت ادیب پروفیسر علی جاوید، الوداع!

پروفیسر علی جاوید ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی شخصیت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے قائم کردہ اصولوں سے انحراف کا راستہ نہیں اپنایا، جس کے سبب انہیں بے پناہ نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔

پروفیسر علی جاوید کی فائل تصویر
پروفیسر علی جاوید کی فائل تصویر
user

سید عینین علی حق

قلندرانہ صفات کے مالک اردو ہندی کے مشترکہ ادیب پروفیسر علی جاوید کا سانحہ ارتحال ایک بڑا خسارہ ہے، جسے پُر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کے انتقال کی خبر نے ہندی اردو کے درمیان قائم ایک رابطے کے پل کو منہدم کر دیا۔ چہار جانب رنج و غم کا ماحول قائم ہے۔ ان کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ آخری رسومات کی ادائیگی میں اردو والوں کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی والوں کی بھی بڑی تعداد دیکھی گئی۔ پروفیسر علی جاوید گزشتہ کئی ماہ سے مستقل ناساز چل رہے تھے، کچھ دنوں قبل ہارٹ اٹیک کی بھی شکایت ہوئی، لیکن ان کی ادب سے دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے خود کو سنبھالا اور مستقل لکھتے پڑھتے رہے۔ بلکہ ادبی مناظرے بھی خوب کیا کرتے تھے۔ غالباً 12 جولائی کی بات ہے انہوں نے "جنواد اور ادب کی تجارت" کے عنوان سے ہندی میں ایک مضمون لکھا اور مجھے حکم دیا اسے اردو میں ترجمہ کرو۔ اس مضمون نے ناگری رسم الخط میں شائع ہوئے ساحر لدھیانوی کے شعری اور فلمی گیتوں کے انتخاب "جاگ اٹھے خواب کئی" میں ہوئی غلطیوں سے پردہ اٹھایا اور غلطی کرنے والوں کے خوب پرخچے اڑائے ۔ وہ مضمون غالباً کسی اخبار میں شائع بھی ہوا۔

پروفسیر علی جاوید کا یہی اختصاص تھا کہ وہ ظلم و جبر، تاناشاہی، حق تلفی اور تشدد کو کسی بھی طور پر برداشت نہیں کرتے اور اس کا جواب ضرور دیا کرتے تھے۔ آج پروفیسر علی جاوید ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی شخصیت کے حوالے سے ایک بات کافی اہمیت کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے قائم کردہ اصولوں سے انحراف کا راستہ نہیں اپنایا، جس کے سبب انہیں بے پناہ نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔ وہ مصلحت، موقع پرستی، چاپلوسی، ذاتی مفادات اور منافقت جیسے عمل سے مبرا تھے۔

قلندر صفت ادیب پروفیسر علی جاوید، الوداع!

پروفیسر علی جاوید اترپردیش کے تاریخی شہر الہ آباد میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم سے لیکر گریجویشن کی تعلیم الہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی کا رخ کیا اور یہیں سے ایم اے، ایم فل اور 1983میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے۔ 1983سے 1998تک ذاکر حسین دہلی کالج میں رہے، 1998 سے 2020 تک شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی سے وابستگی رہی۔ ان کی سرپرستی میں درجنوں بچوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی۔ پروفیسر علی جاوید اپنے طلبا سے بے پناہ محبت و شفقت رکھتے تھے، ان میں کسی قسم کی انانیت نہیں تھی۔ وہ عاجزی و انکساری کا پیکر تھے۔ میں ان سے تقریباً پندرہ برسوں سے واقف ہوں اور جب اعلی تعلیم کی غرض سے دہلی یونیورسٹی میں 2011 میں داخلہ لیا تو علی جاوید سر سے اکثر وبیشتر باتیں ہوا کرتی تھیں، ایک بار کا اتفاق ہے پروفیسر علی جاوید سر سے ملاقات کی غرض سے ان کی رہائش پیتم پورہ غالب اپارٹمنٹ گیا، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے چائے بنائی اور کافی باتیں بھی ہوئیں۔

پروفیسر علی جاوید صاحب کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ نئی نسل کے لوگوں کو آگے بڑھانے میں اپنا نقصان نہیں سمجھتے تھے، 2019میں ایک دن مجھے حکم دیا کہ ترقی پسندوں کی ریاستی کانفرنس آلہ آباد میں منعقد ہورہی ہے، تم، نورین اور جسے چاہو لے کرچلو، ہم سب آلہ آباد گئے، ہمیں بولنے اور اظہار رائے کا موقع دیا، ہمارے قیام وطعام کا بہترین انتظام کرایا، جب پروگرام ختم ہوا تو ہماری حوصلہ افزائی اور اصلاح بھی کی، ایک بڑے انسان اور مخلص استاذ کی اس سے بڑی علامت اور کیا ہوسکتی ہے۔ ان باتوں کے ذکر کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سبھی اساتذہ اپنے طالب علموں سے اپنے کام نہیں کراتے بلکہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپ کی شخصیت میں نمایاں تبدیلی بھی لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پروفسیر علی جاوید ان اساتذہ کرام میں سے ایک ہیں جن سے میں بے حد متاثر رہا۔


ان کا سیاسی شعور کافی بالیدہ تھا، انہوں نے تعلیم کے زمانے میں ہی کالج کی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ طلبا کی تنظیم آل انڈیا اسٹوڈینٹس فیڈریشن سے وابستہ تھے۔ اور اپنی آخری سانس تک آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی سے منسلک رہے۔ شان و شوکت کی کبھی پروا نہیں کی۔ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی سے سبکدوش ہوئے۔ جبکہ وہ بہت کچھ کے مستحق تھے۔ اگر انہوں نے اپنے اصولوں کو طاق پر رکھ دیا ہوتا تو انہیں سبکدوش ہونے کے دو دن قبل پروفیسر شپ نہیں ملتی۔ نہ جانے کتنے تعلیمی اور انتظامی امور میں ان کا عمل دخل ہوتا۔ مگر پروفیسر علی جاوید نے کسی در پر سلامی نہیں داغی اور اپنے ضمیر کو پامال نہیں ہونے دیا۔ ورنہ عہد حاضر میں کسی در کی جاروب کشی کس حد تک مفید ثابت ہو رہی ہے، اس بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں، روشن آنکھیں مشاہدہ کرسکتی ہیں۔

قلندر صفت ادیب پروفیسر علی جاوید، الوداع!

ان کی سیاست معاشرے اور انتظام و انصرام کی بہتری کے لیے ہوا کرتی تھی۔ اپنے مفادات کی خاطر انہوں نے کبھی بھی گھنونی سیاست نہیں کی اور نہ ہی اپنی ذات سے غیر ضروری طور پر کسی کو پریشان کیا۔ پروفیسر علی جاوید کے حوالے سے ان کے مخالفین کے ذریعہ مختلف قسم کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔ اس قوم کا یہ المیہ رہا ہے کہ جو کام اپنے حصے کا ہے اسے نہیں کرتے اور خدا کے کام میں دخل اندازی کرتے ہوئے فتوے لگا دیے جاتے ہیں۔ مذہبی احکامات پر بھی کافی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔ انہوں نے کبھی نماز پڑھی یا نہیں پڑھی، روزہ رکھا کہ نہیں رکھا، یہ فیصلہ کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں، لیکن انہوں نے کبھی بھی دوسروں کو مذہبی معاملات میں وعظ و نصیحت نہیں فرمائی اور نہ ہی کسی کو منع کیا۔ میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ پروفیسر علی جاوید عشرہ محرم الحرام کی مجالس میں درگاہ پنجہ شریف کشمیری گیٹ، دہلی اپنی اہلیہ کے ہمراہ جاتے اور باہر بیٹھ کر مصائب کربلا سنا کرتے تھے۔ ورنہ خود کو مارکسسٹ نظریات کا حامل کہنے والے لوگ اس حد تک بے راہ روی کے شکار ہوجاتے ہیں کہ خود کو جلا دیے جانے کی وصیت کردیا کرتے ہیں۔ لیکن پروفیسر علی جاوید کا معاملہ منفرد تھا۔ کچھ چیزیں انسان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ، جس پر ہمیں سوال اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ دیکھنے کی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کیسا تھا، تو یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ پروفیسر علی جاوید ایک شریف النفس، عاجزی و انکساری کا پیکر اور گنگا جمنی تہذیب کے علم بردار تھے۔


پروفیسر علی جاوید اپنی شرائط اور اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے بھی کچھ اداروں اور تنظیموں کے اہم عہدوں پر بھی فائز رہے۔ وہ کل ہند انجمن اساتذۂ اردو جامعات ہند کے صدر تھے، کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کے کارگزار صدربھی رہے اور این سی پی یو ایل کے سابق ڈائریکٹر کے علاوہ متعدد اہم عہدوں پر فائز تھے۔

پروفیسرعلی جاوید کی تصانیف میں "برطانوی مستشرقین اور تاریخ ادب"،" کلاسیکیت اور رومانویت"، "جعفر ذٹلی کی احتجاجی شاعری"، "افہام اور تفہیم"، "اردو کا داستانوی ادب" شامل ہیں۔ انہیں مختلف اعزازات سے بھی نوازا گیا، لیکن وہ عام لوگوں کے طرز پر کبھی بھی ایوارڈ حاصل کرنے کے تگ و دو میں نہیں رہے۔ کے علاوہ متعدد مضامین شائع ہوچکے ہیں، شاعری کا بھی شوق رکھتے تھے، ان کی یادداشت کا عالم یہ تھا کہ اہم شعرا کے متعدد کلام ازبر تھے۔ آج ترقی پسند ادب کا درخشاں ستارہ غروب ہوگیا، جس کی یادیں ہمارے دلوں میں زندہ وجاوید رہیں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔