علی عباس امید: عظیم قلمکار اور سماجی خدمت گار
علی عباس امید اردو و ہندی ادب کے منفرد شاعر و نثر نگار اور سماجی خدمتگار تھے، جنہوں نے شاعری، نثر، بچوں کے ادب اور سماجی بیداری کے ذریعے اپنی شخصیت کا روشن عکس پیش کیا

نو ستمبر 2025 کو اردو ادب کو ایک بڑا جھٹکا علی عباس امید کی وفات سے لگا۔ علی عباس امید کی رحلت سے اردو اور ہندی ادب کو ہی نقصان نہیں پہونچا بلکہ بھوپال کے سماجی اور ثقافتی حلقوں میں بھی گہرے رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔ اردو ادب میں شاید ہی کوئی ایسا قلمکار ہو جو ادبی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات بھی پیش پیش رہا ہو۔ علی عباس امید نے نظم اور نثر دونوں میں قلم کا کمال دکھایا۔ ڈرامے لکھے۔ بچوں کا ادب تخلیق کیا۔ ہندی اور انگریزی میں بھی شاعری کی۔ اس کے ساتھ ساتھ سرکاری افسر ہونے کے باوجود مدھیہ پردیش میں اردو اکادمی کے قیام کے لئے سڑکوں پر مظاہرے بھی کئے۔ خون عطیہ کیمپ بھی لگائے۔ تعلیم بالغان کے لئے بھی کام کیا۔ ایل پی جی سلنڈروں کے تعلق سے گھریلو خواتین کے لئے بیداری مہم بھی چلائی۔ جہیز سے پاک شادیوں کو رواج دینے کے لئے ایک بیورو بھی قائم کیا۔
علی عباس امید یکم جولائی 1945 میں جونپور کے تاجو پور میں پیدا ہوئے۔ مشہور ہندی اردو دانشور اور قلمکار راہی معصوم رضا ان کے رشتہ دار اور غازی پور میں ان کے ہمسایہ بھی تھے۔ علی عباس امید کے والد زوار حسین عابدی علاقے کی معروف شخصیت تھے۔ وہ درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ تھے۔ علی عباس امید کی ابتدائی تعلیم غازی پور کے ایم اے ایچ اسکول میں ہوئی۔ اعلی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا۔ انہوں نے معاشیات میں ایم اے کیا۔ علی عباس نے بھوپال کے آدرش ڈگری کالج میں معاشیات کے صدر شعبہ کی ذمہ داری بھی سنبھالی تھی۔ مدھیہ پردیش کے محکمہ اعداد و شمار سے وابستہ رہے اور ادارے کے ڈائریکٹر کے عہدے تک پہونچ کر ریٹائر ہوئے۔
ادبی مصروفیات کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کا ایک پہلو سماجی خدمت بھی ہے۔ انہوں نے تعلیمی اور سماجی خدمات میں ہمیشہ سرگرمی دکھائی۔ مدھیہ پردیش میں اردو اکادمی کے قیام کے لئے انہوں نے اپنے سرکاری عہدے تک کو داؤ پر لگا دیا تھا اور حکومت مخالف مظاہروں میں پیش پیش رہے۔ آخر کار ریاستی حکومت کو اردو اکادمی کی تشکیل کا اعلان کرنا پڑا۔ وہ 12 ربیع الاول کو بھوپال میں خون کے عطیہ کا ایک عظیم کیمپ لگاتے تھے۔ ادبی خدمت کے لئے انہوں نے ’قلمکار پریشد‘ قائم کی، جس کے تحت انہوں نے اردو اور ہندی کے قلمکاروں کو پلیٹ فارم مہیا کیا۔ قلمکار پریشد سے ہندی اردو ادب کی نامور شخصیات وابستہ تھیں اور اس کے تحت انہوں نے ایک اسکول بھی قائم کیا۔
علی عباس امید کی شاعری کو ادب کی مشاہیر شخصیات نے خراج پیش کیا ہے۔ پروفیسر محمد حسن کے بقول ان کے یہاں تہذیبی وراثتوں اور رشتوں کے بکھرنے کا درد ہے اور تخلیقات میں پختگی ہے۔ خواجہ احمد عباس کا ان کی نظمیہ شاعری کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’وہ فیض سے آگے کی چیز ہے۔‘
راہی معصوم رضا کو ان کی شاعری میں ایک جھلاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ راہی معصوم کہتے ہیں، ’’یہ جھلاہٹ یاس یگانہ چنگیزی سے ملتی جلتی ہے لیکن علی عباس جانتے ہیں کہ بے شعور جھلاہٹ صرف تخریب کے کام آتی ہے۔‘‘
ان کی شاعری عمومیت سے پرے ہے انہوں نے شاعری میں اپنی الگ راہ بنائی ہے۔ علی عباس امید کی شاعری میں کربلائی اصطلاحات کا منفرد استعمال نظر آتا ہے:
نصب ہوگا خیمہ شب دشت فردا میں امید
میں نوید صبح لاؤں گا کہ آئندہ ہوں میں
پہلے سچائی کے نیزوں سے تھی امید مگر
اب کہاں ڈھونڈیں کہ سر اپنے بدن پر بھی نہیں
بطرز شام غریباں ہر ایک صبح طرب
اک ایک پل کے جگر میں چبھی ہے نوک سناں
امید ہے یقیں کہ الٹ دے بساط شر
اس تازہ کربلا کو بھی شبیر گر ملے۔
قدروں کے بکھراؤ کا المیہ بھی ان کی شاعری میں جھلکتا ہے:
تمام رشتے وہی ہیں تمام رسمیں وہی
بس اک خلوص نہیں ہے جو پاندان میں تھا
دشمنی بد نام ہے صدیوں سے لیکن ان دنوں
دوستی کے نام پر اکثر دغا دیتے ہیں لوگ
سیاسی لیڈروں کی وعدہ خلافیوں پر بھی انہوں نے اشعار کہے:
اگر وہ اس طرف آئے تو پوچھنا اس سے
کرے گا بھوک پہ وعدوں کی کھیتیاں کتنی
کاش بیٹھنے والے بھول کر بھی یہ سوچیں
آدمی سے اونچی تو کرسیاں نہیں ہوتیں
اردو کی زبوں حالی پر ان کے یہ اشعار ان کا کرب بیان کرتے ہیں:
کہہ لینا شعر پہلے کسی سے یہ پوچھ لو
اردو میں چھپ رہے ہیں رسالے کہاں کہاں
کوئی غم خوار نہ مونس نہ ٹھکانہ اپنا
مختصر یہ کہ ہے اردو کا فسانہ اپنا
مختصر بحر میں ان کی ایک غزل بہت مقبول ہوئی تھی:
ضبط آہ و فغاں
کوشش رائگاں
وجہ تسکین جاں
جلوہ مہ و شاں
اک نظر کا زیاں
بن گئی داستاں
آ گہی کا سفر
کہکشاں کہکشاں
حوصلوں کی نمو
بے کراں بے کراں
علی عباس امید کے کچھ اشعار تو بہت مقبول ہوئے:
اندھیری راتوں میں اکثر مجھے یہ فکر ہوئی
نکل کے شہر سے سورج کدھر گیا ہوگا
کھڑکیاں ہی کھول لیں گر بند دروازہ رہے
آتے جاتے موسموں کا کچھ تو اندازہ رہے
میری آنکھوں میں ہے شیشہ اور پتھر ہاتھ میں
یہ صدی میری اور اس کا نمائندہ ہوں میں
سیاہ رات کے آنگن میں یہ سوچتا ہوں میں
نکل کے شہر سے سورج کا کیا بنا ہوگا
یہ روز و شب کی سعوبت سزا سہی امید
ہے جس گنہ کی سزا اس کا ارتکاب تو ہو
علی عباس امید نے رثائی کلام کا بھی بڑا اثاثہ چھوڑا ہے۔ جب وہ کربلا کے خونی واقعات کا ذکر کرتے ہیں تو اکثر موقعوں پر انہوں نے علامتی انداز اختیار کیا ہے:
ظہر تک دشت میں تسبیح کے دانے بکھرے
عصر کو پہونچا ہے قرآن پہ خنجر دیکھو
سراپا شر نے بڑھائے جو ہاتھ سوئے خدا
سراپا خیر نے کاٹے رگ گلو سے وہ ہات
ایک نظم مسلسل میں انہوں نے امام حسین اور یزید کا تقابل کیا ہے:
یزید فتنہ امکاں یزید کالی رات
حسین جہد مسلسل حسین صبح حیات
یزید کفر کا عنواں یزید جہل کی حد
حسین حق کی علامت حسین جملہ صفات
یزید دور جہالت کی ایک زندہ مثال
حسین عالم امکاں میں عہد نو کی برات
جھکائے سر کو عزازیل سن کے نام یزید
خدا کو ناز ہے جس پر وہ ہے حسین کی ذات
ان کی تصانیف میں نگار غالب، لہو لہو، آفاقی المیہ، پتھروں کا شہر، لب گویا، پروانے کی خاک، قلم کا درد، مہتی دیوتا، ننھی منی کہانیاں، کہانیوں کا تحٖفہ، برگزیدہ، منتخب نظمیں، قصہ تیسرے درویش کا (مزاحیہ مضامین کا مجموعہ)، خوشبوؤں کے رشتے (افسانوں کا مجموعہ) شامل ہیں۔ ’پتھروں کا شہر‘ عباس امید کی علامتی نظم ہے۔ اسے اردو کی پہلی علامتی نظم کہا جاتا ہے۔ گزشتہ، امروز اور فردا کے عنوانات کے تحت یہ نظم بھوپال اور اس کی تاریخ کے نشیب و فراز کی منظر کشی ہے۔
قلم کا درد (ہندی شاعری کا مجموعہ) لب گویا، شاعری کا مجموعہ برگزیدہ، شعری مجموعہ مہتی دیوتا اور آفاقی المیہ مذہبیات سے متعلق کتابیں ہیں۔ ’نگار غالب‘ بہت دلچسپ کتاب ہے جس میں علی عباس امید نے عوام تک غالب کو پہونچانے کے لئے غالب کی زندگی کے مستند حالات اور ان کی شاعری کے کچھ خاص رجحانات کا ذکر اپنی اور غالب کی زبانی کیا ہے۔
’لہو لہو‘ عباس امید کے کربلائی کلام کا مجموعہ ہے، جس میں رثائی نظمیں، سلام، نوحے اور شہیدان کربلا کے حوالے سے قطعات شامل ہیں۔ ’پروانے کی خاک‘ ایک زبردست ڈرامہ ہے، جو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے آخری دنوں کے واقعات پر مشتمل ہے۔ انگریزی زبان میں انکا شعری مجموعہ اسپرے امریکہ سے شائع ہوا۔
علی عباس امید ادب عالیہ کی تخلیق میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ متعدد ادبی سماجی اور ثقافتی تنظیموں سے وابستہ رہے۔ مختلف موضوعات پر سینکڑوں مقالے اور مضامین سپرد قرطاس کئے۔ انہوں نے بچوں کے لئے بھی ادب تخلیق کیا۔ ’ننھی منی کہانیاں‘ پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علی عباس امید کے اندر موجود بچہ اپنے ہم عمروں سے بہت مانوس ہے۔ انہیں کے لہجے میں اور ان کی ذہنی سطح کے لحاظ سے گفتگو کرتا ہے۔
علی عباس امید کی ادبی اور سماجی خدمات کا بڑے پیمانے پر اعتراف کیا گیا۔ انہیں درجنوں انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ مدھیہ پردیش حکومت نے انہیں 2011-12 میں ’شاداں اندوری کل ہند ایوارڈ ‘ سے بھی نوازا تھا۔
علی عباس امید سب سے زیادہ لکھنے اور چھپنے والے شاعر مانے جاتے ہیں۔ علی عباس امید نے نثر اور نظم دونوں میں اپنی قابلیت اور صلاحیت کے جوہر دکھائے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ اچھے نثر نگار ہیں یا اچھے شاعر۔ علی عباس امید اس دنیا سے چلے گئے لیکن اپنی شعری وراثت اپنے فرزند عنایت عباس کے شانوں پر چھوڑ گئے ہیں جو خود بہت اچھے شعر کہتے ہیں اور سید تخلص رکھتے ہیں۔ جب وہ اپنے والد کو دفن کر کے قبرستان سے لوٹ رہے تھے تو اپنے جذبات کو فی البدیہ انداز میں اس طرح نظم کیا:
میں قبرستان تم کو لے گیا تھا
پر اپنے آپ کو دفنا کے لوٹا
جبکہ کاندھوں پہ ہیں علی عباس
ابن امید مر گیا ہوگا
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔