سہ روزہ ’اُردو پاپولر کلچر‘ کانفرنس کا جے این یو میں افتتاح

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: اُردو کی اہمیت و افادیت اور اردو کے اصناف کی خوبیوں کو منظر عام پر لانے کے مقصد سے آج ایک سہ روزہ پروگرام (8 ستمبر سے 10 ستمبر 2017) کا انعقاد جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں ہوا۔ ’اُردو پاپولر کلچر کانفرنس‘ کے بینر تلے منعقد اس تقریب میں آج اردو کے اصطلاحات، انیسویں صدی میں اُردو کی صورت حال، فلموں میں اُردو، اُردو شاعری اورعوامی ادب جیسے موضوعات پر ماہرین نے سیر حاصل مقالہ پیش کیا۔ ’تصویر اُردو‘ اور ’سنٹر فار انڈین لینگویجز‘ (جے این یو) کے زیر اہتمام کرائے گئے اس کانفرنس کے کنوینر پروفیسر مظہر مہدی نے پہلے سیشن کی سرپرستی کی جس میں افق پیکر (جے این یو، نئی دہلی)، قیصر شمیم (مصنف، دہلی) اور معین الدین جینابڑے (سی آئی ایل، جے این یو) نے اپنے مقالے پیش کیے۔ افق پیکر نے اپنا مقالہ انیسویں صدی میں اُردو زبان کے حالات پر پیش کیا جو کہ انگریزی میں تھا۔ معین الدین جینابڑے نے بھی اپنا مقالہ انگریزی میں ہی پیش کیا جس کا موضوع تھا اصل دھارے کی فلموں میں مغل اعظم کی اُردو زبان کا اثر۔ قیصر شمیم نے اس سیشن میں اپنا مقالہ اُردو میں بعنوان ’اُردو کا پاپولر کلچر اور اصطلاحات کی بازیگری‘ پیش کیا۔

دوسرے سیشن کی سرپرستی آتما رام بھکل نے کی جب کہ مقالہ نگاروں میں کارلا پیٹی وِچ (یونیورسٹی آف ٹیکساس، آسٹن)، کروپا شانڈلیہ (ایمرسٹ کالج، ایم اے، امریکہ) اور اکشے منوانی (مصنف، ممبئی) موجود تھے۔ محترمہ کارلا نے اُردو شاعری کے رومانیت سے انقلاب تک کے سفر کا روداد انگریزی میں پیش کیا جب کہ کروپا نے وشال بھاردواج کی فلم ’حیدر‘ کا تذکرہ کیا جس میں فیض احمد فیض کی شاعری نے جان ڈال دی ہے۔ اکشے منوانی نے ساحر لدھیانوی کی نغمہ نگاری پر اپنا مقالہ پیش کیا۔

یوسف سعید کی سرپرستی میں ہوئے تیسرے سیشن میں صرف دو مقالے پیش کیے گئے اور مقالہ نگار تھے مِکو ویتامکی (یونیورسٹی آف ہیلسنکی، فن لینڈ) اور انب نیر (جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) دونوں نے اپنے مقالے انگریزی میں ہی پیش کیے۔ معروف مصنف اور تاریخ داں رعنا صفوی کی سرپرستی میں چوتھا سیشن عمل میں آیا جس میں مکل کیسون (مورخ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) اور کوثر منیر (اسکرین پلے رائٹر، ممبئی) شامل ہوئے۔ لیکن یہ سیشن مقالہ پر مبنی نہ ہو کر گفتگو اور سوالات و جوابات پر مبنی تھا۔

تقریب میں موجود مقالہ نگار اور سامعین حضرات (تصویر قومی آواز)
تقریب میں موجود مقالہ نگار اور سامعین حضرات (تصویر قومی آواز)

انڈیا فاؤنڈیشن فار دی آرٹس (بنگلور) کے ’آرٹس ریسرچ پروگرام‘ کے تعاون سے منعقد اس کانفرنس کے آغاز میں پروگرام کے کنوینر یوسف سعید نے لوگوں کا استقبال کیا اور ’سنٹرل فور انڈین لینگویجز، جے این یو‘ کے علاوہ ’انڈیا فاؤنڈیشن فار دی آرٹس‘ کا تعارف بھی پیش کیا۔ اس سہ روزہ تقریب کے کنوینر پروفیسر مظہر مہدی ہیں جو کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لیے سرگرم نظر آئے۔ حالانکہ یہ سہ روزہ پروگرام اُردو کے تعلق سے ہے لیکن جس طرح آج کی پوری تقریب میں محض ایک مقالہ اُردو میں پیش کیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقریب اُردو داں طبقہ کے لیے کم اور ایسے انگریزی داں طبقہ کے لیے زیادہ تھا جو اُردو سے روشناس ہونا چاہتے ہیں۔ پروگرام میں شریک کچھ لوگوں کا اس سلسلے میں یہ کہنا بھی تھا کہ جس طرح کا معیاری مقالہ انگریزی میں پیش کیا گیا، وہ اُردو میں ہوتا تو زیادہ پسند کیا جاتا۔ بہر حال، دو روز کا پروگرام باقی ہے اور لوگ امید کر رہے ہیں کہ کچھ ایسے سیشن بھی ہوں گے جن میں معیاری اُردو مقالے پیش کیے جائیں گے۔ بطور والنٹیر رزینہ خان، عاطف، قمر جہاں، عبدالرافع، سریتا چوہان وغیرہ آج کی تقریب کو خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچانے میں کوشاں نظر آئیں اور سامعین میں رحمان عباس، عرفان اللہ فاروقی، جہانگیر احمد، شبنم حمید (الٰہ آباد) اور صبا بشیر جیسی شخصیتوں کی موجودگی نے تقریب کو وقار بخشا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔