’غیر اُردو داں طبقہ میں بھی مقبول ہو رہی ہے اُردو‘

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سہ روزہ کانفرنس کے دوسرے دِن داستان گوئی کا بھی اہتمام

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں منعقد سہ روزہ کانفرنس کے دوسرے دن موجود مقالہ نگار (تصویر قومی آواز)
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں منعقد سہ روزہ کانفرنس کے دوسرے دن موجود مقالہ نگار (تصویر قومی آواز)
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: فلموں میں اُردو کے کردار، تحریروں میں اُردو، سوشل میڈیا میں اُردو اور دیگر شعبوں میں اُردو کی موجودگی اور اس کے اثرات کا احاطہ کرتا ہوا آج جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سہ روزہ کانفرنس کا دوسرا دن انتہائی کامیاب ثابت ہوا۔ ’تصویر اُردو‘ اور ’سنٹر فار انڈین لینگویجز‘ (جے این یو) کے زیر اہتمام اور انڈیا فاؤنڈیشن فار دی آرٹس (بنگلور) کے ’آرٹس ریسرچ پروگرام‘ کے تعاون سے منعقد کی جا رہی اس تقریب میں آج پانچ سیشن ہوئے جس میں پہلے سیشن کی سرپرستی کروپا شانڈلیہ نے کی۔ اس سیشن میں پہلا مقالہ عرفان اللہ فاروقی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے پیش کیا جس میں دلائل کے ساتھ انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے ہندی سنیما میں مسلم کردار کو اس انداز میں پیش نہیں کیا جاتا جیسا کہ وہ اصل زندگی میں ہیں۔ انھوں نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ موجودہ دور میں مسلمان کرداروں کو دہشت گرد ظاہر کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں پیش کیے گئے ان کے مقالے کو سامعین کی بھی خوب داد ملی۔ دوسرا مقالہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ندیم احمد نے پیش کیا جس کا عنوان تھا ’بمبیا سنیما اور اُردو شعرا و مصنّفین‘۔ ان کے مقالے کی جو سب سے اہم بات تھی وہ یہ کہ ایسی فلمیں جن میں اُردو ادیبوں نے ڈائیلاگ اور نغمے لکھے ہیں، ان فلموں کو ہندی کا سرٹیفکیٹ بھلے ہی دے دیا جائے لیکن اُردو زبان کی اہمیت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ،کیونکہ نغموں اور ڈائیلاگ میں اُردو زبان کی جو چاشنی موجود ہوتی ہے وہ کسی دوسری زبان میں نہیں۔ تیسرا مقالہ دہلی کی معروف و مقبول مصنف، محقق اور تاریخ داں رعنا صفوی کے ذریعہ پیش کیا گیا جو ان کی شخصیت کے مطابق بہترین تھا۔ انگریزی میں پیش کیے گئے اپنے مقالے میں انھوں نے مغل اعظم فلم میں اُردو کرداروں کے ڈائیلاگ پر سیر حاصل بحث کی۔

اپنا مقالہ پیش کرتی ہوئیں معروف مصنف رعنا صفوی (تصویر قومی آواز)
اپنا مقالہ پیش کرتی ہوئیں معروف مصنف رعنا صفوی (تصویر قومی آواز)

نئی دہلی: فلموں میں اُردو کے کردار، تحریروں میں اُردو، سوشل میڈیا میں اُردو اور دیگر شعبوں میں اُردو کی موجودگی اور اس کے اثرات کا احاطہ کرتا ہوا آج جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سہ روزہ کانفرنس کا دوسرا دن انتہائی کامیاب ثابت ہوا۔ ’تصویر اُردو‘ اور ’سنٹر فار انڈین لینگویجز‘ (جے این یو) کے زیر اہتمام اور انڈیا فاؤنڈیشن فار دی آرٹس (بنگلور) کے ’آرٹس ریسرچ پروگرام‘ کے تعاون سے منعقد کی جا رہی اس تقریب میں آج پانچ سیشن ہوئے جس میں پہلے سیشن کی سرپرستی کروپا شانڈلیہ نے کی۔ اس سیشن میں پہلا مقالہ عرفان اللہ فاروقی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے پیش کیا جس میں دلائل کے ساتھ انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے ہندی سنیما میں مسلم کردار کو اس انداز میں پیش نہیں کیا جاتا جیسا کہ وہ اصل زندگی میں ہیں۔ انھوں نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ موجودہ دور میں مسلمان کرداروں کو دہشت گرد ظاہر کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں پیش کیے گئے ان کے مقالے کو سامعین کی بھی خوب داد ملی۔ دوسرا مقالہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ندیم احمد نے پیش کیا جس کا عنوان تھا ’بمبیا سنیما اور اُردو شعرا و مصنّفین‘۔ ان کے مقالے کی جو سب سے اہم بات تھی وہ یہ کہ ایسی فلمیں جن میں اُردو ادیبوں نے ڈائیلاگ اور نغمے لکھے ہیں، ان فلموں کو ہندی کا سرٹیفکیٹ بھلے ہی دے دیا جائے لیکن اُردو زبان کی اہمیت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ،کیونکہ نغموں اور ڈائیلاگ میں اُردو زبان کی جو چاشنی موجود ہوتی ہے وہ کسی دوسری زبان میں نہیں۔ تیسرا مقالہ دہلی کی معروف و مقبول مصنف، محقق اور تاریخ داں رعنا صفوی کے ذریعہ پیش کیا گیا جو ان کی شخصیت کے مطابق بہترین تھا۔ انگریزی میں پیش کیے گئے اپنے مقالے میں انھوں نے مغل اعظم فلم میں اُردو کرداروں کے ڈائیلاگ پر سیر حاصل بحث کی۔

کانفرنس میں موجود مقالہ نگار (تصویر قومی آواز)
کانفرنس میں موجود مقالہ نگار (تصویر قومی آواز)

پانچویں اور آخری سیشن میں محض ایک پیپر پڑھا گیا جو ’داستان، داستان گو اور ناظرین‘ کے عنوان سے تھا۔ اس سیشن کی سرپرستی ندیم احمد نے کی۔ مقالے میں داستان گوئی کے حوالے سے کئی نکات پر گفتگو کی گئی۔ اس سیشن کے اختتام پر ہی تقریب کا اختتام نہیں ہوا بلکہ داستان گوئی کا پرفارمنس بھی پیش کیا گیاجس سے موجود سامعین خوب محظوظ ہوئے۔

اس سے قبل پروگرام کے افتتاح میں کانفرنس کے منتظم یوسف سعید نے ابتدائی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’اردو کے چاہنے والوں کا دائرہ اردو داں طبقے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اردو اب نئے اور غیر معروف علاقوں میں، مثلاً ہندوستان میں انگریزی بولنے والے اشرافیہ طبقہ میں بھی اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ اس کانفرنس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جس وجہ سے یہاں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی پرچے پڑھے جا رہے ہیں۔‘‘ سہ روزہ سمینار کے کنوینر پروفیسر مظہر مہدی بھی اس موقع پر موجود تھے اور مقالہ نگاروں و مہمانان کے استقبال میں پیش پیش تھے۔ صدیق الرحمن قدوائی، شہزاد انجم، محمد کاظم، فاروق عالم، خوشتر زرین ملک، صدف فاطمہ، جاوید احمد، انظر، تالیف حیدر، رئیس فراحی، تفسیر حسین وغیرہ کی موجودگی نے نہ صرف مقالہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کی بلکہ والنٹیر غلام صمدانی، رزینہ خان، عبدالرافع اور سریتا چوہان وغیرہ کی ہمت افزائی بھی کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Sep 2017, 9:49 PM