قومی یکجہتی کی روایت کو زندہ رکھنا وقت کی اہم ضرورت: آزرمی دخت صفوی

اردو اکادمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زیر اہتمام آن لائن عالمی مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ملک و بیرون ملک کے کئی معزز شعراء نے شرکت کی۔

تصویر بذریعہ پریس ریلیز
تصویر بذریعہ پریس ریلیز
user

پریس ریلیز

علی گڑھ: اردو اکادمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے زیر اہتمام قومی یکجہتی کے نام ایک آن لائن عالمی مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا جس کی صدارت فارسی اور اردو کی ممتاز اسکالر، دانشور اور سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس، اے ایم یو پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے فرمائی۔ انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں قومی یکجہتی کے نام پر سجائی گئی اس محفل کو وقت کا تقاضا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں رواداری، مشترک تہذیب و ثقافت، محبت اور بھائی چارگی کی روایت بہت قدیم ہے۔ اس روایت کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اردو اکادمی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ یہ روایت اکادمی برقرار رکھے۔

ڈائریکٹراردو اکادمی پروفیسر سید محمد ہاشم نے اس موقع پر کہا کہ ہندوستان میں آپسی میل ملاپ اور اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے کے مقصد سے اس عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اردو شاعری اس فریضہ کو ہمیشہ انجام دیتی رہی ہے۔ مشاعرہ کے آرگنائزنگ سیکریٹری ڈاکٹر زبیر شاداب نے کہا کہ قومی یکجہتی کے فروغ میں اردو شعرا کا ہمیشہ سے کلیدی رول رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اے ایم یو نے قومی یگانگت، رواداری اور اتحاد پسندی کی روایت کو ہر عہد میں زندہ رکھا ہے۔

اپنے تعارفی کلمات میں مشاعرے کے کنوینر ڈاکٹر مشتاق صدف نے تمام شعرا اور ناظرین و سامعین کا خیر مقدم اور استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اردو شاعری سماجی روابط سے کبھی الگ نہیں رہی ہے۔ اس میں ابتدا سے سماجی و تہذیبی اور قومی تقاضوں کا احساس پایا جاتاہے۔


اس عالمی مشاعرے میں بیرون ممالک کے ممتاز شعرا نے اپنا بہترین کلام پیش کیا۔ پروفیسر شاہینہ کشور (کناڈا)، غوثیہ سلطانہ (امریکہ)، زیب النسا زیبی (پاکستان )، عاطرعثمانی (ملیشیا)، طفیل احمد (عمان)، نوشہ اسرار (امریکہ)، اور ڈاکٹر افروز عالم (سعودی عرب) نے اپنے کلام سے مشاعرے کے اعتبار و معیار میں اضافہ کیا۔ امریکہ، کناڈا، عمان، سعودی عرب، ملیشیا، انڈیا اور پاکستان کے شعرا کی شرکت سے عالمی یکجہتی کا ایک خوبصورت گلدستہ اس مشاعرے میں دیکھنے کو ملا۔

اس مشاعرے میں ہندوستان کے جن معتبر اور نمائندہ شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں پرتپال سنگھ بیتاب (جموں)، مہتاب حیدر نقوی (علی گڑھ)، ڈاکٹر شائستہ یوسف (بنگلور)، پروفیسر سراج اجملی (علی گڑھ)، پروفیسر اخلاق احمد آہن (دہلی)، ڈاکٹر سرور ساجد (علی گڑھ)، عزم شاکری (ایٹہ)، کنور رنجیت چوہان (دہلی)، ڈاکٹر معید رشیدی (علی گڑھ) اور ڈاکٹر مشتاق صدف (علی گڑھ) کے نام قابل ذکر ہیں۔

آخر میں ڈاکٹر رفیع الدین (کنوینر) نے اراکین اردو اکادمی، شرکائے محفل، میڈیا کے نمائندگان، ناظرین و سامعین اور یونیورسٹی کے معاونین کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کیا، جبکہ پروفیسر سراج اجملی نے مشاعرے کی نظامت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیے۔

اس عالمی مشاعرے کے نمائندہ اشعار پیش خدمت ہیں:

ہم نے کبھی نہ چاہا تھا رستے الگ کریں

اِک کوہِ بدگمانی سے ٹکرا گیا وجود

شاہینہ کشور

اس کا دروازہ تو پہلے سے کھلا ہے بیتاب

سچ تو یہ ہے میری دستک میں صدا کچھ کم ہے

پرتپال سنگھ بیتاب

پھول ہی پھول جو سینے پہ کھلائے ہوئے ہیں

ان دنوں ہم نگہ یار میں آئے ہوئے ہیں

مہتاب حیدر نقوی

تجھ سے الفت کی علامت تو نہیں یہ جاناں

میں کسی سمت بھی دیکھوں تو نظر تو آئے

غوثیہ سلطانہ

میری آنکھوں نے روشنی کھو دی

میرا محبوب بے نقاب ہوا

شائستہ یوسف

جانے کیا قہر ہوا کہ مسلسل چپ ہے

دل کسی بات پہ اب شور مچاتا ہی نہیں

زیب النساء زیبی

دل سے نکلے ہوئے اشعار سناؤ تو بنے

تم چراغوں میں لہو اپنے جلاؤ تو بنے

نوشہ اسرار

اکیلے تھے تو اپنے پاؤں پر ہم چل رہے تھے

جب پائے ہیں سہارے تیرے تو کیوں گر پڑے ہیں

عاطر عثمانی

واپسی کی راہ کیوں ملتی نہیں ہے ساتھ والو

گرچہ اس بازار میں آیا گیا ہوں بارہا میں

سراج اجملی

محبت دوستی یاری کہاں سے لاؤں میں

ہمیشہ پوچھتی ہے نئی بستی پرانی سے

طفیل احمد

ہائے اس صاحب مسند کے تکلم کی ادا

سرخ پھولوں سے لدی شاخ جھکی ہو جیسے

افروز عالم

کیسی مجبوری ہے اس کی کہ تہِ دست ستم

خود بھی ملعونِ خودی ہے کرے لعنت سب پر

اخلاق احمد آہن

عجیب ضد ہے یہ گھر توڑ دے گی اور رشتہ بھی

وہ چاہے کوئی ہو دیوار مت اٹھانے دیں

سرور ساجد

ہم اپنی آنکھوں میں جینے کی آرزو لے کر

کسی ہرن کی طرح زخم کھائے بیٹھے ہیں

عزم شاکری

نہ آرزو نہ جستجو تو گفتگو کہاں

میں ہی میں نہیں رہا تو تو بھی تو کہاں

کنور رنجیت چوہان

ہمیں خبر ہی نہیں کس قدر ہوئے برباد

خدا کرے کہ ہمیشہ رہے یہ بے خبری

مشتاق صدف

اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو

اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے

معیدرشیدی

اس آن لائن عالمی مشاعرے کو بہت سی سرکردہ شخصیات نے لائیو دیکھا اور سنا۔ نیزکافی تعداد میں طلباء و طالبات بھی مستفیض ہوئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔