’موب لنچنگ کےبرعکس محبت کا پیغام‘

تصویر ٹوئٹر ہرش مندر
تصویر ٹوئٹر ہرش مندر
user

بھاشا سنگھ

ملک بھر میں پھیلے نفرت کے ماحول کے خلاف امن اور خیر سگالی کا پیغام عام کرنے کے مقصد سے ’کاروانِ محبت‘ کی شروعات آسام سے ہو رہی ہے۔ پسماندہ، دلتوں اور قبائلیوں پر بڑھتے تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ پیغام دینے کی بھی کوشش ہے کہ سماج کی کثیر آبادی فاشسٹ نہیں ہے۔ وہ بھی اس تشدد اور نفرت کی سیاست کے خلاف ہے۔ اسی لیے یہ کارواں ان تمام لوگوں سے براہ راست ملنے کی کوشش کرے گا جن کے اہل خانہ بھیڑ کے تشدد یعنی موب لنچنگ کے شکار ہوئے ہیں۔

ملک میں موب لنچنگ کی دہشت کے خلاف یہ کارواں 4 ستمبر سے شروع ہوگا جو مہاتما گاندھی کی راہ پر چلنے کا عزم مصمم کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو گجرات کے پوربندر میں ختم ہوگا۔ ’امن برادری‘ کے ذریعہ شروع کی گئی اس مہم میں پورے ملک سے تقریباً 26 تنظیمیں جڑ گئی ہیں۔ آسام، جھارکھنڈ اور کرناٹک سے گزرنے کے بعد 11 ستمبر کو یہ ٹیم دہلی پہنچے گی۔ بعد ازاں اتر پردیش، ہریانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش ہوتے ہوئے گجرات میں یہ سفر مکمل ہوگا۔ اس کارواں کے قائد اور امن برادری تنظیم کے کنوینر ہرش مندر سے ’قومی آواز‘ نے خصوصی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات:

سوال: موب لنچنگ کے خلاف اس ’کاروانِ محبت‘ کو شروع کرنے کا خیال کب آیا؟

جواب: بس ایک مہینے قبل۔ طویل مدت سے دل میں ایک بے چینی سی تھی۔ پھر لگا کہ اب خاموش نہیں رہ سکتے، لہٰذا فیصلہ کر لیا۔ جب ایک بار عزم کر لیا تو پھر کارواں بڑھانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔

سوال: اس کاروان سے کیا حاصل ہوگا؟

جواب: اقلیتی طبقہ خصوصاً مسلمانوں کے دلوں میں ایک خوف پیدا ہو گیا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ نہ ہی گھر میں، نہ سڑک پر اور نہ ہی ٹرین یا بس میں۔ پہلے فسادات ہوتے تھے تو ایک علاقہ ہی متاثر ہوتا تھا، اب یہ نفرت کی بھیڑ کہیں سے بھی نکل کر کسی کو بھی اپنا شکار بنا لیتی ہے، اسے ختم کر دیتی ہے۔ قبائلیوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ عیسائیوں پر، چرچ پر، پادریوں پر اور ننوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ چمڑے کی تجارت سے جڑے دلتوں پر بھی مظالم ہو رہے ہیں۔ وجہ ہے صرف نفرت۔ اس نفرت کا جواب دینا ضروری ہے۔ اس کاروان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں جن پر مظالم ہو رہے ہیں۔ اکثریتی فرقہ میں ایک خطرناک خاموشی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بھیڑ کے ہاتھوں قتل کی تمام وارداتوں میں جو لوگ پاس کھڑے تھے، کسی نے بچانے کی کوشش نہیں کی۔ جب کہ ابھی تک ایسا نہیں دیکھا گیا تھا، لوگ فساد زدگان کی مدد کیا کرتے تھے۔ ابھی اکثریتی طبقہ خاموش تماشائی نظر آ رہا ہے۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے، ان کی روح کو جھنجھوڑنے کے لیے یہ کارواں نکل رہا ہے۔

سوال: گوپال کرشن گاندھی نے کچھ وقت پہلے کہا تھا کہ ایک تقسیم زمین پر ہوئی تھی اور اب وہ تقسیم دل و دماغ میں نظر آ رہی ہے، اپوزیشن اس کو ایشو کیوں نہیں بنا رہا؟

جواب: جمہوری پارٹیاں بھی تول مول کی سیاست کر رہی ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر وہ کھل کر اس ناانصافی کے خلاف بولیں گی تو اکثریتی طبقہ ناراض ہو جائے گا۔ سبھی پارٹیوں نے یہ مان لیا ہے کہ اکثریتی آبادی فرقہ پرست ہو گئی ہے۔ جو کہ غلط ہے۔ جس طرح سے تقسیم کے وقت گاندھی نے 1947 میں ان علاقوں میں جا کر امن کا ماحول قائم کیا تھا جہاں آگ لگی ہوئی تھی، آج بھی کچھ ویسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کے دور میں محبت کی بات کرنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہے۔ جس طرح تاریکی کا مقابلہ تاریکی سے نہیں ہو سکتا بلکہ روشنی سے ہو سکتا ہے، اسی طرح نفرت کا مقابلہ محبت سے کرنے کے لیے ہم نکلے ہیں۔

سوال: کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ فاشزم ایک سیاسی نظریہ ہے، اس سے لڑائی سیاسی سطح پر ہی لڑی جانی چاہیے؟

جواب: ہاں، ہماری سیاست محبت کی ہے۔ ہم سبھی ریاستوں میں ان لوگوں،خاندانوں سے ملیں گے جن پر ظلم ہوا ہے۔ درد کے تار محبت سے جوڑنا ہےاور انہیں بتانا ہے کہ لڑنے کے لیے لوگ تیار ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Sep 2017, 4:22 PM