لداخ کی عوامی مزاحمت: ’ادھی ادھوری جمہوریت نہیں چاہئے!‘

لداخ میں عوام اپنی سیاسی آواز اور نمائندگی کے لیے متحد ہیں۔ سابق فوجی کی موت اور سونم وانگچک کی گرفتاری کے بعد مرکز سے مکمل ریاست اور چھٹے شیڈول کا درجہ دینے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>کرگل ڈیموکریٹک الائنز کے رہنما سجاد کرگلی / تصویر کو اے آئی سے بہتر کیا گیا ہے</p></div>
i
user

ہرجندر

لداخ 24 ستمبر کو پیش آنے والے اس واقعے کو شاید ہی جلد بھلا سکے جب ایک سابق فوجی سمیت چار شہری سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب غصے سے بھرے ’جین زی‘ کے نوجوان سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔ مشتعل ہجوم نے بی جے پی کے دفتر میں آگ لگا دی، جس کے بعد طاقت کا استعمال کیا گیا۔

اسی دوران مشہور ماہرِ ماحولیات اور گاندھیائی فکر کے حامی سونم وانگچک کو قومی سلامتی قانون (این ایس اے) کے تحت گرفتار کر کے تقریباً 1600 کلومیٹر دور جودھپور جیل بھیج دیا گیا۔ قومی سلامتی قانون کے تحت بغیر مقدمے کے کسی کو طویل مدت تک قید رکھا جا سکتا ہے۔

وانگچک ہمیشہ عدم تشدد کے حامی رہے ہیں، مگر اب ان پر ’حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش‘ اور ’ملک دشمن سرگرمیوں‘ جیسے الزامات عائد ہیں۔ ان واقعات نے پورے لداخ میں سیاسی بیداری اور بے اختیاری کے احساس کو ایک نئی سمت دے دی ہے۔

لداخ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک بدھ مت کی اکثرت والا لیہ اور دوسرا شیعہ اکثریت والا کرگل۔ ان علاقوں کی الگ الگ ثقافتیں ہیں اور سماجی وہ سیاسی مزاج بھی جدا جدا ہیں۔ لیکن ایک طرح کے عدم تحفظ کے احساس کے سبب اپنی نمائندہ تنظیموں لیہ اپیکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنز کے ساتھ یہاں کی برادریاں ایک دوسرے کے قریب آ گئی ہیں اور تمام اختلافات فراموش کر دئے گئے ہیں۔ ہرجندر نے کرگل ڈیموکریٹک الائنز کے سب سے زیادہ بےباک رائے پیش کرنے والے رہنما سجاد کرگلی سے اس سیاسی بے داری پر گفتگو کی، پیش ہیں اہم اقتباسات:


پچھلے ہل ڈیولپمنٹ کونسل انتخابات میں کارگل اور لیہ کی سوچ الگ تھی، کیوں؟

ہمارے لیے یہ انتخابات محض انتظامی عمل نہیں بلکہ عوامی رائے شماری کی حیثیت رکھتے تھے۔ بی جے پی نے جس طرح ہمارے خطے کا سیاسی درجہ گھٹا دیا، عوام نے اسی کا جواب ووٹ کے ذریعے دیا۔ یہ پیغام صرف کونسل کے انتخابات میں نہیں بلکہ پارلیمانی سطح پر بھی دیا گیا۔ لیہ میں ایپکس باڈی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، جبکہ ہم نے کرگل میں اس میں شمولیت کی تاکہ اپنی سیاسی رائے کا اظہار کر سکیں اور یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔

یو ٹی (مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ) بننے پر لیہ نے خوشی ظاہر کی تھی اور کرگل نے مخالفت۔ اب دونوں ایک ساتھ کیسے آ گئے؟

شروع میں یقیناً دونوں علاقوں کی سوچ مختلف تھی لیکن جب وقت گزرا، تو سب نے دیکھا کہ ہماری آواز ہی ختم ہو گئی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جو آئینی اور روزگار کے تحفظات تھے، وہ سب چھن گئے۔ یہی احساسِ عدم تحفظ ہمیں ایک دوسرے کے قریب لایا۔ اسی کے بعد لیہ ایپکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنز کے درمیان رابطہ بڑھا۔ دونوں نے طے کیا کہ جب تک ہم ایک ساتھ نہیں آئیں گے، نہ روزگار کے مواقع بحال ہوں گے اور نہ ہماری آواز سنی جائے گی۔ اسی اتحاد سے ایک جمہوری مزاحمت نے جنم لیا۔


اگر مکمل ریاستی درجہ مل جائے تو کیا کرگل اور لیہ کے پرانے اختلافات ختم ہو جائیں گے؟

ہمارے ماضی میں جو بھی اختلاف یا کشیدگی رہی، وہ عوام کی نہیں بلکہ سیاسی تجربات کا نتیجہ تھی۔ لداخ کی ثقافت عدم تشدد پر مبنی ہے۔ ہمارے یہاں سماجی اختلاف کو کبھی نفرت یا تشدد میں بدلنے نہیں دیا گیا۔ درحقیقت، لیہ کی اکثریت بدھ مت کی پیروکار ہے اور وہ فطری طور پر چاہتی ہے کہ کم از کم ایک بدھ نمائندہ پارلیمان میں پہنچے اور یہ غلط نہیں ہے۔

اسی طرح کرگل کے شیعہ مسلمان بھی پورے ملک میں نمائندگی سے محروم ہیں۔ اس لیے ہم یہ مانگ کر رہے ہیں کہ لداخ کو دو لوک سبھا اور ایک راجیہ سبھا نشستیں دی جائیں تاکہ دونوں برادریوں کی نمائندگی یقینی بن سکے۔

حکومت یا بی جے پی کا لداخ کے بارے میں اصل مقصد کیا لگتا ہے؟

حکومت کے ذہن میں کیا ہے، یہ وہی بہتر جانتی ہے مگر ایک بات طے ہے کہ ہم آخری دم تک اپنی مانگ پر قائم رہیں گے۔ ہماری جدوجہد صاف اور اصولی ہے، لداخ کو مکمل ریاستی درجہ دیا جائے تاکہ عوام کی نمائندگی اور اختیارات بحال ہوں۔ حکومت جو بھی راستہ اپنائے، ہم اپنی جمہوری لڑائی جاری رکھیں گے۔

ہل ڈیولپمنٹ کونسل کے انتخابات کا کیا ہوا؟ کیا آپ دوبارہ حصہ لیں گے؟

یہ انتخابات ستمبر میں ہونے تھے مگر ملتوی کر دیے گئے۔ کوئی باضابطہ اعلان یا نوٹیفکیشن نہیں آیا۔ اب حکومت کے پاس ’تشدد‘ کو بہانہ بنا کر التوا کا جواز موجود ہے۔ اصل میں بی جے پی صرف پارٹی کے طور پر نہیں بلکہ پورے یو ٹی انتظامیہ کے ساتھ مل کر انتخابات لڑتی ہے۔ پورا نظام اس کے حق میں کھڑا ہوتا ہے۔ یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔


مانا جاتا ہے کہ کارگل میں بی جے پی کمزور ہے لیکن وہ اب سرگرم نظر آ رہی ہے۔

بی جے پی کی موجودگی کرگل میں بہت محدود ہے۔ کچھ حلقے، خاص طور پر وہ جہاں بدھ آبادی زیادہ ہے، وہاں اس کا تھوڑا اثر ہے۔مگر کرگل کے وسیع تر سماجی و مذہبی ڈھانچے میں بی جے پی کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں کی سیاسی ترجیحات ہمیشہ عوامی نمائندگی، اور آئینی تحفظات سے جڑی رہی ہیں۔

آپ سونم وانگچک کی رہائی اور لیہ میں ہوئی فائرنگ کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر جب مرکز سے مذاکرات ہوں گے تو اہم مطالبات کیا ہوں گے؟

ہماری بنیادی مانگ یہ ہے کہ لداخ کو آواز دی جائے۔ یو ٹی بننے کے بعد یہاں کی سیاسی خودمختاری مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔ ہم کسی بھی فیصلہ سازی میں شامل نہیں، نہ عوام کی رائے لی جاتی ہے۔ لہٰذا پہلی ضرورت جمہوریت کی بحالی ہے۔ ہم آدھی ادھوری جمہوریت نہیں چاہتے، ہمیں مکمل جمہوریت چاہیے — ایک ایسا نظام جس میں آئینی گارنٹی ہو، عوامی نمائندے ہوں، اور فیصلہ لداخ کے لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ اسی کے ساتھ ہم آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت خصوصی تحفظ کا مطالبہ بھی کرتے ہیں تاکہ ہماری زمین، شناخت اور ثقافت محفوظ رہے۔

اگر حکومت اسمبلی کے ساتھ یو ٹی کا درجہ دے دے تو کیا آپ اسے قبول کریں گے؟

وہ دے بھی دے، تو یہ ہماری لڑائی کا اختتام نہیں ہوگا۔ ہم پھر بھی مکمل ریاستی درجہ چاہتے ہیں۔ ہم ایک اور دہلی نہیں بننا چاہتے — جہاں منتخب حکومت ہو لیکن اختیارات مرکز کے پاس رہیں۔ ہمارا مطالبہ واضح ہے، لداخ کے فیصلے لداخ میں ہونے چاہئیں، دہلی کی میزوں پر نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔