’یہ مہاراشٹر کی روح کی لڑائی ہے‘

کانگریس لیڈر بالا صاحب تھوراٹ نے 1985 سے سنگم نیر اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں، ان کے لیے کام کرتے ہیں، تو لوگ آپ کو ووٹ دیں گے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

کانگریس کے رہنما بالا صاحب تھوراٹ ایک پرانے جنگجو ہیں۔ انہوں نے 1985 سے بغیر کسی وقفے کے مہاراشٹر کے اہلیانگر ضلع کے سنگم نیر اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کی ہے۔ اگر مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) اقتدار میں آئی اور کانگریس کا مظاہرہ اچھا رہا تو تھوراٹ ہاٹ سیٹ کے دعویدار بھی ہو سکتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران امیے تیروڈکر نے ان سے بات چیت کی:

آپ نے پہلی بار 1985 میں سنگم نیر سے انتخاب لڑا اور جیتا۔ یہ آپ کا نواں انتخاب ہے۔ کبھی مخالف لہر کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟

لوگ اکثر پوچھتے ہیں: آپ آٹھ بار منتخب کیسے ہوئے؟ میں راز بتاتا ہوں، اگر آپ لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں، لوگوں کے لیے ایمانداری سے کام کرتے ہیں، ان کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لاتے ہیں، تو لوگ آپ کو ووٹ دیں گے۔


آپ کو پہلی بار انتخاب لڑے تقریباً 40 سال ہو گئے۔ ان دہائیوں میں کیا تبدیلی آئی؟

1985 اور 2024 میں کیا فرق ہے؟ آپ کو کئی زرعی جھیلیں نظر آئیں گی۔ سنگم نیر تحصیل میں ہی ایسی 10000 جھیلیں ملیں گی۔ چالیس سال پہلے جہاں پانی نہیں تھا، آج وہاں نہر ہے۔ لوگ پانی کا ذخیرہ کرتے ہیں، سینچائی کے ساتھ باغبانی میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سے علاقے میں خوشحالی آئی ہے۔

ترقی تو ہے لیکن سیاست کا کیا؟ سیاست میں کیا بدلا؟

میں نے پچھلے 40 سالوں میں بڑی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ 1985 تک رہنماؤں کی ایک ایسی نسل تھی جو نظریاتی طور پر پرعزم تھی۔ ترقی پر ان کی باتوں میں تعصب نہیں دکھتا تھا۔ لیکن پچھلے 10 سالوں میں اس میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، سب کچھ بدل گیا ہے۔ اب نظریہ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہیں صرف اقتدار چاہیے۔ کئی رہنماؤں کی زبان دیکھیں! متعدد سیاستدانوں نے تو شائستگی کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔


اس انتخاب میں آپ کی پارٹی کا ایجنڈا کیا ہے؟

کانگریس نظریاتی پارٹی ہے۔ ہم آئین کے نظریات کے ساتھ اس انتخاب میں جا رہے ہیں۔ اس کی تمہید میں شامل جامع سوچ، سیکولرازم، مساوات کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہی ہمارا ایجنڈا ہے۔ بی جے پی اقتدار حاصل کرنے کے لیے فرقہ وارانہ ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے۔ یہ آئین کی سوچ کے برعکس ہے۔ ہمارے تمام منصوبے عام آدمی، اس کی فلاح و بہبود، اس کی ترقی پر مرکوز ہیں۔

آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کا ایجنڈا نظریاتی اور ترقیاتی ہے۔ مہایوتی کے رہنما بھی تو یہی کہہ رہے۔ وہ کئی فلاحی منصوبے لائے ہیں۔ آپ کے اتحاد میں کیا انوکھا ہے؟

ان کے منصوبوں کو بھول جائیں۔ سب سے پہلے تو اس پر بات ہونی چاہیے کہ انہوں نے یہ حکومت کیسے بنائی۔ انہوں نے جماعتوں کو توڑنے کے لیے سرکاری نظام اور خودمختار اداروں کا غلط استعمال کیا۔ اس پر لوک سبھا انتخاب میں لوگوں کی ردعمل بھی دکھ گیا۔ تب انہیں لگا کہ کچھ عوامی منصوبے بھی ضروری ہیں، جہاں وہ عوام پر پیسہ برسا سکیں۔ 'لاڈکی بہن' منصوبہ ٹھیک ہے لیکن کئی دیگر منصوبے محض ووٹ کے لیے ہیں۔ ان کے پاس کوئی ویژن نہیں ہے۔ اس نے ریاست کی بنیادی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔


آپ شیوسینا اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کو توڑنے کے تناظر میں خودمختار اداروں کے غلط استعمال کی بات کر رہے ہیں۔ کیا ووٹر کو واقعی اس کی پروا ہے؟

ہاں، لوگوں میں غصہ ہے۔ مہاراشٹر ایک ترقی یافتہ ریاست ہے۔ شاہو جی مہاراج اور امبیڈکر کے نظریات یہاں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ریاست کے عوام چاہتے ہیں کہ سیاست مہذب اور اصولوں پر مبنی ہو اور اسی لیے بی جے پی کی سیاست کو مسترد کر رہے ہیں۔

کیا آپ مانتے ہیں کہ 'لاڈکی بہن' یا بجلی بل معافی جیسی منصوبوں کا زمین پر کوئی اثر نہیں ہے؟ کیا لوگ نظریاتی زوال کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں؟

'لاڈکی بہن' کانگریس کے منشور کی نقل ہے۔ راہل گاندھی نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ ہم کسانوں کے لیے بھی منصوبے لائیں گے۔ ہم غریبوں کی مدد کے خلاف نہیں ہیں لیکن فلاح و بہبود کے نام پر اشتہارات پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ یہ لوٹ ہے۔


سیاسی طور پر کہیں تو، آپ کو لگتا ہے کہ ان منصوبوں کی وجہ سے مہایوتی پھر سے دوڑ میں آ گئی ہے؟

مجھے نہیں لگتا۔ ان منصوبوں کی وجہ سے وہ دوڑ میں نہیں رہیں گے۔ کیونکہ لوگ اس حکومت کی واپسی نہیں چاہتے۔ لوگ اسے غیر قانونی حکومت کہتے ہیں۔

ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں مہاراشٹر صنعتی ترقی میں نمبر ون ہو گیا ہے۔ آپ متفق ہیں؟

نہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ صنعتیں گجرات چلی گئی ہیں۔ آپ 'لاڈکی بہن' لا رہے ہیں لیکن (اس بہن کے) 'بھائی' کے پاس کوئی نوکری نہیں ہے۔ ایک حالیہ معاشی مقالہ (وزیر اعظم کی معاشی مشاورتی کونسل کی ایک رپورٹ) کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں ریاست کی جی ڈی پی میں کمی آئی ہے۔ ایک وقت تھا جب مہاراشٹر سب سے زیادہ ترقی پذیر ریاست تھا۔ بی جے پی نے اسے تباہ کر دیا۔


لوک سبھا انتخاب کے بعد بی جے پی نے 'ووٹ جہاد' کا نعرہ بلند کیا ہے۔ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں؟

وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ فرقہ وارانہ جذبات کو ابھارتے ہیں۔ ان کے پاس اپنا کام دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے لیکن میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں، پیاز کسانوں نے لوک سبھا انتخاب میں ہمیں ووٹ دیا۔ کیا بی جے پی اسے 'پیاز جہاد' کہے گی؟ بے روزگار نوجوانوں نے بڑی تعداد میں ہمیں ووٹ دیا۔ کیا وہ 'بے روزگار جہاد' ہے؟ خواتین نے ہمیں اجتماعی طور پر ووٹ دیا کیونکہ وہ اپنے خلاف بڑھتے مظالم کے خلاف تھیں۔ بی جے پی اسے کیا کہے گی؟ 'خواتین پر مظالم کے خلاف جہاد'؟

مہاراشٹر میں مراٹھا ریزرویشن کا سوال گرم ہوا ہوا ہے۔ جرانگے پاٹل نے اعلان کیا ہے کہ ان کی تحریک انتخابی سیاست میں نہیں آئے گی۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟

یہ صحیح فیصلہ ہے۔ کیونکہ وہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہیں۔ وہ سیاسی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے احتجاج نہیں کر رہے۔ ایک برادری کے بہت سے بے روزگار نوجوانوں کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ اگر وہ سیاست میں آتے تو اس مزاحمت کو جھٹکا لگتا۔


تجزیہ کار مانتے ہیں کہ جاٹ/غیر جاٹ دھڑے بندی ہریانہ میں بی جے پی کو جیتنے میں مددگار ثابت ہوئی اور غیر مراٹھا برادری یہاں آپ کے خلاف یکجا ہو جائے گی…

یہی ہے بی جے پی کی سیاست۔ یہ حکمت عملیوں پر مبنی ہے۔ ان پر کام کرنے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے ان کے پاس تھنک ٹینک ہیں۔ وہ یہی کوشش کریں گے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ مہاراشٹر میں یہ کام نہیں کرے گا۔

کیا کانگریس ایم وی اے میں 'بڑے بھائی' کے کردار میں ہے؟ سیٹوں کی تقسیم سے آپ خوش ہیں؟

ہم نے پہلے سیٹوں کی تعداد کا تعین نہیں کیا۔ (ہماری بات چیت میں) بنیاد یہی تھا کہ کون سی پارٹی کس مخصوص سیٹ کو جیت سکتی ہے۔ جیتنے کی اہلیت اور موجودگی ہی معیار تھے۔ آپ پوچھتے ہیں: کیا آپ سیٹوں کی تعداد سے خوش ہیں؟ جب کانگریس اکیلے انتخاب لڑ رہی تھی، اس نے تمام 288 سیٹوں پر انتخاب لڑا؛ جب ہم صرف این سی پی کے ساتھ اتحاد میں تھے، ہم تقریباً 145 سیٹوں پر لڑے؛ اب تین شراکت دار ہیں: تو واضح ہے کہ ہمیں تیسرا حصہ ہی ملے گا۔ جب آپ اتحاد میں ہوتے ہیں تو سب کچھ آپ کے مطابق نہیں ہوتا لیکن اگر ہم پختگی کا مظاہرہ کریں اور ایک دوسرے کی مدد کریں تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔


اس بار بغاوت بڑا مسئلہ ہیں۔ وہ دونوں اتحاد میں ہیں۔ کیا اس سے دقت ہوگی؟

ہاں، میں اسے قبول کرتا ہوں۔ بغاوت ہے۔ ہم نے کئی باغیوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ہم ابھی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ نے ہماری بات سنی بھی۔ میں انکار نہیں کر رہا کہ باغیوں کا ہماری کامیابی پر منفی اثر پڑے گا لیکن مہایوتی بھی اسی دور سے گزر رہی ہے اور ان کی مسئلہ ہم سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔

جس طرح سے 1995 میں باغی جیت کر آئے (تب 34-35 باغی تھے)، آپ کو لگتا ہے کہ اس بار بھی ویسے ہی حالات بن سکتے ہیں؟

فی الحال تو ایسا نہیں لگتا۔ ووٹر ایم وی اے یا مہایوتی کو ووٹ دینا ہے یا نہیں، اس پر سیدھا فیصلہ کر رہے ہیں۔ اس انتخاب میں ایم وی اے کو بڑی کامیابی ملے گی۔


مفروضہ ہے کہ جب مودی مہاراشٹر میں انتخابی مہم چلائیں گے، این ڈی اے کو مدد ملے گی۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟

مجھے نہیں لگتا۔ ہم نے انہیں لوک سبھا انتخاب کے دوران دیکھا تھا۔ وہ کئی بار آئے لیکن پھر بھی لوگوں نے بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا۔

سیٹوں کو لے کر آپ کی کیا پیش گوئی ہے؟

اگر ہم اچھا مہم چلائیں اور باغیوں پر قابو پا لیں تو ہم 180 تک پہنچ جائیں گے۔


آپ پارٹی کے سینئر رہنما ہیں۔ اگر کانگریس کو ایم وی اے میں زیادہ سیٹیں ملتی ہیں تو کیا آپ وزیر اعلیٰ بنیں گے؟

ابھی میری ترجیح ایم وی اے کے لیے جیت کو یقینی بنانا ہے۔ ہمیں سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ جب ہمیں تعداد مل جائیں گی، تو ایم وی اے کے رہنما ایک ساتھ بیٹھیں گے اور مل کر وزیر اعلیٰ پر فیصلہ کریں گے۔

(یہ انٹرویو اصل میں 'فرنٹ لائن' میں شائع ہوا تھا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔