’مہنگائی اور بے روزگاری کی صورتحال بہت خوفناک‘، انٹرویو میں سندیپ دکشت کا اظہار خیال

’’عآپ سے 2013 میں اتحاد کرنا غلطی تھی، لیکن 2024 میں مجھے نہیں لگتا کہ بہت زیادہ ہمارے پاس متبادل تھے، انڈیا اتحاد کو اگر تسلیم کیا جائے تو اس کا اثر بھی پڑا اور بی جے پی کی بہت سیٹیں کم ہوئیں۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>سندیپ دیکشت اپنی ماں آنجہانی شیلا دیکشت کو تلک لگاتے ہوئے، تصویر&nbsp;<a href="https://x.com/_SandeepDikshit">@_SandeepDikshit</a></p></div>

سندیپ دیکشت اپنی ماں آنجہانی شیلا دیکشت کو تلک لگاتے ہوئے، تصویر@_SandeepDikshit

user

سید خرم رضا

سردیوں میں دہلی کا سیاسی ماحول گرم ہے اور ظاہر ہے ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ 5 فروری کو دہلی میں اسمبلی انتخابات جو ہونے ہیں۔ دہلی کے عوام سیاسی طور پریشان ہیں کہ وہ کس کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں، کیونکہ دہلی میں سیدھے طور پر عام آدمی پارٹی اقتدار میں ہے اور کہیں نہ کہیں بی جے پی کا بھی اس اقتدار میں دخل ہے۔ ایک عام تاثر یہ بنا دیا گیا ہے کہ کانگریس، جس نے پورے 15 سال دہلی میں بہترین حکومت کی ہے، وہ اقتدار کی دوڑ میں شامل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 10 سال سے، یعنی 2015  اور 2020 میں اس کو دہلی میں کوئی نشست نہیں ملی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہلی کے عوام کانگریس کی شیلا حکومت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ شیلا دکشت کے خاندان کو ایک چھوٹا ہندوستان اس لئے کہا جا سکتا ہے کیونکہ شیلا دکشت جو خود ایک پنجابی گھرانے میں پیدا ہوئیں، جن کی شادی ایک برہمن گھرانے میں ہوئی، ان کے بیٹے سندیپ دکشت نے ایک گجراتی جین خاندان کی لڑکی مونا جین سے شادی کی جو خود کو ایک مدراسی مانتی ہیں کیونکہ انہوں نے زیادہ وقت وہیں گزارا ہے۔

ان انتخابات میں کیجریوال کا مقابلہ کرنے کے لئے کانگریس نے شیلا دکشت  کے صاحب زادے سندیپ دکشت کو میدان میں اتارا ہے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کے عادی ہیں۔ نئی دہلی کی اس سیٹ سے بی جے پی نے دہلی کے سابق وزیر اعلی صاحب سنگھ ورما کے بیٹے اور سابق رکن پارلیمنٹ پرویش ورما کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ سندیپ نے اس سے پہلے یہ واضح کر دیا ہے کہ دہلی میں جیتنے والے ارکان اسمبلی طے کریں گے کہ کون دہلی کا وزیر اعلی ہونا چاہئے اور وہ کانگریس کی کارکردگی پر تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں۔ سندیپ دکشت سے ’قومی آواز‘ نے اس انتخابی ماحول میں کئی طرح کے سوال کئے جس کے جواب پیش خدمت ہیں۔

آپ رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں، ایسی صورت میں آپ کا اسمبلی انتخاب میں امیدوار بننا کیا آپ کی تنزلی یعنی عہدہ کم کرنے جیسا ہے، یا پھر آپ اپنی والدہ پر کیجریوال کے ذریعہ لگائے گئے الزامات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں؟

دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ یہ ایک سیاسی لڑائی ہے اور اس کو صرف اسی طرح دیکھنا چاہئے۔


آپ ان انتخابات میں اپنی والدہ کے کاموں کو ہی پیش کر رہے ہیں۔ کیا آپ کی والدہ کے ذریعہ کئے گئے کام ہی گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں؟

ایسا نہیں ہے کہ میں صرف اپنی والدہ کے کاموں کو پیش کر رہا ہوں، میں تو کانگریس کے کاموں کو پیش کر رہا ہوں۔ لوگوں کے حافظے میں میری والدہ شیلا دکشت جی کی جو تصویر ہے، لوگ اس کا ذکر کر دیتے ہیں جس سے ان کے ذریعہ کئے گئے کام کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ میری والدہ نے جو بھی کام کیے، وہ حقیقی معنوں میں کانگریس کے ہی کام تھے۔

لیکن شیلا دکشت کا نام لینا آپ کے حق میں کتنا جا رہا ہے؟

ان کا نام لینا کانگریس کے حق میں جا رہا ہے۔


ان الزامات میں کتنی صداقت ہے کہ کانگریس اقتدار کی دوڑ میں نہیں ہے اور یہ پارٹی عام آدمی پارٹی کو ہرانے کے لئے اور بی جے پی کو جتانے کے لئے ہے؟

اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ عام آدمی پارٹی سے ہم زیادہ ووٹ کھینچیں گے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس بی جے پی سے بھی بہت ووٹ کھینچ رہی ہے۔ بی جے پی کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ترقی کے لئے ووٹ کرتا ہے اور وہ کانگریس کے لئے ووٹ کرے گا۔ یہ ووٹرس عام آدمی پارٹی سے ناراض ہیں اور وہ بی جے پی کو اس لئے ووٹ کرتے تھے کیونکہ ان کو لگتا تھا کہ عام آدمی پارٹی ترقی کو لے کر زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔ آج جب اسے لگ رہا ہے کہ کانگریس بہت اچھے طریقے سے انتخابات لڑ رہی ہے، تو وہ کانگریس کے حق میں ووٹ دے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب عام آدمی پارٹی دہلی میں انتخابات لڑی تھی تو لوگوں نے اس سے تو نہیں پوچھا کہ وہ کانگریس کے ووٹ کیوں کاٹ رہی ہے۔ اس لئے ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگوں کا سوال ہے، بلکہ دہلی میں برسر اقتدار جماعت عام آدمی پارٹی نے اقتدار میں رہنے کے لئے یہ سوال پیدا کیا ہوا ہے۔ یہ کانگریس کا حق ہے کہ وہ بھی انتخابی میدان میں اترے اور ووٹ مانگے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی نے بیڑہ غرق کر دیا اور ہم کانگریس کو اس کا جائز حق دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم کیسے ایسی پارٹی کو جیتنے دیں جس نے دہلی کے عوام کے لئے کچھ کیا ہی نہیں۔

کیجریوال نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاجی مظاہرین کے ساتھ نہ کھڑے ہو کر، شمال مشرقی دہلی کے فسادات پر خاموشی اختیار کر کے اور کووڈ وبا کے دوران ان کی حکومت نے تبلیغی جماعت کے مرکز کو وبا پھیلانے کے لئے ذمہ دار ٹھہرا کر ایک زبردست غلطی کی؟

اس کی یہ غلطی نہیں تھی کیونکہ وہ (کیجریوال) ان چیزوں میں یقین ہی نہیں کرتا۔ اس کے لئے مسلمان صرف ایک ووٹر ہیں اور اسے معلوم ہے کے مجبوری میں وہ اسے ووٹ دیں گے۔ جب اس کو ضرورت پڑتی ہے تو چھوٹا موٹا ڈراما کر دیتا ہے کہ بی جے پی جیت جائے گی۔ عام آدمی پارٹی دہلی میں اقتدار میں نہیں آئی اور یہاں پولیس یا جانچ ایجنسیاں ان کے ماتحت نہیں ہیں، اس لئے وہ ایک محفوظ زون میں کھیل رہی ہے۔ میرے حساب سے تو یہ بی جے پی سے ایک فیصد بھی کم فرقہ پرست نہیں ہیں، اور یہ جب چاہیں گے مذہب کا استعمال کر لیں گے اور یہ کبھی بھی سچے سیکولر نہیں ہو سکتے، کیونکہ سچا سیکولرزم مذہب سے دوری نہیں ہے بلکہ ’سرو دھرم سمبھاؤ‘ ہے۔ یعنی سب کے لئے برابری۔ اگر ہم دیوالی، نوراتری مناتے ہیں اور مندر جاتے ہیں تو ہم عید بھی مناتے ہیں اور درگاہ بھی جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی ان کو پھول والوں کی سیر میں جاتے نہیں  دیکھا ہوگا۔ یہ (کیجریوال) ہر چیز کو سیاست سے کیلکولیٹ کرتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>نامزدگی کے دن سندیپ دکشت اپنے اہل خانہ کے ساتھ</p></div>

نامزدگی کے دن سندیپ دکشت اپنے اہل خانہ کے ساتھ


آپ اپنے رائے دہندگان کے بیچ کون سے مسائل اٹھا رہے ہیں؟

ایک تو یہ کہ انہوں (کیجریوال) نے کام نہیں کیا نئی دہلی اسمبلی حلقہ میں، کیونکہ کیجریوال اپنے حلقہ میں رکن اسمبلی کے طور پر پوری طرح ناکام رہے۔ میں تو ان کو ناکارہ رکن اسمبلی مانتا ہوں۔ اگر زمین پر جائیں تو لوگوں میں بہت مایوسی ہے، کیونکہ انہوں نے کچھ بھی کام نہیں کیا اور اس بات کو ہم نہیں اٹھاتے بلکہ ووٹرس ہی اٹھاتے ہیں۔ دو چیزیں سب سے زیادہ عوام سے سننے کو مل رہی ہیں۔ ایک تو مہنگائی ہے، اور دوسری چیز بے روزگاری۔ کانگریس جب اقتدار میں تھی تو اس وقت ایم سی ڈی سے عارضی کام کرنے والے ملتے تھے۔ جن کا انتقال ہو جاتا تھا ان کی جگہ اہل خانہ کو نوکری ملتی تھی۔ کبھی کاروبار میں، کبھی صنعت میں روزگار ملتے تھے اور غریبوں کو مکان ملتے تھے۔ روزگار کو لے کر بہت سے لوگ پریشان ہیں، زیادہ تر گھروں میں ایک یا دو لوگ بے روزگار پڑے ہیں، بشمول تعلیم یافتہ گھرانوں کے۔ یہ صورتحال بہت خوفناک ہے۔ بے روزگاری ایک بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ ان خاندانوں کو یہ لگتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی پارٹی کوشش کرتی تھی تو وہ کانگریس پارٹی ہی تھی۔ اسی لئے وہ کانگریس کی بات کرتے ہیں اور ان کو بھروسہ ہے کہ کانگریس ہی ان کو روزگار دے سکتی ہے۔ اس لئے یہ بات بھی ہم بار بار بتا رہے ہیں کہ کانگریس ان کی کیسے کیسے مدد کر سکتی ہے۔ دہلی کے عوام کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ دہلی میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا، اسی لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں کچھ کام نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ رنگ روغن بھی یہ شخص نہیں کروا پایا۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر دہلی میں کانگریس حکومت آتی ہے تو بہت کچھ کام ہو سکتا ہے۔ نئی  دہلی کے لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کے لئے دونوں، یعنی عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کو برابر کا ذمہ دار مانتے ہیں۔ دہلی کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں کیونکہ دہلی کی حالت پہلے سے بھی خراب ہو گئی ہے۔

کیا آپ کی نظر میں 2013 اور 2024 میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ کانگریس کا اتحاد ایک غلطی تھی؟

2013 میں اتحاد کرنا غلطی تھی، لیکن 2024 میں مجھے نہیں لگتا کہ بہت زیادہ ہمارے پاس متبادل تھے اور 2024 کے انڈیا اتحاد کو اگر تسلیم کیا جائے تو اس کا اثر بھی پڑا اور بی جے پی کی بہت سیٹیں کم ہوئیں اور سب کو لگا کہ حزب اختلاف متحد ہو کر لڑ رہا ہے۔ اسی لئے عوام نے اس کی حمایت کی۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اگر تھوڑا اور وقت مل گیا ہوتا یا اتحاد کی کوششیں تھوڑی زیادہ رہتیں تو ممکن ہے کہ بی جے پی کی 30 سے 40 نشستیں مزید کم ہو سکتی تھیں۔ 2024 میں جو بھی اتحاد ہوا اس کا بہت فائدہ ہوا، لیکن جب دہلی پر آتے ہیں تو 2013 میں اتحاد کرنا ایک بہت بڑی غلطی تھی، اور 2013 میں جو کانگریس نے حمایت دی اس وقت بھی مجھے نہیں لگتا ہمارے پاس زیادہ متبادل تھے، کیونکہ اس وقت ہمارے اراکین اسمبلی کہہ رہے تھے کہ دوبارہ گر انتخابات ہوتے ہیں تو وہ ہار جائیں گے، اس لئے اس وقت بھی ہمارے پاس زیادہ متبادل نہیں تھے، لیکن وہ اتحاد کرنا ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہوئی۔


پانچ گارنٹیوں کا جو کانگریس نے اعلان کیا ہے اس کے علاوہ اگر اقتدار میں آتے ہیں تو آپ کی ترجیحات کیا رہیں گی؟

ویسے تو کئی ہیں، لیکن فضائی آلودگی اور پانی کی آلودگی کو ختم کرنا ہماری ترجیحات میں سے ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ اس پر بالکل کام نہیں ہوا اور اس کا ایک روڈ میپ ہمارے پاس ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں بے روزگاری دور کرنے کے  لئے کام کرنا ہے۔ دہلی میں سروس کی صنعت ہے اور اگر حکومت دہلی میں انفراسٹرکچر کو بنائے گی تو اس سے بے روزگاری بھی دور ہوگی اور دہلی ایک سروس ہب بھی  بن جائے گا۔ یہ دو تین چیزیں ہماری ترجیحات میں سے ہیں اور یہاں کے عوام چاہتے ہیں کہ ان کو وہی دہلی چاہئے جس میں ترقیاتی کام ہوتے تھے۔ عوام چاہ رہے کہ پھر سے وہ پارٹی اقتدار میں آئے جس کے اقتدار میں دہلی نے چو طرفہ ترقی کی اور جو کسی سے نہ لڑے۔

آپ نے لڑائی کی بات کی ہے تو، اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو ایل جی اور مرکز سے بغیر لڑے کیسے کام کریں گے؟

پہلی چیز تو یہ ہے کہ کام کرنے کی کوشش کرو۔ مجھے نہیں لگتا کہ کیجریوال نے کام کرنے کی کوشش بھی کی۔ شیلا جی کے بھی ایل جی سے اختلافات ہوتے تھے، چاہے وہ کانگریس کے ذریعہ ایل جی تیعنات کئے گئے ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کام نہیں ہوتا تھا۔ کیجریوال کے تو سب سے اختلافات ہیں۔ آپ کو کام کرانا آنا چاہئے، آپ کو اٹھ کر کام کرانے جانا چاہئے، اور جو شخص اپنے اراکین اسمبلی سے نہیں ملتا وہ کسی سے کیا کام کرائے گا۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہر ایل جی غلط تھا، ہر پولیس کمشنر خراب ہے، ہر چیف سکریٹری غلط ہے۔ ان کی تو کسی سے بنتی نہیں۔ نہ کسی ایل جی سے، نہ کسی چیف سکریٹری سے، نہ کسی پولیس کمشنر سے اور نہ کسی آئی اے ایس افسر سے۔ سوال سب سے بڑا یہ ہے کہ ان کو پسند کون ہے؟ سب سے تو وہ جھگڑا کرتے ہیں۔ اگر آپ (کیجریوال) افسر کے منہ پر فائلیں پھینک دیں گے تو وہ آپ کے لئے کام نہیں کرے گا، کیونکہ وہ سرکار کا ملازم ہے، آپ کا ذاتی ملازم نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔