فیصلے سے یکساں سول کوڈ کے راستے بند :مجید میمن

طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر جہاں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں مسلمانوں کی اکثریت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس فیصلے کے قانونی پہلو کیا ہیں.

Getty Images
Getty Images
user

سید خرم رضا

طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر جہاں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں مسلمانوں کی اکثریت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس فیصلے کے قانونی پہلو کیا ہیں اور اس کا مسلم سماج پر کیا اثر پڑے گا۔ اس تعلق سے سید خرم رضا نے ملک کے معروف وکیل اور سیاست داں مجید میمن سے گفتگو کی ۔ پیش ہے اس گفتگو کے چند اقتباسات۔

سید خرم رضا : تین طلاق کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر آ پ کی کیا رائے ہے؟

مجید میمن : فیصلہ 500صفحات پر مشتمل ہے اس لئے مکمل رائے تو پورا فیصلہ پڑھنے کے بعد ہی دی جا سکتی ہے ۔ ویسے اس معاملے میں چیف جسٹس کیہر اور جسٹس عبدالنذیر کا یک فیصلہ ہے اور اس کے بعد نریمن اور للت کا ایک فیصلہ ہے۔ نریمن اور للت نے چیف جسٹس اور جسٹس عبدالنذیر کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس سے فیصلے میں رائے دو دو سے برابر ہو گئی ۔ اس کے بعد پانچوے جج جسٹس جوزف کورین نے نریمن اور للت کی طرف جھکاؤ دکھایا یعنی فیصلہ 3-2سےتقسیم ہو گیا۔ اس فیصلے پر میں یہ ضرور کہوں گا کہ بی جے پی یہ با لکل نہ سمجھے کہ اس نے مسلم خواتین کے دل جیت لئے ہیں یا وہ ان کے حق کی لڑائی جیت گئے ہیں اور اس وجہ سے وہ بی جے پی کا ووٹ بینک بن گئی ہیں۔ اس فیصلے کو سیاسی نظریہ سے نہیں دیکھنا چاہئے ۔ نہ تو یہ معاملہ سیاسی ہے، نہ مکمل طور سے قانونی یہ ایک مذہبی اور سماجی مسئلہ ہے ۔اس سماجی اور مذہبی مسئلہ کو بہت ہی نزاکت کے ساتھ ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے ۔ سید خرم رضا یہ ہے کہ اس فیصلے سے کچھ لوگ خوش نظر آ رہے ہیں اور کچھ خفا نظر آ رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس فیصلہ پر رائے تقسیم ہے اس لئے اس فیصلے کی حقیقت کا پتہ 10کروڑ مسلم خواتین کے رد عمل سے لگے گا۔

سید خرم رضا :آپ قانونی پیچیدگیوں کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور سیاسی نزاکتوں پر بھی آپ کی گہری نظر ہے تو کیا آپ کو کہیں سے کوئی ایسے اشارے محسوس ہو رہے ہیں کہ یہ فیصلہ یکساں سول کوڈ کی طرف پہلا قدم ثابت ہو؟

مجید میمن : اس فیصلے میں یونیفارم سول کوڈ کے تعلق سے تو خاص طور سے ممانعت کی گئی ہے۔ چیف جسٹس کیہر اور جسٹس نظیر کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرکار یکساں سول کوڈ کا خطرہ مول نہ لے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مذہبی حقوق کسی بھی صورت میں بنیادی حقوق سے کم نہیں ہیں اس لئے ان کے ساتھ چھیڑ خانی کرنا مناسب نہیں ہے۔ ویسے ہم لوگ بھی ایک ساتھ تین طلاق دینے کے کبھی بھی حق میں نہیں تھے ۔

سید خرم رضا: کیا آ پ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اگر وقت رہتے مسلم پرسنل لاء بورڈ خود یہ اصلاحات کر لیتے تو یہ نوبت نہیں آتی ؟

مجید میمن: بالکل صحیح ہے میں نے تو خود یہ بات مولانا ارشد مدنی سے کہا تھا کہ اگر ہم اپنے گھر میں اس مسئلہ کو حل کر لیتے اور ایک دفعہ میں تین طلاق کے معاملے کو ختم کر دیتے تو عدالت میں جانے کی یہ نوبت ہی نہیں آتی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم نے لاپرواہی کی ہے۔

سید خرم رضا:مستقبل میں مسلمانوں کو اس طرح کے مسئلوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اس کے لیے کیا حکمت عملی آ پ تجویز کرتے ہیں؟

مجید میمن : مسلم دانشوران، مسلم علماء اور مسلم رہنما بیٹھ کر ملی مسائل پر غور کریں اور مسائل کی شناختی کے بعد ان کو حل کرنے کے لئے راستے نکالیں تاکہ آنے والے خطرات سے بچا جا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔