سکھوندر سنگھ سکھو کا انٹرویو: ’ہم کسی دباؤ میں نہیں، ضمانتوں کی تکمیل مرحلہ وار جاری ہے‘
ہماچل پردیش میں کانگریس حکومت کے دو سال 11 دسمبر کو مکمل ہوئے۔ شملہ میں روہت سنگھ نے وزیراعلیٰ ٹھاکر سکھویندر سنگھ سکھو سے مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ پیش ہے انٹرویو کے اہم اقتباسات:

وزیر اعلیٰ ہماچل پردیش سکھوندر سنگھ سکھو / آئی اے این ایس
ہماچل پردیش میں کانگریس حکومت کے دو سال 11 دسمبر کو مکمل ہوئے۔ شملہ میں روہت سنگھ نے وزیراعلیٰ ٹھاکر سکھویندر سنگھ سکھو سے مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ پیش ہے انٹرویو کے اہم اقتباسات:
"پچھلی بی جے پی حکومت کے دوران اڈانی کو سود کے ساتھ 280 کروڑ روپے دیے گئے تھے۔ ہائی کورٹ نے بھی اس پر فیصلہ دیا تھا۔ ہم نے اس معاملے کو دوبارہ ہائی کورٹ میں لڑا اور 280 کروڑ روپے حکومت کے خزانے میں واپس آئے۔ بات بالکل صاف ہے: جو ہمارے یہاں قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرے گا، ہم بھی اس کے ساتھ قانون کے مطابق کام کریں گے۔ ہم نہ تو ہماچل کی دولت کو لٹانے آئے ہیں اور نہ ہی لوٹنے۔‘‘
سوال: سب سے پہلے آپ اپنے دو سالہ دور حکومت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس دوران آپ کی سب سے بڑی کامیابی کیا رہی؟
پچھلی بی جے پی حکومت نے انتخابی سال میں کروڑوں کی مفت سہولیات فراہم کیں، جس سے ریاست کی معیشت بدحال ہو گئی تھی۔ ہم نے اصلاحاتی فیصلے اور پالیسی تبدیلیوں کے ذریعے معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کا کام کیا۔ اس کے علاوہ، ہم نے پرانی پنشن اسکیم (او پی ایس) کو دوبارہ نافذ کیا، جسے تقریباً ناممکن سمجھا جا رہا تھا۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کئی فیصلے کیے، جن میں غریبوں، کسانوں، بزرگوں، خواتین، اور نوجوانوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔ یہ سب ہم نے اُس وقت کیا جب ہماری حکومت کی ابتدا ہی میں شدید قدرتی آفات کے سبب 12 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا اور مرکزی حکومت سے کوئی مدد نہیں ملی۔ ہم اپنے حق کے لیے مسلسل آواز بلند کرتے رہیں گے۔
سوال: دو سال کے دوران آپ کو کن بڑے چیلنجز کا سامنا رہا؟
ہمیں سب سے پہلے اقتصادی بحران، پھر قدرتی آفات اور اس کے بعد سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ بی جے پی نے ہماری حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن ہم اپنے دیوی دیوتاؤں کے آشیرواد اور عوام کے اعتماد سے حکومت کو بچانے میں کامیاب رہے۔ اب حکومت پر کسی بھی طرح کا خطرہ نہیں ہے۔ جو تھوڑے بہت اختلافات تھے، وہ حل ہو چکے ہیں۔ جو افراد ہمیں چھوڑ کر گئے، وہ پہلے ہی بی جے پی کی سوچ کے تھے اور وہیں واپس چلے گئے۔ حکومت اور پارٹی کے درمیان اب سب ٹھیک ہے اور میں حکومتی امور پر مکمل توجہ دے رہا ہوں۔ پارٹی کے تنظیمی معاملات کو کانگریس کی ریاستی صدر بخوبی سنبھال رہی ہیں۔
سوال: حالیہ دنوں میں ہائی کورٹ کے حکومت کے خلاف فیصلے آئے ہیں۔ آپ اس پر کیا کہیں گے؟
ہائی کورٹ میں عدالتی فعالیت کچھ زیادہ ہو رہی ہے۔ ہمیں عدالتی دائرہ کار کا احترام کرنا چاہیے اور ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت مناسب نہیں۔
سوال: آپ کی حکومت کے دوران اڈانی گروپ کے ساتھ کئی تنازعات دیکھنے کو ملے، چاہے وہ سیمنٹ کی ڈھلائی ہو یا سیب کی قیمتوں کا مسئلہ۔ آپ اس پر کیا موقف رکھتے ہیں؟
اگر آپ دیکھیں تو پچھلی بی جے پی حکومت نے اڈانی کو سود سمیت 280 کروڑ روپے دیے اور ہائی کورٹ نے بھی اس پر فیصلہ دیا۔ ہم نے اس معاملے کو دوبارہ عدالت میں لڑا اور وہ رقم واپس حکومتی خزانے میں آئی۔ ہمارا موقف واضح ہے، جو بھی قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرے گا، ہم اس کے ساتھ قانون کے دائرے میں ہی میں رہ کر کام کریں گے۔ ہم ہماچل کی دولت کو نہ لٹانے آئے ہیں اور نہ لوٹنے۔ نہ ہم پر اڈانی کا کوئی دباؤ ہے، نہ کسی اور کا۔
سوال: کچھ ماہ قبل مساجد کی غیر قانونی تعمیرات پر مظاہرے ہوئے۔ اب اس معاملے کی کیا صورتحال ہے؟
یہ معاملہ انتخابات سے قبل بی جے پی کی جانب سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔ حکومت نے اسے حساسیت کے ساتھ ہینڈل کیا۔ مساجد کی کمیٹیوں اور اماموں نے خود فیصلہ کیا کہ غیر قانونی تعمیرات ہٹائی جائیں گی اور انہوں نے ایسا کر بھی دیا۔ اب اس معاملے میں مکمل سکون ہے۔
سوال: کانگریس نے انتخابات کے دوران 10 گارنٹیاں دی تھیں۔ بی جے پی کا الزام ہے کہ آپ انہیں پورا نہیں کر رہے۔
بی جے پی کے پاس کوئی ایشو نہیں بچا۔ ہم گارنٹیوں کو مرحلہ وار پورا کر رہے ہیں اور آئندہ برسوں میں سب کو پورا کریں گے۔
سوال: ہماچل میں ترقیاتی ماڈل پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ آپ اس سمت میں کیا کر رہے ہیں؟
ہم ماحولیات اور موسمی تبدیلی کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبے تیار کر رہے ہیں۔ ہمارا فوکس ہائیڈرو ٹورزم اور ڈیری سیکٹر پر زیادہ سرمایہ کاری پر ہے۔ ہماچل کا پانی ہماری دولت ہے، لیکن اس کے لیے صحیح پالیسی نہیں اپنائی گئی۔ اگر ہم صحیح پالیسی کے ساتھ کام کریں تو ریاست کی معیشت بہت آگے جا سکتی ہے۔ ہم نے نئی بجلی پالیسی کے تحت ہائیڈرو پاور پروجیکٹس پر شرائط طے کی ہیں، جس کے مطابق منصوبے 40 سال کے بعد حکومت کو منتقل کیے جائیں گے۔
سوال: ہماچل میں ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ آپ سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
سیاحت کے فروغ کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ ہوائی اڈوں کی توسیع، ہیلی پورٹس کی تعمیر اور سیاحتی مقامات کی ترقی ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ مرکز نے حالیہ دنوں میں سیاحت کے لیے فنڈنگ کی لیکن ہماچل کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ ہم اس کے لیے اپنا بجٹ مختص کریں گے اور ترقیاتی منصوبے خود سے مکمل کریں گے۔ ویسے بھی، ہمیں مرکز سے تعاون نہیں مل پا رہا ہے۔ وزیروں نے جو منصوبے بھیجے تھے، ان کی منظوری کے لیے ہم مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں اپوزیشن کی حکومتیں ہوتی ہیں، وہاں انہیں زیادہ فنڈز دیے جاتے ہیں، لیکن کم از کم ہمارے معاملے میں تو ایسا نہیں ہو رہا۔
سوال: ہماچل میں بننے والی ادویات کے معیار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟
فارما انڈسٹری میں جو بھی غیر قانونی کام کرے گا، وہ جیل جائے گا۔ اس معاملے میں مرکزی حکومت کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
سوال: آپ نے خود کفیل ہماچل کی بات کی۔ اس کے لیے آپ کا کیا روڈ میپ ہے؟
ہم نے 2027 تک ہماچل کو خود کفیل بنانے اور 2032 تک ملک کی امیر ترین ریاستوں میں شامل کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ اس کے لیے ہم دیہی معیشت کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ ہم نے منریگا کی اجرت میں 60 روپے کا اضافہ کیا اور دودھ کے لیے معاون قیمت دینے کا نظام بنایا۔ ہماچل قدرتی کھیتی کے تحت پیدا ہونے والی مکئی اور گندم کے لیے بھی کم از کم سپورٹ پرائس فراہم کرنے والی پہلی ریاست ہے۔
سوال: ریاست میں بڑھتی بے روزگاری کے لیے آپ کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
ہم نے گزشتہ دو سالوں میں 31 ہزار سے زیادہ سرکاری ملازمتیں فراہم کی ہیں، جو بی جے پی پانچ سالوں میں بھی نہیں کر پائی۔ مزید بھرتیوں کے لیے عمل جاری ہے، اور ہم مختلف محکموں میں خالی عہدے جلد پر کریں گے۔
سوال: آپ کے دو سال مکمل ہونے پر عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ہمارا مقصد عوام کی فلاح و بہبود اور ریاست کی ترقی ہے۔ ہم نے جن وعدوں کے ساتھ حکومت بنائی، انہیں پورا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ عوام کا اعتماد ہی ہماری اصل طاقت ہے اور ہم ان کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔