انٹرویو— مہارانی وسندھرا کی الٹی گنتی شروع: سچن پائلٹ

سچن پائلٹ کا کہنا ہے کہ راجستھان کے ضمنی انتخابات میں شکست مرکز کی مودی حکومت، ریاست کی وسندھرا حکومت اور بی جے پی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔

تصویر پرمود پشکرنا
تصویر پرمود پشکرنا
user

وشو دیپک

راجستھان کانگریس کے ریاستی صدر سچن پائلٹ نے ضمنی انتخابات میں سبھی دو لوک سبھا اور ایک اسمبلی سیٹ پر کانگریس کی کامیابی کو بی جے پی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے ’قومی آواز‘ کو دیے گئے اپنے خصوصی انٹرویو میں آئندہ انتخابات اور کانگریس کی تیاریوں سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات:

وشو دیپک: حال ہی میں راجستھان میں تین سیٹوں (دو لوک سبھا اور ایک اسمبلی) کے لیے ہوئےضمنی انتخابات میں کانگریس نے شاندار فتح حاصل کی۔ اس فتح کا سہرا آپ کس کو دینا پسند کریں گے اور ان نتیجوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

سچن پائلٹ: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس فتح کا سہرا کانگریس پارٹی کے لاکھوں کارکنان کے سر جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی کامیابی ہے جنھوں نے زمینی سطح پر وسندھرا حکومت کا زبردست مقابلہ کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ الور-اجمیر میں کانگریس نے صرف فتح حاصل نہیں کی ہے بلکہ بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس بات کی اہمیت اس لیے مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ دونوں سیٹیں روایتی طور پر بی جے پی کی تصور کی جاتی ہیں۔ کانگریس نے الور میں تقریباً دو لاکھ ووٹوں کے فرق سے فتح حاصل کی اور اجمیر میں تقریباً 84 ہزار کے فرق سے فتحیابی حاصل ہوئی۔ اسی طرح منڈل گڑھ اسمبلی میں 12 ہزار ووٹوں کے فرق سے فتح حاصل کرنا بڑی بات ہے۔ ظاہر ہے ان نتائج کے بعد سے کانگریس پارٹی کا جوش کافی بڑھ گیا ہے۔ 2014 میں پورے راجستھان میں کانگریس کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی تھی۔ تین سال کے بعد اتنے بڑے فرق سے جیت بہت اہمیت کی حامل ہے۔

انتخابی نتیجہ کو آپ بی جے پی کی شکست تصور کرتے ہیں یا کانگریس کی فتح؟ یہ نتیجہ راجستھان کی وسندھرا حکومت کے خلاف ہے یا مودی کے خلاف؟

چند الفاظ میں اس نتیجے کی تشریح نہیں کی جا سکتی۔ یکطرفہ طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ نتیجہ مرکز کی مودی حکومت کے خلاف ہے یا بی جے پی حکومت کے خلاف یا پھر وسندھرا حکومت کے خلاف۔ میرے خیال سے بی جے پی کی ناکامی میں ان تینوں اسباب نے یکساں کردار ادا کیا ہے، اور ظاہر ہے بی جے پی کی شکست کانگریس کی فتح ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ نتیجے بی جے پی کی عوام مخالف پالیسیوں، بدتر حکمرانی اور بدعنوانی کے خلاف عوام کی ناراضگی کا پیش خیمہ ہیں۔ لوگوں نے کانگریس کا دور بھی دیکھا ہے۔ ووٹ کرنے سے پہلے لوگوں نے ضرور سوچا ہوگا کہ کانگریس کے دور میں ریاست کی حالت کیسی تھی اور آج کیسی ہو گئی ہے۔ وسندھرا راجے فیکٹر نے بھی کام کیا ہے۔ ان کی عوام پر گرفت تیزی کے ساتھ ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ اجمیر انتخاب جیتنے کے لیے انھوں نے ہر ممکن کوشش کی، کابینہ کے نصف سے زیادہ وزراء نے انتخابی تشہیر کی لیکن عوام نے انھیں خارج کر دیا۔


بی جے پی لیڈران کا دعویٰ ہے کہ یہ محض حکومت مخالف لہر تھی۔ کئی سروے میں اب بھی یہی دِکھایا جا رہا ہے کہ لوک سبھا انتخابات کرائے جائیں تو بی جے پی ہی حکومت بنائے گی۔ آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

دیکھیے، بی جے پی کے لوگ کچھ بھی کہتے رہیں، مہارانی وسندھرا راجے کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ کیا ضمنی انتخابات کے نتائج کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے؟ کیا ضمنی انتخابات میں عوام ووٹ نہیں کرتے ہیں؟ سیدھی بات یہ ہے کہ نہ صرف مرکز کی مودی حکومت بلکہ ریاست کی وسندھرا راجے حکومت بھی ہر زاویے سے ناکام ثابت ہوئی ہے، چاہے آپ کسانوں کے مسائل کی بات کریں، بے روزگاری کی بات کریں یا پھر بدعنوانی کے ایشو پر بات کریں۔ للت گیٹ سے متعلق بھی عوام سب کچھ یاد رکھے ہوئی ہے۔ معیشت کی حالت پہلے سے ہی خراب ہے اور بی جے پی نے جو ذات و مذہب کے نام پر تقسیم کی سیاست شروع کی ہے، وہ بھی لوگ سمجھ چکے ہیں۔ ایک سطر میں کہا جائے تو بی جے پی کی حکومت عوام مخالف ہے۔

تصویر پرمود پشکرنا
تصویر پرمود پشکرنا
کانگریس رہنما سچن پائلٹ

آپ راجستھان ریاستی کانگریس کے صدر ہیں۔ یہ بتائیے کہ اگر آج کی تاریخ میں انتخابات کا اعلان ہو جائے تو کیا کانگریس اس کے لیے تیار ہے؟

ہماری پارٹی انتخابات کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔ اجمیر، الور کی ہر ریلی میں ہم نے کہا تھا کہ نئے سال میں ہمیں ہمارے صدر راہل گاندھی جی کو جیت کا تحفہ دینا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ عوام نے ہماری عزت رکھی۔ ہم راہل جی کو جیت کا تحفہ دینے میں کامیاب رہے۔ ان کی قیادت میں کانگریس پارٹی انتخابات لڑنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔ انتخابات کے لیے راہل جی کی ٹیم تیار ہو چکی ہے۔


آپ کہتے ہیں کہ کانگریس انتخابات کے لیے تیار ہے، لیکن آپ کے ناقدین کہتے ہیں کہ راجستھان کانگریس دو گروپ میں منقسم ہے... ایک گروپ آپ کا اور دوسرا گروپ گہلوت کا۔کیا ایسی صورت میں کانگریس پوری طاقت کے ساتھ انتخاب میں کھڑی ہو پائے گی؟

دیکھیے، میں بہت واضح طریقے سے اور زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ کانگریس پارٹی کے اندر کوئی گروپ بندی نہیں ہے۔ کانگریس پارٹی کے اندر اگر کوئی گروپ ہے تو وہ ہے راہل گاندھی کا۔ ہم سب لوگ اسی گروپ کے حصے ہیں۔ اگر کانگریس پارٹی کے اندر گروپ بندی ہوتی تو ضمنی انتخاب میں اتنی بڑی فتح کیسے حاصل ہوتی۔ آپ جس گروپ بندی کی بات کر رہے ہیں وہ سب بی جے پی کا پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے۔ گہلوت جی، جوشی جی اور ہم سب نے مل کر کانگریس پارٹی کی فتح کے لیے سخت محنت کی ہے۔

آپ نوجوان لیڈر ہیں اور لوگوں کو آپ سے کافی امیدیں وابستہ ہیں، کیا کانگریس پارٹی آپ کے چہرے کے ساتھ انتخاب میں اترے گی یا پھر روایتی پالیسی پر عمل کرے گی؟

کانگریس کی روایت ہے کہ انتخاب جیتنے کے بعد قانون ساز پارٹی کی میٹنگ ہوتی ہے اور اس میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں دس سال ممبر پارلیمنٹ رہا، یو پی اے حکومت میں وزیر بھی رہا۔ پارٹی نے 35 سال کی عمر میں ریاست کا صدر بنا دیا۔ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ کانگریس پارٹی نے ہر کسی کو عزت دی ہے۔ اشوک گہلوت جی دو بار ریاست کے وزیر اعلیٰ رہے۔ وہ مرکز میں بھی وزیر رہے۔ اسی طرح جوشی جی بھی وزیر ریل رہے۔ پارٹی نے ہم سب کو بہت کچھ دیا ہے۔ میرےخیال سے سوال یہ نہیں ہے کہ پارٹی ہمیں کیا دے گی، سوال یہ ہے کہ ہم پارٹی کو کیا دیں گے؟ پارٹی نے ہمیں بہت دیا ہے... اب ہماری باری ہے کہ پارٹی کی جیت کے لیےخوب محنت کریں۔

آئندہ انتخابات سے متعلق آپ کی کیا پالیسی ہوگی اور کس طرح کے ایشوز اٹھائیں گے؟

ہماری پالیسیاں عوام کے مسائل اور پریشانیوں کو دور کرنے پر مبنی ہوں گیں۔ کسانوں کے مسائل، مہنگائی، بےروزگاری اور بدعنوانی کے خلاف ہم راہل جی کی قیادت میں پوری طاقت کے ساتھ انتخاب لڑیں گے۔

راہل گاندھی نے گجرات میں بی جے پی کے خلاف جارحانہ انتخابی تشہیر کی۔ ان کے انداز کو دیکھ کر لگا کہ مندروں میں جانا ان کی پالیسی کا حصہ تھا۔ کیا راجستھان میں راہل گاندھی (جیسا کہ ان کے ناقدین کہتے ہیں) ’مندر پالیٹکس‘ یا ’سافٹ ہندوتوا‘ کا استعمال کریں گے؟

یہ بہت مضحکہ خیز ہے کہ مندر راہل جی جاتے ہیں اور پیٹ میں درد بی جے پی کو ہوتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ بی جے پی کے پیٹ میں کیوں درد ہوتا ہے جب راہل جی مندر جاتے ہیں۔ کوئی بھی کہیں بھی جائے... مندر جائے، مسجد جائے، گرودوارا جائے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ ہر کسی کا آئینی حق ہے۔ لیکن بی جے پی کو تو آئین کو ہی بدلنا ہے۔ انھیں تکلیف اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ راہل جی کے مندر جانے سے ان کے چہرے سے ’کٹّرپسندی‘ کا نقاب اتر جاتا ہے۔ اتنے عظیم اور روادار مذہب کے نام پر بی جے پی نے جو کٹرپسندی کا نقاب چڑھا رکھا ہے وہ اتر جاتا ہے، اسی لیے انھیں ڈر لگتا ہے۔

آج کل ’وَن نیشن، وَن الیکشن‘ کا ایشو خوب گرم ہے۔ اگر مودی حکومت لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرانے کا اعلان کرتی ہے تو کیا کانگریس کو فائدہ ہوگا؟

انتخابات کا اعلان کرنا بے شک حکومت کے ہاتھ میں ہے لیکن ایک ساتھ پورے ملک میں اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات کرانا آئین کے خلاف ہے۔ یہ ہماچل پردیش اور گجرات میں اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ تو کرا نہیں سکے تو پورے ملک میں کیسے ایک ساتھ انتخابات کرا پائیں گے۔ ضمنی انتخاب بھی تو ایک ساتھ نہیں کرا پائے۔ راجستھان میں ابھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں لیکن یوپی میں ہونا ہے، مہاراشٹر میں ہونا ہے۔ یہ سب کیسے ہوگا؟ اصل بات یہ ہے کہ بی جے پی کسی بھی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے چاہے اس کے لیے آئین کو ہی کیوں نہ اکھاڑ پھینکنا پڑے۔ پھر بھی اگر ایک ساتھ انتخاب ہوتے ہیں تو مجھے پورا یقین ہے کہ ملک کی عوام کانگریس پارٹی کو ہی فتح سے ہمکنار کرے گی۔

آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ کانگریس ہی فتحیاب ہوگی؟

اس بات کو پارٹی کی فتح سے مت جوڑیے۔ دراصل یہ عوام کی فتح ہوگی۔ ملک کی عوام اب بی جے پی کی بدتر حکمرانی سے اور خوف سے آزادی چاہتی ہے۔ پورے ملک میں چاروں طرف خوف اور بدعنوانی کا ماحول ہے۔ میں اور میری پارٹی انتخاب لڑنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔ ہم انتخابات میں جائیں گے اور بی جے پی کو شکست فاش دیں گے۔

بی جے پی کو شکست دینے میں کیا آپ دوسروں کی بھی مدد لیں گے؟ راجستھان میں بی جے پی لیڈر گھنشیام تیواری اکثر مودی، امت شاہ اور وسندھرا راجے کے خلاف بولتے رہے ہیں اور ایک بار کانگریس سے ہاتھ ملانے کے سوال پر انھوں نے کہا تھا کہ انتخابات کے دوران کوئی فیصلہ کریں گے۔ کیا کانگریس گھنشیام تیواری جیسے لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملائے گی؟

گھنشیام تیواری جی صوبے کے معزز لیڈروں میں سے ایک ہیں۔ وہ بی جے پی کے رکن بھی ہیں۔ ان سے ہماری جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو دعا سلام ضرورہوتا ہے لیکن اس سلسلے میں کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ انتخابات میں یکساں سوچ رکھنے والے لوگوں کو ساتھ لینے میں کسی کو کوئی دقت نہیں ہوگی۔ جس کسی کو بھی راہل گاندھی کی قیادت پر اور کانگریس کی سوچ پر یقین ہے اس کا استقبال ہے۔ بس ایک بات یہ دھیان رکھنے کی ہے کہ راجستھان میں لڑائی کانگریس اور بی جے پی کے درمیان طے ہے اس لیے کسی تیسری پارٹی یا محاذ کی گنجائش نہیں ہے۔

بی جے پی الزام عائد کرتی ہے کہ کانگریس ’اقلیتوں کی سیاست‘ کرتی ہے اور گجرات انتخابات کے دوران ان کا کہنا تھا کہ کانگریس نے ’سافٹ ہندوتوا کی سیاست‘ کرتے ہوئے اقلیتوں کے مسائل کو زور و شور سے نہیں اٹھایا۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟

یہ سبھی بے بنیاد باتیں ہیں۔ بی جے پی اس طرح کی غلط فہمی پہلے بھی پھیلاتی رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی ذات اور مذہب کی سیاست نہیں کی۔ ہم سماج کو تقسیم کرنے کی سیاست نہیں کرتے۔ ہم نے کسانوں کے بحران سے لے کر موب لنچنگ کے ایشو پر سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک بی جے پی کو چیلنج دیا ہے۔ ہم آگے بھی ایسا ہی کرتے رہیں گے۔

سچن پائلٹ دہلی کے سیاسی گلیاروں میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ ایسا کیوں؟

میری جوابدہی عوام کے تئیں ہے۔ میں سڑک کی سیاست کرتا ہوں اس لیے اقتدار کے گلیاروں میں کم ہی نظر آتا ہوں۔ راجستھان کی عوام سے میرا جذباتی لگاؤ ہے۔ میں ان کے درمیان رہتا ہوں، ان کے ایشوز کو اٹھاتا ہوں، ان کے ساتھ کام کرتا ہوں تاکہ ان کو لگے کہ کوئی ان کے درد کو بھی آواز دے رہا ہے۔ راجستھان کی عوام کو محسوس ہونے لگا ہے کہ کانگریس پارٹی ہی ان کی آواز ہے۔ یہی میری حصولیابی ہے۔ اس آواز کے سامنے بی جے پی کا شوروغل اور جھوٹی تشہیر کی یقینی شکست ہوگی۔

آخری سوال، مودی حکومت کی اب تک کی مدت کار کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں اور نریندر مودی کو بطور وزیر اعظم آپ کیسا پاتے ہیں؟

دیکھیے، مودی جی ہمارے بھی وزیر اعظم ہیں۔ ملک کی عوام نے انھیں منتخب کیا ہے، اس لیے وہ معزز ہیں۔ لیکن وہ جتنا جھوٹ بولتے ہیں اور جتنی آسانی اور اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں وہ ناقابل تصور ہے۔ ان کی حکومت کے چار سال ہونے کو ہیں لیکن انھوں نے ابھی تک کوئی وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔ دو کروڑ روزگار پیدا کرنے کی بات ہو یا 15 لاکھ روپے ہر ہندوستانی کو دینے کا وعدہ یا پھر وِکاس کے بڑے بڑے خواب دکھانے کی بات، سبھی اس وقت تک محض جملے ہی ثابت ہوئے ہیں۔ راہل جی نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ ’سوٹ بوٹ کی حکومت‘ ہے۔ اس میں ایک لائن اور جوڑ لیجیے کہ یہ ’جملوں کی حکومت‘ ہے۔ ایک جملہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Feb 2018, 5:14 PM