انٹرویو— ملک میں پھیلی نفرت کو صرف محبت ہرا سکتی ہے: اے. ایم. تراز

’پدماوت‘ میں نغمہ نگاری کی ذمہ داری نبھانے والے تراز کا کہنا ہے کہ اس فلم میں کچھ بھی متنازعہ نہیں ہے۔ جو بھی ہنگامے ہو رہے ہیں اس کے پیچھے سیاست ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

بین الاقوامی سطح کے اردو شاعر، نغمہ نگار، اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار اے. ایم. تراز مظفر نگر میں میرا پور تھانہ علاقے کے ایک گمنام سے گاؤں سنبھل ہیڑا کے باشندہ ہیں۔ کچھ کر گزرنے کے جذبہ کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل وہ ممبئی گئے اور اپنی محنت و لگن کی وجہ سے آج وہ بالی ووڈ کے باصلاحیت رائٹرس میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ اب تک 34 فلموں میں نغمہ نگاری کر چکے ہیں جن میں سے کئی فلمیں سپر ہٹ ہوئی ہیں۔ حال ہی میں وہ اپنے گاؤں آئے اور ’قومی آواز‘ کے لیے آس محمد کیف سے خصوصی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اہم اقتباسات:

’پدماوتی‘ اب ’پدماوت‘ کے نام سے ریلیز ہو رہی ہے۔ اس فلم پر اس قدر تنازعہ کیوں ہوا؟

آپ فلم دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ اس میں ایسا کچھ بھی متنازعہ نہیں ہے جس پر ہنگامہ ہونا چاہیے۔ بھنسالی صاحب نے بہت خوبصورت فلم بنائی ہے۔ وہ ایک عظیم فلمساز ہیں۔ فلم کی مخالفت کے پیچھے سیاست کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

فلم کا گانا ’گھومر‘ بھی کافی تنازعہ کا شکار ہوا جس کو آپ نے ہی لکھا ہے۔ اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

سب سے پہلے تو بھنسالی صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انھوں نے مجھے اس لائق سمجھا۔ ویسے ’گھومر‘ کے علاوہ اس فلم کے سبھی گانے میں نے ہی لکھے ہیں۔


بھنسالی کے ساتھ آپ کی کافی قربت ہے۔ ’گزارش‘، ’باجی راؤ مستانی‘ اور اب ’پدماوت‘...

سنجے لیلا بھنسالی بالی ووڈ کے سب سے بہترین ہدایت کار ہیں۔ ان کی صلاحیت ناقابل فراموش ہے اور ان کے پاس صلاحیت پہچاننے کی قابلیت بھی کمال کی ہے۔ میں فلم ’سانوریا‘ میں کوئی گانا نہیں لکھ پایا، لیکن ’گزارش‘ اور ’باجی راؤ مستانی‘ میں وہ کمی پوری ہو گئی۔

’گزارش‘ میں آپ نے 2 گانے لکھے، ’باجی راؤ مستانی‘ میں 4 اور اب ’پدماوت‘ میں 9... کیسا لگ رہا ہے؟

ہاں، یہ اچھا لگ رہا ہے کہ بھنسالی جی کا میرے اوپر بھروسہ بڑھ گیا ہے۔ ’گزارش‘ کا گانا ’یہ تیرا ذکر ہے، جیسے عطر ہے... جب جب کرتا ہوں، مہکتا ہوں‘ لکھنے کے بعد ان کا میری طرف رجحان بڑھا ہے۔ اس کے بعد ’باجی راؤ مستانی‘ کا ہر طرف چھا جانے والا اور ایوارڈ یافتہ گانا ’تجھے یاد کر لیا ہے آیت کی طرح‘ کے بعد ان کا بھروسہ مزید پختہ ہوا ہے۔ ’پدماوت‘ کا حصہ بننا یقیناً میرے لیے فخر کی بات ہے۔


اب تک آپ 34 فلموں میں سینکڑوں گانے لکھ چکے ہیں۔ آپ نے کچھ فلموں کی کہانی بھی لکھی ہے۔ لیکن وہ کون سا نغمہ ہے جو آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟

’باجی راؤ مستانی‘ کا نغمہ ’آیت کی طر‘ میرا پسندیدہ نغمہ ہے۔ میں خود نہیں جانتا کہ یہ کیسے لکھا گیا۔ آپ دو لائن دیکھیے ’تجھے یاد کر لیا ہے آیت کی طرح، قائم تو ہو گئی ہے روایت کی طرح‘۔ یہ سب اللہ کا کرم ہے۔

آپ مشاعروں کا بھی سب سے مہنگا چہرہ ہیں...

مہنگا؟ نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ بس لوگوں کی محبت اور کچھ فلمی دنیا کا اثر ہے۔ یہ ضرور ہے کہ آج کل بیرون ممالک میں بھی مشاعرے پڑھ رہا ہوں اس لیے لوگ کہتے ہوں گے کہ مہنگا شاعر ہوں۔ ویسے میں تو ایک کسان کا بیٹا ہوں اور گاؤں کا آدمی ہوں۔ ابھی کچھ دن قبل جاوید اختر صاحب کے ساتھ امریکہ گیا تھا وہاں لوگوں کی محبت نے اپنائیت کا احساس دلا دیا۔ پیسہ صرف ضرورت کی چیز ہے، اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔


آج کل مشاعروں کی مقبولیت میں کمی آ گئی ہے، اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟

ہاں، آج کل لوگ تماشہ زیادہ کر رہے ہیں۔ مشاعروں کے معیار میں گراوٹ آئی ہے۔ اچھی شاعری کی جگہ بھیڑ کو پسند آنے والی غیر ذمہ دارانہ شاعری ہو رہی ہے۔ ہماری سماج کے تئیں ایک اخلاقی ذمہ داری ہے اور ہمیں اس کا احساس ہمیشہ ہونا چاہیے۔ شاعروں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ صرف واہ واہی کی کوشش میں فضا میں زہر نہ گھولیں، محبت کی بات کریں۔

آج ہر طرف نفرت کا سماں ہے، ہر جگہ کی فضا زہریلی نظر آ رہی ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟

بالکل، ماحول میں تبدیلی آئی ہے، فرقہ واریت تیزی سے بڑھ گئی ہے بلکہ بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے لیے صرف اکثریتی طبقہ کو قصوروار ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ اقلیتی کے نام نہاد رہنما بھی ایسے حالات کے لیے ذمہ دار ہیں۔ اکثریتوں کی آبادی چار گنا زیادہ ہے، اب اگر وہ 25 فیصد بھی فرقہ پرست ہوتے ہیں تو برابر ہو جاتے ہیں۔ مسلم لیڈروں کی فرقہ وارانہ بیانات نے ہندو طبقے کو فرقہ پرست ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ہندوستان کے سارے ہندو فرقہ پرست نہیں ہیں۔ جیسا کہ میں نے 34 فلمیں کی ہیں اور سبھی کے ہدایت کار اور فلمساز ہندو ہی ہیں اور سبھی اچھے لوگ ہیں۔ ویسے بھی بالی ووڈ میں ہندو-مسلم والا معاملہ نہیں ہے۔


اس نفرت کو ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

نفرت کو صرف محبت شکست دے سکتی ہے۔ سب سے پہلے تو مسلم لیڈروں کو بہت سوچ سمجھ کر بولنا ہوگا۔ انھیں ایسی کسی بھی بات سے پرہیز کرنا ہوگا جس سے پولرائزیشن ہو۔ بھگوا حکومت صرف اسی بدزبانی کی دین ہے۔ ہم لوگوں کو بے انتہا خلوص اور محبت کے ساتھ ہندو بھائیوں سے بات کرنی ہوگی، ان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ محبت پھیلائی جائے تو محبت ضرور پیدا ہوگی۔ آج کل کے حادثات نفرتوں کی دین ہیں اور حالات واقعی مشکل ہو چکے ہیں۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ’زندگی ناکامیوں کے نام ہو، اس سے پہلے کوئی اچھا کام ہو...‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔