’نیپال میں بادشاہت کی واپسی کی تحریک کو ہندوستان سے آکسیجن مل رہی ہے‘

نیپال کے رہنما ماتریکا پرساد یادو نے کہا کہ بادشاہت کی بحالی کی تحریک کو ہندوستان، خاص طور پر یوگی آدتیہ ناتھ، کی حمایت حاصل ہے لیکن نیپال میں بادشاہت کی واپسی ممکن نہیں

<div class="paragraphs"><p>نیپال کے سابق وزیر&nbsp;ماتریکا پرساد یادو</p></div>

نیپال کے سابق وزیرماتریکا پرساد یادو

user

وشو دیپک

نیپال کے سابق وزیر اور نیپال کی کمیونسٹ پارٹی (ماؤ نواز مرکز) کے رہنما ماتریکا پرساد یادو حال ہی میں ہندوستان آئے تھے۔ نیپال کے سابق وزیر اعظم پشپ کمل دہل 'پرچنڈ' کے قریبی ساتھی، یادو پرچنڈ کی حکومت میں اراضی اصلاح جیسی اہم وزارت کے انچارج رہے۔ دل سے بغاوت کرنے والے اس کارکن نے اپنی راہ الگ کی لیکن آٹھ سال بعد 2016 میں پھر پرچنڈ کے ساتھ واپس آئے۔ یادو 2018 میں کے پی اولی کی قیادت والی حکومت میں صنعت کے وزیر تھے۔ نیپال کی اہم اپوزیشن پارٹی کے نائب جنرل سکریٹری کے طور پر وہ مدھیش صوبہ کے انچارج ہیں۔ ’وشودیپک‘ نے ان سے نیپال کی موجودہ صورتحال اور ہند-نیپال تعلقات پر طویل گفتگو کی۔ پیش ہیں اہم اقتباس:

سوال: نیپال میں بادشاہت کی بحالی کی تحریک کتنی سنجیدہ ہے؟

جواب: نیپال میں یقینی طور پر ہم ’راجہ کو واپس لاؤ-دیش بچاؤ‘ کے نعرے سن رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ایم آر ایم (بادشاہت کی بحالی کی تحریک) کہتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ سابقہ بادشاہ گیانیندر جب پوکھرا سے کھٹمنڈو آئے تھے تو ’راجہ وادیوں' یا بادشاہت کے حامیوں نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا۔ پھر بادشاہت کی حمایت میں انہوں نے 28 مارچ کو ایک مظاہرہ بھی کیا جو پرتشدد ہو گیا تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسے عموماً ہندوستان سے ہی آکسیجن مل رہی ہے۔

یقینی طور پر نیپالی عوام اگر بادشاہت کی واپسی چاہتے ہیں، تو اس کا کوئی نہ کوئی سبب ہوگا؟ آخرکار یہ عوام کی ہی بغاوت تھی جس نے بادشاہت کا خاتمہ کیا اور نیپال کو ایک سیکولر اور جمہوری ملک کے طور پر قائم کرنے میں کردار ادا کیا۔

میں یہ تسلیم کرنے والا پہلا شخص ہوں گا کہ ہم کمیونسٹ، عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اترے اور اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے۔ عدم اطمینان موجودہ اولی حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے بھی ہے۔ اس سے بے شک بادشاہت تحریک کو فروغ ملا ہے۔ اولی وہ رہنما ہیں جو کہا کرتے تھے کہ نیپال میں جمہوریت کی امید کرنا بیل گاڑی سے امریکہ جانے کی خواہش رکھنے جیسا ہے۔ یقینی طور پر یہ جمہوریت کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو وضاحت دیتا ہے۔ اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ حکومت بادشاہت کے حامیوں کو کنٹرول یا پابند کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی۔

تو پھر جمہوریت پسندوں نے بادشاہت کے حامیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کیا؟

جس دن بادشاہت کے حامیوں نے کھٹمنڈو میں اپنا جلسہ کیا، اسی دن ہم نے بھی ایک عظیم الشان جلسہ کا انعقاد کیا، جس میں تقریباً ایک لاکھ لوگ شریک ہوئے۔ جس بات نے سب کی توجہ مبذول کی، وہ تھی بادشاہت کے حامیوں کی طرف سے کیا گیا تشدد، جنہیں ہوائی اڈے کے قریب تینکونے میں مظاہرہ کرنے کی اجازت دی گئی، جبکہ ہمیں بھریکوٹی منڈپ میں جگہ دی گئی۔ تاجر درگا پرساد جنہیں گیانیندر 'کمانڈر' کہتے ہیں، کی قیادت میں بادشاہت کے حامیوں نے رکاوٹیں توڑ دیں اور میڈیا مراکز پر حملہ کیا۔ آگ لگانے، توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی خبریں سرخیوں میں آئیں، جبکہ ہمارا پرامن احتجاج بڑی حد تک نظرانداز رہا۔

بادشاہت کے حامیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دو متوازی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ایک ہے ترائی-مدھیش اولاہی عوامی بیداری مہم (اولاہی ترائی کا سب سے طویل ہائی وے ہے)؛ اور دوسری ہے بادشاہت کے حامیوں کے خلاف 'عوامی بیداری مہم'۔ بادشاہت کے خلاف ایک سوشلسٹ محاذ بھی سامنے آیا ہے۔ وزیر اعظم اولی، ہمارے رہنما پشپ کمل دہل 'پرچنڈ' اور نیپالی کانگریس کے رہنما شیر بہادر دیوبا نے ملاقات کی ہے۔ ہم سب متحد ہیں۔


آپ نے کہا کہ بادشاہت کے حامیوں کو ہندوستان سے آکسیجن مل رہی ہے۔ انہیں یہاں سے کون آکسیجن دے رہا ہے؟

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ۔ نیپال میں ہر کوئی جانتا ہے کہ گورکھ ناتھ دھام اور یوگی آدتیہ ناتھ کا نیپال کے شاہی خاندانوں سے ایک قدیم اور خوشگوار تعلق رہا ہے۔ نیپال میں ہم مذاق کرتے ہیں کہ اگر یوگی جی نیپال کے بادشاہ سے اتنے ہی متاثر ہیں تو انہیں بلا کر ہندوستان کا بادشاہ بنا دینا چاہیے۔ عام رائے یہ ہے کہ آدتیہ ناتھ ایم آر ایم (بادشاہت کی بحالی کی تحریک) چلا رہے ہیں۔

وہ ایسا کیوں کریں گے؟ انہیں کیا فائدہ ہوگا؟

وہ مانتے ہیں کہ نیپال کو ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ وہ ہمارے سیکولر آئین اور حکومت کے مخالف ہیں۔ نیپالیوں کا ماننا ہے کہ بادشاہت کے حامیوں کو فروغ دینے کے لیے یوگی اور آر ایس ایس اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ دیہاتی علاقوں سے ملنے والے بادشاہت کے حامیوں کو بھی سنگھ سے پیسہ ملنے کا شبہ ہے۔


کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بی جے پی نیپال کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے اور حکومت ہند بادشاہت کی بحالی کے منصوبے میں شامل ہے؟

بالکل نہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ حکومت ہند نیپال میں بادشاہت کی بحالی کے حق میں ہے۔ یہ یوگی آدتیہ ناتھ کا ذاتی منصوبہ ہے۔ وہ بادشاہت کے حامیوں اور ہندوتوا کے حق میں لوگوں کی حمایت کرتے ہیں۔

کیا اس کا کوئی ثبوت ہے؟ کوئی ریکارڈنگ، ویڈیو، پیسوں کا لین دین یا ٹرانسفر کا حساب؟

ثبوتوں سے زیادہ اہمیت اتفاق سے ہوتی ہے۔ حالات کا معروضی تجزیہ کرنے پر یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں کو ہندوستان میں موجود عناصر کی حمایت حاصل ہے۔ سنگھ کے نظریاتی فروغ کے ساتھ یہ سب بڑی حد تک ذاتی سطح پر ہے۔ جنرل اشوک مہتا جیسے لوگوں نے بھی اس پر بات کی ہے۔


کیا بادشاہت کے حامی اتنے طاقتور ہیں کہ تختہ پلٹ کر حکومت گرا سکتے ہیں؟ کیا وہ آئین کو تبدیل کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟

دیکھیں، سچ تو یہ ہے کہ نیپال میں بادشاہت کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ عوام کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ بادشاہت کے تحت، مظاہرین کو مار دیا جاتا یا جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اب آئین اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ احتجاج کرنے کی آزادی بھی یقینی بناتا ہے۔ بادشاہت کے حامی اپنے مسئلے کو کھٹمنڈو سے آگے بڑھانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ ان کے پاس ایسا کرنے کی طاقت نہیں ہے۔

لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ایک وقت تھا جب نیپال کے ماؤ نواز ہندوستان میں آر ایس ایس والوں اور ان کے ارد گرد کے بابا رام دیو جیسے لوگوں کے ساتھ گلے مل رہے تھے؟

ہاں، یہ ایک غلطی تھی۔ ہم انقلابیوں کی طرح نہیں بلکہ حکمرانوں کی طرح برتاؤ کرنے لگے تھے۔ ہم نے پیرس کمیون سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم پرانی طاقت کے نظام کا حصہ بن گئے۔


ہندوستان ہمیشہ اس بات کو لے کر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے کہ نیپال میں چین کے بڑھتے اثرات کے لیے ماؤ نواز ذمہ دار ہیں، کیونکہ وہ نظریاتی طور پر چین کے قریب ہیں؟ کیا یہ تشویش بے بنیاد ہے؟

ہم ہندوستان اور چین سے یکساں فاصلہ رکھنے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہندوستان کے ساتھ ہمارا خاص رشتہ بھی ہے۔ یہ روٹی-بیٹی کا رشتہ ہے، جو چین کے ساتھ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ نیپال کے شاہی خاندان کے اراکین کا بھی ہندوستان کے ساتھ خون کا رشتہ ہے۔ یہاں میری آمدورفت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ میں چین میں اس طرح آزادانہ طور پر نہیں گھوم سکتا۔ نیپال میں چینی اثرات کو ہندوستانی میڈیا میں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

جمہوریت پسند تحریک اور طویل خانہ جنگی کے باوجود نیپال میں سیاسی استحکام کیوں نہیں رہا؟ 2008 میں جمہوریت کی بنیاد کے بعد سے اب تک 13 برسوں میں 13 حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں۔ نیپال میں جمہوریت کتنی کمزور ہے؟

صرف نیپال میں نہیں بلکہ ہندوستان اور امریکہ میں بھی، جمہوریت ہر جگہ خطرے میں ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ جمہوری ڈھانچے کے اندر کام کرنے والی سیاسی جماعتوں میں ’اندرونی جمہوریت' کی کمی ہے۔


مجھے بتایا گیا کہ نیپال کے لوگوں کے لیے رام مندر کے درشن آسان بنانے کے لیے جلد ہی جنک پور اور ایودھیا کے درمیان براہ راست بس سروس شروع کی جائے گی۔ بہتر روابط کے لیے ریل ٹریک کی بھی بات ہوئی ہے۔

ہاں، یہ سچ ہے۔ 2018 میں وزیر اعظم اولی اور وزیر اعظم مودی کے درمیان ایک ملاقات میں یہ طے کیا گیا تھا۔ میں نیپالی وفد کا حصہ تھا اور مجھے یاد ہے کہ میں نے وزیر اعظم اولی کو ایک پرچی دی تھی، جس میں میں نے ان سے رامائن سرکٹ کی تجویز دینے کی درخواست کی تھی۔

آپ کمیونسٹ ہیں اور مذہبی سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں؟

ہم کمیونسٹ چاہے مذہب میں یقین نہ رکھتے ہوں لیکن ہم ان لوگوں کی مخالف نہیں کرتے جن کی رام میں عقیدت ہے۔ ہمیں کرنی بھی کیوں چاہیے؟ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کو سمجھائیں کہ اندھی عقیدت بری بات ہے، سیاست یا تجارت کو فروغ دینے کے لیے مذہب کا استعمال کرنا برا ہے۔

ایک مثال دیتا ہوں۔ ہم جب ریلیاں کرتے ہیں تو ہمیں ان میں شریک ہونے والے لوگوں کے لیے بسوں اور کھانے پینے کے تمام تر انتظامات کرتے پڑتے ہیں لیکن لاکھوں عام لوگ ایسے ہیں جو اپنی ذاتی عقیدت کے سبب نیپال سے ایودھیا کی یاترا کرتے ہیں۔ لوگوں کی عقیدت کو کچلا نہیں جا سکتا۔


ہندوستان کو عام طور پر پڑوسی میں بڑے بھائی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اب جب نیپال ایک آشوب سے گزر رہا ہے، نیپال کے لوگ ہندوستان سے کیا توقع رکھتے ہیں؟

ہم توقع کرتے ہیں کہ ہندوستان اس جمہوریت کو حمایت دے گا جو ہماری طویل جدوجہد اور متعدد قربانیوں کا حاصل ہے۔

کیا نیپال میں ہندوؤں کی بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کی ان رپورٹوں میں کوئی سچائی ہے، جن کا حوالہ ہندوتوا وادی دیتے ہیں؟

پہلے نیپال میں صرف ہندو تھے۔ اب نیپال میں بدھ مت دوسرا سب سے بڑا گروہ ہیں اور پھر ہندوستان سے آئے مسلمان بھی ہیں جو نیپال میں بسے ہیں۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں لوگوں نے عیسائیت بھی اپنائی ہے۔


نیپال میں 2027 میں انتخابات ہونے ہیں۔ اگر اقتدار سی پی این (ماؤ نواز مرکز) کے ہاتھ میں واپس آتا ہے، تو سابق بادشاہ گیانیندر اور بادشاہت کے حامیوں سے آپ کیسے نمٹیں گے؟

اگر ہم اقتدار میں آئے، تو ہم سابق بادشاہ کو ان کی آئین مخالف سرگرمیوں کے لیے گرفتار کریں گے۔ تاریخ میں، جہاں بھی بادشاہت کا خاتمہ ہوا، بادشاہوں کو مار ڈالا گیا، فرار ہونے پر مجبور کیا گیا یا جیل میں ڈال دیا گیا۔ نیپال میں، ہم نے سابق بادشاہ کے کھانے پینے، بھتے اور سکیورٹی کے لیے ادائیگی کرنے کا انتظام کیا تھا۔ ہم اس پر روک لگا دیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔