نریندر مودی نفرت کی سیاست کرتے ہیں: راہل

کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی امریکہ دورہ کے دوران نکولس برگ گروین کو انٹرویو دیتے ہوئے
کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی امریکہ دورہ کے دوران نکولس برگ گروین کو انٹرویو دیتے ہوئے
user

قومی آوازبیورو

اپنے حالیہ امریکی دورہ کے دوران کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے ’برگ گروین انسٹی ٹیوٹ‘ کے سربراہ اور ’دی ورلڈ پوسٹ‘ کے پبلشر نکولس برگ گروین سے گفتگو کی۔ انھوں نے داخلی نقل مکانی، ہندوتوادی سیاست اور ایشیا میں بڑی طاقت کی شکل میں چین کے عروج وغیرہ کئی ہندوستانی چیلنجز پرتبادلہ خیال کیا۔ پیش ہیں اس کے اقتباسات:

ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ امریکہ سمیت پوری دنیا کے تمام جمہوریت پسند اس وقت کئی چیلنجز، خصوصاً تقسیم کاری اور پرکشش وعدہ کرنے والی طاقتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہندوستان اس معاملے کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟

امریکہ اور ہندوستان کے نظام کے درمیان اہم فرق یہ ہے کہ ہندوستان ثقافت اور زبان کے معاملے میں پوری طرح سے مختلف 29 ریاستوں کا مجموعہ ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہندوستان بہت حد تک یورپ کی طرح ہے۔ اگر آپ جنوب میں تمل ناڈو اور شمال مشرق میں میزورم کو دیکھیں گے تو ان کے درمیان کے فرق کو کسی بھی دو یوروپی ممالک کے درمیان کے فرق سے کہیں زیادہ پائیں گے۔

ہندوستان کے بارے میں مزید ایک بات سمجھنی ضروری ہے۔ چین کی طرح ہندوستان میں بھی دیہی علاقوں سے بڑے شہروں میں بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہے۔ چین میں لوگوں کی آمد و رفت قابو میں ہے۔ ہندوستان میں الگ الگ تہذیب، ثقافت، زبان اور مذاہب کے لوگ کام کی تلاش میں کسی بھی شہر میں ہجرت کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ اگر انھیں ایک شہر میں کام نہیں متلا ہے تو وہ بہ آسانی دوسرے شہر کی جانب رخ کرتے ہیں۔

اس لیے اگر آپ ترقی اور سالمیت کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو آپ اس کے بارے میں پرانے طریقے سے نہیں سوچ سکتے۔ اب چیلنج یہ ہے کہ کس طرح شہروں میں رہنے والے لوگوں کے لیے روزگار پیدا کیا جائے اور کس طرح دیہی علاقوں میں زراعت کو فروغ دیا جائے۔ ہم ترقی کی ایک منجمد سوچ کو پیچھے چھوڑ کر رفتار والی سوچ کی جانب بڑھ چکے ہیں۔ جب کام کی تلاش میں گاؤں کے لوگ شہر آتے ہیں اور پھر واپس گاؤں جاتے ہیں تو ہمیں ان لوگوں کا تحفظ اور تعاون کرنا ہے۔ ہماری حکومت آدھار، روزگار گارنٹی منصوبہ اور حق اطلاعات قانون اسی نئی صورت حال کو دھیان میں رکھ کر لائی تھی۔

جدیدیت اور ہجرت کے اثرات کی فکر ہندوستان کی موجودہ سیاست کو متاثر کرتی ہیں۔ رائٹ وِنگ کے ذریعہ روزگار سے متعلق معاشی عدم تحفظ اور شناخت سے متعلق فکر کا جارحانہ انداز میں استحصال ہو رہا ہے۔ ریاستوں میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے وہ جھوٹی خبریں پھیلانے کے علاوہ مذہبی تنازعات اور پولرائزیشن کو فروغ دیتے ہیں۔ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نفرت کا استعمال کر کے فرقوں کو تقسیم کرتے ہیں اور انھیں ایک دوسرے کے خلاف متصادم کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا سمیت مواصلات تک رسائی کے کئی حیرت انگیز پہلو ہیں۔ لیکن ایڈیٹر جب خود پر کنٹرول نہیں کر پاتے ہیں اور لوگ جب کسی بات سے متعلق جھوٹ یا نفرت پر مبنی جانکاری اپنے لوگوں میں پھیلاتے ہیں تو جیسا آپ کہہ رہے ہیں، یہ بہت ہی خطرناک ہو سکتا ہے۔ جو جتنا اونچا بولتا ہے یا جس کا پیغام سب سے زیادہ پھیلتا ہے وہ فتحیاب ہو جاتا ہے۔ یہ جمہوریت کے لئے مشکلیں پیدا کرتا ہے۔ ہندوستان میں اس معاملے پر کیسا ماحول ہے؟

ہم ہندوستان میں وہی اثر دیکھ رہے ہیں جو آپ کو امریکہ میں نظر آ رہا ہے۔ اس ماحول میں شہری ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ براہ راست بات کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایک طرح سے یہ غیر ثالثی اطلاعات کی جمہورکاری ہے۔ اب اس میں کافی رفتار آ گئی ہے۔ پہلے اخباروں اور صحافیوں کے پاس ہوم ورک کرنے کا وقت ہوتا تھا اب سوشل میڈیا پر ہر پانچ منٹ میں ایک تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ جمہوریت کے لیے یہ ایک اصل چیلنج ہے۔ ہندوستان میں ہم برسراقتدار بی جے پی اور اس کی آقا تنظیم آر ایس ایس کے ذریعہ اس پلیٹ فارم کا براہ راست چالاکی سے استعمال کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ نفرت کی سیاست بی جے پی کا اہم ہتھیار ہے۔ وہ ہمارے لاکھوں لوگوں کو الگ تھلگ کر کے ایک بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ برسراقتدار پارٹی کے ذریعہ قبائلیوں، دلتوں اور مسلمانوں کو سیدھے کہا جا رہا ہے کہ وہ ہندوستانی پالیسی کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ صحافیوں کا گولی مار کر قتل کیا جا رہا ہے۔


اس طرح کے ماحول میں ہندوستان جیسا کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی جمہوری ملک کس طرح آگے بڑھتا ہے؟

ہندوستان کا اہم مسئلہ اقتدار کا بہت زیادہ پولرائز ہونا ہے۔ آج ہندوسان میں تقریباً سبھی اہم فیصلے وزیر اعظم کی سطح پر لیے جاتے ہیں اور ریاستی سطح پر یہ وزرائے اعلیٰ کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس درمیان موجودہ حالت یہ ہے کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ کو بغیر قوت والے ایک ’مباحثہ منڈلی‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہاں پارلیمنٹ کے رکن صرف ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اور حقیقت میں ایگزیکٹیو و بیوروکریٹس ملک کو چلا رہے ہیں۔ زیادہ جمہوریت اور مرکزیت کے ذریعہ موجودہ صورت حال کو بدلنا اور مسائل کا حل نکالنا واحد راستہ ہے۔

چین لاکھوں لوگوں کو غریبی سے باہر نکالنے اور بلیٹ ٹرینوں سمیت اپنے بنیادی ڈھانچے کی جدیدکاری کرنے میں بہت کامیاب رہا ہے۔ پھر بھی یہ ایک بہت سنٹرلائزڈ ملک ہے جس میں کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے پاس اقتدار رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مقامی سطح پر ٹھہر جانے والی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے اعلیٰ قیادت میں زیادہ طاقت ہونا ہندوستان کے لیے ایک بری سوچ نہ ہو؟

دراصل میرا ماننا یہ ہے کہ آج چین کے مقابلے میں ہندوستان زیادہ سنٹرلائز ڈہے۔ کمیونسٹ پارٹی کچھ پہلوؤں کو سنٹرلائز ڈکرتی ہے، لیکن اگر آپ چین کے شہروں کو دیکھیں گے تو پائیں گے کہ وہاں مقامی حکومتوں کے پاس بہت زیادہ طاقت ہے۔ اگر کوئی آپ کی بات مانتے ہوئے ہندوستان کو مزید سنٹرلائز کرے، جو کیا بھی جا رہا ہے، تو یہ بہت زیادہ خطرناک ہوگا۔

اقتدار کا سنٹرلائزیشن لوگوں کے بائیکاٹ کی طرف لے جاتا ہے اور اس میں کئی لوگوں کی آواز نہیں سنی جاتی۔ ہندوستان جیسے ہمہ گیر اور ترقی پذیر ملک میں معاشی ترقی کو لوگوں کا بائیکاٹ کر کے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ ترقی کے لیے سبھی کی شمولیت انتہائی اہم ہے۔

ڈی سنٹرلائزیشن اور سیاسی سطح پر عوام اور سبھی فرقوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی ہندوستان میں کامیاب ہوئی ہے۔ میں آپ کو ایک دلچسپ مثال دیتا ہوں۔ 1980 کی دہائی میں میزورم میں ایک بڑا انقلاب چل رہا تھا۔ حکومت انقلابیوں کے پاس گئی اور اس نے کہا ’’آپ ریاست کو چلانے میں کیوں شامل نہیں ہوتے ہیں؟ کیا آپ تیار ہیں؟ کیا آپ اہل ہیں؟ اگر ہاں، تو اس کے لیے دو شرائط ہیں– پہلی شرط یہ کہ اپنے اسلحے پھینک دیں، دوسری یہ کہ ہندوستانی آئین پر عمل کریں۔‘‘ انھوں نے اسے قبول کر لیا۔ ریاستی حکومت نے استعفیٰ دے دیا اور انقلابیوں کے ذریعہ بنائی گئی ایک پارٹی برسراقتدار ہوئی۔ انقلابی پارٹی کا لیڈر ریاست کا وزیر اعلیٰ بنا۔ ان لوگوں (نئی پارٹی) نے آئندہ کئی سالوں تک میزورم میں حکومت کی اور اس وقت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس ریاست میں اب امن و استحکام ہے۔

اس طرح ہندوستان نے انقلابیوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا، انھیں ختم اور تباہ کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ اقتدار کی طاقت کو آگے بڑھانے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بے شک میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تنازعات کو حل کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ اقتدار کا ڈی سنٹرلائزیشن اور لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا طریقہ ہندوستان میں اثرانداز ہوتا ہے اور یہ بہتر طریقہ ہے۔

حالیہ دہائیوں میں ہندوستان میں جمہوریت خود کو بدلنے میں کامیاب رہا ہے اور یہ بڑے پیمانے پر تشدد، آفات اور بدانتظامی کے بغیر ہوا ہے جو ہم نے گریٹ لیپ فارورڈ اور ثقافتی انقلاب کے دوران چین میں دیکھا تھا۔ آپ نے جس طرح کی فراخ دلی کا تذکرہ کیا ہے، کیا وہ ہندوستان میں موجودہ کم روادار اور سخت حکومت کی سوچ رکھنے والی حکومت میں باقی ہے؟

کچھ سال پہلے جب میں سنگاپور کے سرکاری سفر پر تھا تو کسی نے مجھ سے پوچھا ’’چین سالانہ 11 فیصد کی شرح سے اور ہندوستان 9 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے۔ کیا ہندوستان مزید بہتر نہیں کر سکے گا اگر وہ ترقی کے چینی طریقے کو اختیار کر لے؟‘‘ چین آج جہاں ہے اسے حاصل کرنے کے لیے اس نے ایک بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ چین کی پالیسیوں کے سبب ان سالوں کے دوران وہاں 3 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے ملک میں لاکھوں لوگوں کی قربانی دیے بغیر تقریباً اتنی ہی ترقی ہوئی ہے جتنی چین میں ہوئی ہے۔ میں تین کروڑ لوگوں کی جان کے لیے جی ڈی پی کی ترقی میں ایک یا دو فیصد چھوڑنے کے لیے بخوشی تیار ہوں۔

ہندوستان میں جاری سخت گیر حکومت سے متعلق دو بنیادی ایشوز ہیں جو آج ہندوستانی سیاست کے اس نئے موڑ میں انتہائی اہم ہیں۔ ہندوستان کے لیے اصل چیلنج اپنے لاکھوں نوجوانوں کو ملازمت دینا ہے۔ روزانہ تقریباً 30 ہزار ہندوستانی لوگ ملازمت کے لیے جاب مارکیٹ کا حصہ بنتے ہیں، لیکن ان میں سے محض 500 لوگوں کو ہی کام مل پاتا ہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نریندر مودی لوگوں سے ملازمت کا وعدہ کر کے اقتدار میں آئے تھے اور اب تک کا ان کا ریکارڈ منفی ہی رہا ہے۔ ان کی حکومت نوجوانوں میں غصہ پیدا کر رہی ہے اور اس غصے کا رخ اقلیتوں کی طرف موڑا جا رہا ہے۔ زیادہ تر رائٹ وِنگ کے لیڈروں کا یہی کام ہے۔ پوری دنیا میں رائٹ وِنگ کے لوگ جو کچھ کر رہے ہیں یہ اس سے کسی بھی معنی میں الگ نہیں ہے۔

کنٹرول آبادی، سستی مزدوری اور درآمد کے اپنے نظام سے چین نے بنیادی طور پر دنیا بھر میں ’بلو کالر جاب مارکیٹ‘ کو حاشیے پر دھکیل دیا ہے۔ ہندوستان کے اصل چیلنج یہ ہے کہ کس طرح جمہوری ماحول کو بنائے رکھتے ہوئے روزگار کے شعبہ میں چین کے ساتھ مقابلہ کرے۔

دوسرا ایشو یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور مواصلاتی تکنیک کی آمد کی وجہ سے اب اداروں کا اپنے شعبہ پر گرفت باقی نہیں رہی ہے۔  ادارہ کی تعریف کیا ہے؟ جانکاری پر اس کا مکمل اختیار۔ لیکن اب یہ تعریف بدل گئی ہے۔ سبھی معاملوں میں، چاہے وہ پیشہ ور ہوں یا روایتی میڈیا  ہو یا عدالتی نظام یا پھر پولس، اب کسی کا بھی اپنی ڈپارٹمنٹ کی جانکاری پر مکمل اختیار نہیں رہ گیا ہے۔ جمہوریت تنظیمی تصادم میں پھنس گیا ہے۔

تنظیموں یا اداروں میں داخلی جنگ جاری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا یہ گٹھ جوڑ جو ہندوستان، امریکہ، یورپ میں ہو رہا ہے، یہ سبھی جمہوری سماج کے لیے ایک حقیقی بحران ہے۔ ایسے ہی حالات نے مودی اور فلپائن کے صدر راڈریگو دویرتو جیسے لوگوں کے لیے جگہ بنائی ہے جو نفرت پھیلاتے ہیں اور اداروں کی بے عزتی کرتے ہیں۔

گزشتہ نومبر میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ ہماری کرنسی کے 86 فیصد حصے کے ڈیمونیٹائزیشن کا یکطرفہ فیصلہ اس طرح کی قیادت کی ایک بڑی مثال ہے۔ ڈیمونیٹائزیشن ہماری معیشت کے لیے ایک زبردست جھٹکا تھا اور اس نے جی ڈی پی کی ترقیاتی شرح 2 فیصد سے زیادہ گھٹا دیا۔ اس نے ہماری غیر منظم معیشت کو ایک تیز جھٹکا دیا اور 10 لاکھ سے زیادہ ملازمت ختم ہو گئیں۔ وزیر اعظم نے ہمارے معاشی اور مالی اداروں کو نظر انداز کیا اور نجی طور پر یہ فیصلہ لیا۔ سنٹرل بینک کے سابق گورنر کا عوامی پلیٹ فارم پر یہ کہنا کہ انھوں نے حکومت کو ڈیمونیٹائزیشن کا فیصلہ نہیں لینے کی صلاح دی تھی، بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہاں تک کہ حکومت کے معاشی مشیر سے بھی مشورہ نہیں لیا گیا۔ اس نے ہندوستان کو بہت بری طرح سے نقصان پہنچایا ہے۔

چین کی بات کریں تو آپ اس کی نئی ’سلک روڈ‘ کی پیش قدمی کو کس طرح دیکھتے ہیں جو یوریشیا سے یورپ اور افریقہ تک بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کر رہی ہیں؟

ان کے نظریے سے یہ ایک بہت طاقتور قدم ہے۔ یہ دنیا کو نئی شکل دینے کی ایک کوشش ہے۔ حالانکہ مجھے اس سلسلے میں کوئی واضح رد عمل دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے اور میں ان میں سے نہیں ہوں جو اسے بڑھانے کی ان کی صلاحیت کو کمتر انداز میں دیکھے۔

ذات پر مبنی نظام ہندوستانی سماج کی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ شروع سے ہی کانگریس پارٹی کا مقصد اس نظام کو ختم کرنے کا رہا ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ اب کہہ رہے ہیں کہ حکومت میں اپنی اہلیت کے سبب مودی حقیقی معنوں میں ایسا کر رہے ہیں۔ اس پر آپ کا کیا نظریہ ہے؟

نہیں یہ حقیقت نہیں ہے۔ بی جے پی اور کانگریس پارٹی کے درمیان کی اہم جنگ ذات کو لے کر ہے۔ کانگریس پارٹی نے ہندوستان کو ایک آدمی، ایک ووٹ کا نظریہ دیا۔ ذاتیاتی روایت کے لیے یہ نظریہ مناسب نہیں ہے۔ ذاتیاتی نظام کو کمزور کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ووٹ کی طاقت کو مضبوط کیا جائے۔ آپ اداروں کو ختم کر کے ووٹ کی طاقت کو مضبوط نہیں کرتے بلکہ جمہوری عمل کو طاقتور بنا کر اسے مضبوط کرتے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ واقعی مودی ہندوستان کی ذاتیاتی بناوٹ کو مضبوط اور اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ یہی ان کا پورا خاکہ ہے۔ مودی نے اقتدار میں آنے کے لیے جمہوریت کا استعمال کرنے کے مسلم برادرہڈ (مصر میں) کے ماڈل کو اختیار کیا ہے۔ انھوں نے ہمارے اداروں کو ویسے لوگوں سے بھر دیا ہے جو ایک خاص تقسیم کے نظریہ کو فروغ دیتے ہیں اور اب ایک ایسے ہندوستان کے نظریہ کو آگے بڑھا رہے ہیں جس میں ہندوستان کے دلتوں، قبائلیوں اور اقلیتوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ مودی ایک مصلح ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Sep 2017, 3:38 PM