ہر دروازے پر دستک، یہی ہے کامیابی کی کنجی... سفینہ حسین
ضروری ہے کہ لڑکیوں کو وہ تعاون ملے جس کی انھیں ضرورت ہے۔ کئی بار لڑکی میں امید اور حوصلہ تو ہوتا ہے، لیکن اہل خانہ اور سماج کا تعاون نہیں مل پاتا۔

ہندوستان کے ڈیولپمنٹ سیکٹر میں سفینہ حسین ایک انقلابی طاقت کے طور پر ابھری ہیں۔ ’ایجوکیٹ گرلز‘ کی بانی سفینہ اور ان کی ٹیم ایسی بچیوں کو کلاسز تک واپس لانے کی مہم میں جانفشانی کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، جن کا اسکول جانا چھوٹ گیا۔ اس راستے میں انہیں اکثر کئی طرح کی سماجی رکاوٹیں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ’ایجوکیٹ گرلز‘ کو اس سال ’ریمن میگسیسے ایوارڈ‘ بھی ملا، جس کے بعد یہ عوامی خدمت کے لیے ایشیا کا اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کرنے والی پہلی ہندوستانی غیر منافع بخش تنظیم بن گئی۔ پختہ عزم، گہری حکمتِ عملی کی بصیرت اور مؤثر موجودگی کے ساتھ سفینہ نے لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق چلنے والے مباحثے میں نئے پہلو جوڑے ہیں۔ ان سے ونشیکا گپتا نے خصوصی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اہم اقتباسات:
2007 سے اب تک کا یہ سفر کافی طویل رہا ہے۔ راستے میں کس طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور آپ نے کیا کیا تبدیلیاں دیکھیں؟
بہت کچھ بدل گیا ہے۔ جب ہم راجستھان کے پالی میں شروعات کر رہے تھے اور والدین سے بات کرتے تھے، تو وہ کہتے تھے ’’ہمیں اپنے بچے کو اسکول بھیج کر خوشی ہوتی ہے، لیکن اسکول ہیں کہاں؟‘‘ اسکول بہت دور تھے۔ پہنچنا اپنے آپ میں ایک چیلنج تھا۔ ہم نے برج کورس اور کیمپ چلائے۔ ’تعلیم کا حق قانون‘ کافی مددگار ثابت ہوا۔ اس سے ہر گاؤں کے پاس ایک اسکول تھا اور ہم ضلع انتظامیہ سے نئے اسکول کھولنے کے لیے درخواست بھی کر سکتے تھے۔ ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ مہم سے بھی مدد ملی۔ پہلے تو لوگوں کو یہ سمجھانے میں ہی کافی توانائی خرچ ہوئی کہ لڑکیوں کی تعلیم کیوں ضروری ہے۔ آہستہ آہستہ ہر جگہ قومی نعرے کے ساتھ، یہ گفتگو آسان ہوتی گئی۔
تیسری بڑی تبدیلی رہائشی اسکول یعنی ’کستوربا گاندھی بالیکا ودیالیہ‘ تھے، جہاں سب کچھ مفت ہے۔ مہاجر والدین اپنی بچیوں کو تنہا چھوڑ کر کئی فکروں میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے میں یہ واقعی مددگار ثابت ہوئے۔ اس لیے بنیادی ڈھانچہ، پڑھائی کے لیے راضی کرنے کی وکالت اور مہم، سب نے مل کر زمینی حقیقت بدلنے میں کامیابی پائی۔
چونکہ آپ ریاستی حکومتوں کے ساتھ شراکت میں کام کرتی ہیں، کیا کبھی مقامی لیڈروں یا دیگر سیاسی پارٹیوں سے کسی مزاحمت یا مخالفت کا سامنا ہوا؟
’ایجوکیٹ گرلز‘ میں ہمارا کوئی ملکیت جیسا کچھ نہیں ہے۔ آپ کمیونٹی کو کنٹرول نہیں کرتے۔ آپ کو لوگوں سے بات کرتے ہوئے ذہنیت بدلنی ہوگی اور لوگوں کو آہستہ آہستہ متاثر کرنا، ان کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اسکولوں پر آپ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ اسکول انتظامیہ، مینجمنٹ کمیٹیوں اور اساتذہ کے ساتھ شراکت داری میں کام کرنا سیکھیں، کیونکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو انہیں آپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے مجبور کرتا ہو۔
ہم دل سے آرگنائزر ہیں۔ یہ تنظیم اصل میں یہی ہے۔ ہمارا دل بچیوں کے لیے دھڑکتا ہے اور ہم جسے بھی متاثر کرنا چاہتے ہیں، اسے متاثر کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کا واحد طریقہ مشترکہ بنیاد تلاش کرنا ہے اور ہم یہی کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ سرکاری سطح پر مشترکہ بنیاد تلاش کرنا آسان ہے، کیونکہ ان کا مقصد بھی پائیدار ترقی ہے۔ ہم اسی کے لیے تو کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں آپ حقیقت میں ایک معتبر ساتھی بن سکتے ہیں۔
ایسے کاموں میں لگنے والی پوشیدہ محنت کو عام طور پر عوامی پہچان نہیں ملتی۔ آپ اس بارے میں کیا سوچتی ہیں، خاص طور پر ’ٹیم بالیکا‘ کے معاملے میں؟
ہم گھر گھر جاتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں محنت ہے، ہے نا؟ کبھی یہ دروازے پہاڑ کی چوٹی پر ہو سکتے ہیں، کبھی ندی کے اُس پار۔ ہماری ٹیم بالیکا اور صفِ اوّل کے کارکن ہر دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ ہمارے اندر مسلسل ایک خوف رہتا ہے کہ کیا ہم سے کوئی چوک ہوئی، کوئی چھوٹ گیا؟ کیا اُس پہاڑ کے پیچھے کوئی لڑکی تھی جسے ہم دیکھ نہ سکے، کوئی گھر تھا جو ہمیں اب یاد آ رہا ہے؟ مسلسل ایسے ذہنی اور جسمانی محنت کے لیے بہت جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور آپ ایک بار تو جاتے نہیں، آپ کو بار بار جانا پڑتا ہے۔ آج گھر میں کوئی نہیں ہے، کل وہ ساس سے مشورہ لینے کے بعد سوچیں گی… اگلے دن پھر کچھ اور۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والا عمل ہے۔
آپ کا سوال واقعی بہت اچھا ہے۔ اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ آپ اپنی امیدیں کیسے قائم رکھتے ہیں: ’’آج دروازہ نہیں کھلا، کل کھلے گا؟‘‘ آپ کے سامنے کتنے بھی دروازے بند ملیں، آپ کو بار بار واپس جانا ہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ امید قائم رکھنا اور اسے روزانہ عمل میں لانا ہی وہ پوشیدہ محنت ہے اور اصل محنت بھی۔
آپ نے کئی بار اپنی تعلیم کے بارے میں ذکر کیا ہے، جو بار بار رُکی۔ ایک خاتون ٹیم لیڈر کے طور پر وہ کون سے دیگر تجربات رہے، جنہوں نے زمینی سطح کا کام کرنے کے آپ کے طریقے کو شکل دی؟
ہم دنیا کو سیاہ و سفید رنگ میں دیکھتے ہیں، شہری اور دیہی کی تقسیم ہے، یہ ٹھیک ہے، وہ ٹھیک نہیں… طرح طرح کی پابندیاں، تصورات۔ ایک چیز جس نے مجھے مشکل حالات سے نمٹنے میں مدد کی ہے، وہ ہے یہ کامل یقین کہ پدرشاہی ہم سب پر داغ ہے۔ کہیں یہ ہلکا گلابی ہے، کہیں گہرا لال، بس رنگ کا فرق ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے اپنے شہری گھروں میں بھی، جب دروازے کی گھنٹی بجتی ہے، تو عام طور پر دروازہ کھولنے کے لیے کون اٹھتا ہے؟ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی پدرشاہی نظر آتی ہے۔
ایک شہری کام کرنے والی عورت گھر سے باہر نکل کر لاکھوں ڈالر کی بات کرتی ہے اور گھر لوٹتے ہی پوچھتی ہے ’’فریج میں دہی تھا یا نہیں، بچوں کے لنچ کے لیے؟‘‘ آپ شہری ہوں یا دیہی، پدرشاہی اصول ایک جیسے ہیں۔ جدوجہد ایک جیسی ہے۔ میں نے صنفی نقطہ نظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ آپ کو ہر ماحول میں کچھ نہ کچھ سیکھنا اور بھولنا پڑتا ہے۔
آپ ایک اندرونی شخص (کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرنا) اور ایک بیرونی شخص (شہری تعلیم اور عالمی رابطے و تجربے کے ساتھ) کے درمیان توازن کیسے بنا پاتی ہیں؟
ہم اندرونی لوگ ہیں، کیونکہ ہمارا کام زمینی سطح پر موجود ٹیم بالیکا کے ہزاروں رضاکاروں کے ذریعے کمیونٹی کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ اور میں یوں ہی کسی کے دروازے پر دستک دے کر اسے اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنے کے بارے میں سمجھانے لگیں۔ ٹیم کا نعرہ ہے ’میرا گاؤں، میری مشکل، میں ہی حل‘۔ اس لحاظ سے پورا ماڈل ’اندرونی‘ ہے۔ ایجوکیٹ گرلز میں کام کرنے والے 95 فیصد لوگ انہی گاؤں، بلاک، ضلعوں اور ریاستوں سے آتے ہیں۔ ان کے تجربات ایک جیسے ہیں۔ سب کچھ کمیونٹی کی ملکیت اور کمیونٹی کی آوازوں کے ذریعے چلایا اور ہدایت کردہ ہے۔
میرے لیے ہمارا بیرونی نظریہ اور تجربہ بنیاد رکھنے میں مددگار رہا۔ مثال کے طور پر، میں نے امیزون کے جنگل میں شُوار قبیلے کے ساتھ کام کیا۔ یہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ جب میں ہندوستان آئی اور یہ کام شروع کیا تو ایک گھر سے دوسرے گھر تک پہنچنے کے لیے 2 دن پیدل چلنے کا اپنا تجربہ میرے ساتھ تھا۔ اس لیے دور دراز دیہی اور قبائلی علاقوں میں کام کرنا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ میں حقیقت میں شہری ماحول کی نسبت کہیں زیادہ مطمئن تھی۔ تعمیر، ڈیزائن اور توسیع... یہ وہی کام تو ہیں جو میں شہر میں کرتی ہوں۔
آپ نے غربت، پدرشاہی اور پالیسیوں پر تفصیل سے بات کی ہے۔ آپ کے خیال میں ہندوستان میں لڑکیوں کی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے، جس پر سب سے کم بات ہوتی ہے؟
یہ بہت اچھا سوال ہے۔ صنفی پروگرامنگ میں کبھی کبھی ہم صرف وہی دیکھتے ہیں جو سامنے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ایسا نہیں کرتے۔ وہ اوپری علامات کی بنیاد پر بیماری کا علاج نہیں کرتے۔ اگر آپ کو بخار ہے، تو یہ ملیریا ہے یا کچھ اور، دیکھنا ہوگا؟ وہ خون کی جانچ کے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ سب سے بڑے چیلنج 3 مراحل میں ہیں، اور یہیں پر اصل علاج کی ضرورت ہے۔ وہ چیلنجز اس طرح ہیں:
پہلا، آرزو: لڑکیوں میں آرزو کی کمی ہوتی ہے کیونکہ ہم انہیں ان کے اندر یہ پیدا ہونے کے لیے کبھی مدد نہیں کرتے۔ ان کے والدین اور سرپرستوں کے ذہن میں بھی ان کے لیے کوئی آرزو نہیں ہوتی۔ ’یہ کیا کرے گی؟ کلیکٹر تھوڑی بننا ہے؟ روٹی ہی تو پکانی ہے!‘ ایسی ہی باتیں۔
دوسرا، اعتماد: آرزو کے بغیر، آپ کے پاس اعتماد نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی، لڑکی میں ہوتا بھی ہے، تو والدین میں نہیں۔
تیسرا، سہارا: ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ لڑکیوں کو وہ سہارا ملے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ کبھی کبھی لڑکی میں آرزو اور اعتماد دونوں ہوتے ہیں، لیکن خاندان سہارا نہیں دیتا اور وہ آگے نہیں بڑھ پاتی۔
یہی علاج ہے، صرف لڑکی کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے سرپرستوں، اس کے خاندان اور ایک کمیونٹی کے طور پر ہم سب کے لیے بھی۔ اور یہی وہ بات ہے، جس پر ہم سب سے کم بات کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔