’اسے بہار پر تھوپی گئی ووٹر لسٹ کہنا بہتر ہوگا‘، بہار کی سیاست پر دیپانکر بھٹاچاریہ سے ایک اہم گفتگو

دیپانکر بھٹاچاریہ نے کہا کہ نتیش کمار کی پالا بدلنے کی تاریخ سبھی کو معلوم ہے۔ ہماری توجہ بی جے پی کی تخریب کاری اور پالیسیوں کو چیلنج دینے کے لیے انڈیا اتحاد کو مضبوط بنانے پر ہے۔

دیپانکر بھٹاچاریہ (تصویر سوشل میڈیا)
i
user

قومی آواز بیورو

بہار میں کبھی بھی کوئی انتخاب غیر دلچسپ نہیں ہوتا۔ لیکن اتنا طے ہے کہ رواں سال کے آخر میں ہونے والا انتخاب شروع ہونے سے پہلے ہی تاریخ میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ مہاراشٹر میں بحث اگر لوک سبھا انتخاب (مئی 2024) اور ریاستی اسمبلی انتخاب (نومبر 2024) کے درمیان ریاست میں غیر معمولی طور سے تقریباً 40 لاکھ ووٹرس کے مشتبہ اضافہ سے متعلق چل رہی تھی، تو 2025 کے بہار انتخاب سے قبل ہی شروع ہو گئی بحث ریاست میں ووترس کے بڑے پیمانے پر ووٹنگ سے محروم ہو جانے کے اندیشوں پر مبنی ہے۔ اس سہرا ہندوستانی الیکشن کمیشن کے ذریعہ ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) مہم کو جاتا ہے۔ ایس آئی آر کی اس مہم، جو دراصل شہریت کا ایک امتحان بن چکا ہے، نے نہ صرف ووٹرس اور بیشتر سیاسی پارٹیوں کو فکرمند کیا ہے، بلکہ انتخاب سے قبل عموماً میڈیا میں چھائے رہنے والے ایڈمنسٹریشن سے متعلق تمام ایشوز اور انتخابی وعدوں پر ہونے والی بحث کو بھی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا نے انڈیا اتحاد کی ساتھی سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ سے بہار کی سیاست پر ایک اہم گفتگو کی۔ پیش ہے اس بات چیت کے اہم اقتباسات...

شروعات بایاں محاذ سے ہی کرتے ہیں۔ مغربی بنگال میں 34 سال اقتدار میں رہنے کے باوجود آج اس کے پاس ایک بھی رکن اسمبلی نہیں ہے۔ تریپورہ میں بھی اس کی زمین کھسک چکی ہے۔ مستقبل کیسا نظر آتا ہے... اور بہار میں آپ کی پارٹی سے اتنی امیدیں کیوں وابستہ ہیں؟

دیپانکر بھٹاچاریہ: لوگ اکثر بایاں محاذ کا اندازہ محض انتخابی نتائج کی بنیاد پر کرتے ہیں، لیکن یہ ایک تنگ نظری ہے۔ بہار میں ہماری انتخابی کارکردگی ہمیشہ سے ہی قابل ذکر نہیں رہی۔ 25 سال سے بھی زیادہ وقت سے ہم زمینی سطح پر بہت محنت کر رہے ہیں۔ لگاتار ایسی تحریک چلا رہے ہیں جن پر اکثر توجہ نہیں دی جاتی۔ مغربی بنگال، جہاں بایاں محاذ کے پاس کوئی رکن اسمبلی نہیں ہے، وہاں سنگور اور نندی گرام جیسے معاملے ٹھیک سے نہ سنبھال پانے جیسی غلطیوں کے سبب بحران پیدا ہوا۔ سی پی ایم اتنی ضدی نہ ہوتی تو حالات شاید کچھ الگ ہوتے۔ سچ تو یہی ہے کہ بایاں محاذ ہی ہے جو اقتدار کے سامنے سچ بولتا ہے، عوام کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور تقسیم یا نفرت کے خلاف لڑتا ہے۔ آج کے ماحول میں تو میں کہوں گا کہ بایاں محاذ پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اگر ہم جمہوریت کی اس جنگ کی قیادت کر سکیں، تو ہمارا مستقبل روشن ہے۔

آپ کی پارٹی انڈیا بلاک کا حصہ ہے، جس میں کانگریس، آر جے ڈی اور دیگر بایاں محاذ پارٹیاں شامل ہیں۔ ماضی میں آپ نتیش کمار کی جنتا دل یو کےس اتھ بھی اتحاد میں رہے ہیں، جس نے جنوری 2024 میں دوسری مرتبہ مہاگٹھ بندھن سے کنارہ کر لیا تھا۔ آپ نتیش میں ایسے بدلاؤ کو کس طرح دیکھتے ہیں، اور انڈیا بلاک کے اندر آپ کی حکمت عملی کیا ہے؟

نتیش کمار کی پالا بدلنے کی تاریخ سبھی کو معلوم ہے۔ ہماری توجہ بی جے پی کی تخریب کاری اور پالیسیوں کو چیلنج دینے کے لیے انڈیا اتحاد کو مضبوط بنانے پر ہے۔ آر جے ڈی، کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے ساتھ ہمارے اتحاد کا مقصد انصاف اور مساوات جیسے ایشوز پر لوگوں کو متحد کرنا اور بی جے پی کے ایجنڈے کا مقابلہ کرنا ہے۔


نتیش کمار اپنی شراب بندی جیسی پالیسیوں کے سبب ’سُشاسن بابو‘ کہلانے لگے، جسے خواتین کے درمیان خاص طور سے حمایت ملی تھی...

نتیش کمار کی پالیسیاں غیر موافق ہیں۔ یہ نتیش ہی تھے جنھوں نے شراب بندی سے پہلے ہر گاؤں اور پنچایت میں شراب کی دکانیں کھلوائیں۔ اُس وقت ریونیو حاصل کرنا مقصد تھا، اور جس کے پیچھے ان کی سوچ تھی کہ لڑکیوں کے لیے سائیکل جیسے فلاحی منصوبے کا پیسہ یہیں سے نکالیں گے۔ جب اس کا الٹا اثر ہوتے دیکھا تب وہ شراب بندی کے پیروکار بن گئے۔

بہار میں ذات ایک بڑا عنصر ہے، شاید دوسری ریاستوں سے بھی کہیں زیادہ۔ آپ کی پارٹی انتہائی پسماندہ طبقات (ای بی سی)، مہادلتوں اور حاشیہ پر پڑے دیگر گروپوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ذات پات کی سیاست اس مرتبہ انتخاب پر کس طرح اثرانداز ہوگی؟

ذات پات پورے ہندوستان میں ہی سیاست کو متاثر کرتی ہے، لیکن بہار میں اسے عام طور پر ایک بڑی خاصیت کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ ذاتیں مستحکم رہتی ہیں، لیکن یہ لگاتار ترقی پذیر رہتی ہیں۔ مثلاً 1999 میں نونیا ذات (ایک انتہائی پسماندہ ذات) سے آنے والے ہمارے ساتھی رامیشور پرساد نے آرہ میں جیت حاصل کی، جبکہ وہ اثردار ذاتوں کا قلعہ رہا ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ انتہائی پسماندہ ذاتیں بھی اپنی جگہ بنا سکتی ہیں۔ ذات پر م بنی فارمولے وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، اور ہماری پارٹی ذات پر مبنی تقسیم کو کھاد پانی دینے کی جگہ سماجی انصاف اور مساوات جیسے وسیع ایشوز کے لیے لڑنے کے مقصد سے سبھی ذات کے لوگوں کو متحد کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔


کچھ لوگ مسلمانوں کے واسطے کچھ خاص کام نہ کرنے کے لیے سی پی آئی (ایم ایل) کی تنقید کرتے ہیں۔ آپ کی حکمت عملی میں مسلمانوں کے لیے کیا جگہ ہے؟ اور کیا آپ مجلس اتحادالمسلمین کو انڈیا بلاک میں شامل کرنے کے حق میں ہیں؟

ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان ہماری تحریک میں فعال لیڈر اور یکساں حصہ دار بنیں، ٹھیک اسی طرح جیسے وہ ہندوستان کی جنگ آزادی کے دوران شریک تھے۔ مسلمانوں نے اپنے حق رائے دہی پر منڈلاتے خطرے کو پہلے ہی سمجھ لیا تھا، اب دوسرے لوگ بھی اسے سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا ہدف اپنی پارٹی میں نہ صرف ووٹرس، بلکہ یکساں فریق کی شکل میں بھی مسلمانوں کی شراکت داری بڑھانا ہے۔ جہاں تک مجلس اتحادالمسلمین کی بات ہے، انڈیا بلاک میں ان کا آنا یا نہ آنا بلاک میں ہونے والے وسیع تبادلہ خیال پر منحصر ہوگا، لیکن ہماری توجہ سبھی طبقات کی مجموعی شراکت داری پر ہے۔

2020 میں سی پی آئی (ایم ایل) نے 19 امیدوار اتارے تھے اور 12 سیٹیں جیتی تھیں۔ اس مرتبہ آپ 40 امیدوار مانگ رہے ہیں۔ کیا یہ زیادہ نہیں ہے؟ کیا آر جے ڈی اور کانگریس اس پر متفق ہوں گے؟

2020 میں ہم نے 19 سیٹوں پر انتخاب لڑا اور 12 پر جیت حاصل کی۔ بہار میں 38 اضلاع ہیں، اور تقریباً 25 میں ہماری مضبوط بنیاد ہے۔ ان اضلاع میں طویل وقت سے تنظیم فعال ہے۔ ہماری حکمت عملی ان مقامات پر امیدوار اتارنے کی ہے جہاں اس سے انڈیا بلاک مضبوط ہو۔ 2020 اور 2024 میں، ہم نے جن علاقوں میں انتخاب لڑا، وہاں آر جے ڈی اور کانگریس کی بھی اچھی کارکردگی رہی۔ شمال، جنوب، کوسی اور متھلا علاقوں کو احاطہ کرتے ہوئے 24 اضلاع میں انتخاب لڑ کر، ہمارا ہدف اتحاد کی مجموعی کامیابی کو مضبوطی دینا ہے۔ شروع میں تو ہم نے 50 سیٹوں کے بارے میں سوچا تھا، لیکن اتحاد کی سرگرمی کے ساتھ اپنے اہداف میں توازن بنائے رکھنے کے لیے بات چیت کے بعد 40 سیٹوں پر اتفاق قائم ہوا۔


مہاراشٹر میں ووٹر لسٹ میں مبینہ طور پر ہیرا پھیری ہوئی، جہاں 5 مہینوں میں 5 سال سے کہیں زیادہ ووٹرس جوڑ دیے گئے۔ فکر کی بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی ذیلی سطح پر بھی الیکشن مینجمنٹ میں ماہر ہے۔ کیا بہار بھی ایس آئی آر کو لے کر ایسی ہی مشکل دیکھ رہا ہے؟

بہار احتجاج کرے گا۔ ہم 1980 کی دہائی سے ہی انتخابات پر جاگیردارانہ تسلط (کنٹرول) کو چیلنج پیش کرتے آ رہے ہیں۔ پہلے لوگوں کو ووٹ دینے سے روکا جاتا تھا، بھلے ہی ان کا نام ووٹر لسٹ میں ہو۔ اب یہ ہیرا پھیری سیدھے ووٹر لسٹ کو نشانہ بناتی ہے۔ مہاراشٹر میں لوگ نقصان ہونے کے بعد سمجھ پائے اور اپنا رد عمل ظاہر کیا، لیکن بہار میں لوگ 25 جون (جب ایس آئی آر شروع ہوا) سے ہی گاؤں اور شہروں میں احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگست میں ’انتخابی چوری‘ کے خلاف ایک تحریک کا منصوبہ تیار ہے، جس میں ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری کرنے والوں کو نشان زد کیا جائے گا۔ بہار خاموش نہیں بیٹھے گا۔

(یہ ویڈیو انٹرویو سے تیار مواد ہے جو یوٹیوب Paranjoy Online (پرنجوئے آن لائن) پر دستیاب ہے۔‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔