انٹرویو: جھوٹے وعدوں سے عوام کو بہت دِنوں تک گمراہ نہیں کیا جا سکتا، شیلا دیکشت

شیلا دیکشت نے ایک سول کے جواب میں کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی مرکزی حکومت دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینا چاہے گی۔ کیونکہ مرکزی حکومت یہاں کے پورے ملک کی نمائندگی کرتی ہے‘۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

سید خرم رضا

دہلی کی سابق وزیر اعلیٰ شیلا دیکشت اس بات کو لے کر مطمئن ہیں کہ دہلی میں کانگریس کی کارکردگی اچھی ہوگی۔ وہ مانتی ہیں کہ عام آدمی پارٹی دہلی میں کوئی فیکٹر نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ عام آدمی پارٹی کے لیڈروں سے عوام کا بھروسہ ختم ہو چکا ہے۔ شیلا دیکشت بلاجھجک یہ بھی کہتی ہیں کہ نریندر مودی اس طرح کا وقار قائم نہیں کر سکے جو کہ ایک وزیر اعظم کا ہوتا ہے۔ دہلی سے متعلق ایشوز، عام آدمی پارٹی کے حالات اور موجودہ سیاسی فضا کے بارے میں شیلادیکشت نے ’قومی آواز‘ کے لیے سید خرم رضا سے خصوصی بات چیت کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات...

انٹرویو: جھوٹے وعدوں سے عوام کو بہت دِنوں تک گمراہ نہیں کیا جا سکتا، شیلا دیکشت

اروند کیجریوال اس طرح کا ماحول بنا رہے ہیں جیسے کہ کانگریس نے دھوکہ دیا اور اس وجہ سے اتحاد نہیں ہو پایا۔ اس کے پیچھے کی حقیقت کیا ہے؟

میں نہیں مانتی کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔ ذاتی طور پر میں تو اتحاد کے حق میں تھی ہی نہیں، کیونکہ ہماری ایک بہت ہی مقتدر پارٹی ہے جس کی ملک بھر میں موجودگی ہے۔ کیجریوال کی عام آدمی پارٹی تو صرف دہلی تک ہی محدود ہے یا ہریانہ میں اس کا معمولی سا وجود ہے۔ عام آدمی پارٹی ایک طویل مدتی پارٹی نہیں ہے، اس لیے بھلا ہم کیوں ان سے جڑیں؟ ہم نے بہت سارے الیکشن اپنی طاقت پر جیتے ہیں اور کچھ ہارے بھی ہیں۔ یہ سیاست کا ایک حصہ ہے۔

دہلی میں عام آدمی پارٹی دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دیئے جانے کے ایشو پر لڑ رہی ہے، وہیں بی جے پی کا ایشو نیشنلزم ہے۔ کانگریس کا ایشو کیا ہے؟

ہمارا ایشو ترقی ہے۔ کانگریس یہاں 15 سال حکومت میں رہی ہے اور اس نے دہلی کو ایک جدید شہر کی شکل میں تیار کیا ہے۔ جتنا ممکن ہو سکا ہم نے اسے فروغ دیا اور ہم نے دہلی پر اپنی چھاپ چھوڑی۔ بدقسمتی سے ان لوگوں کی وجہ سے ہم الیکشن ہار گئے۔ انھوں نے سبھی طرح کے جھوٹے وعدے کیے، جیسے مفت بجلی اور مفت پانی کا وعدہ۔ لوگ اس پر سوار ہو گئے۔ سب سے بڑی بات، جمہوریت میں لوگ بدلاؤ کی طرف دیکھتے ہیں۔ لوگوں نے بدلاؤ کی جانب رخ کیا اور وہ انھیں ملا۔ لیکن اب کانگریس کو اس کے کاموں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ان انتخابات میں ہم بہتر کریں گے۔


جیسا کہ آپ جھوٹے وعدوں کی بات کر رہی تھیں، آپ دو لیڈروں نریندر مودی اور اروند کیجریوال کے خلاف لڑ رہی ہیں جنھوں نے اپنے انتخابات کے وقت پر جھوٹے وعدے کیے تھے۔ آپ ان لیڈروں سے کس طرح لڑیں گی؟

لڑنے کے لیے ہمارے پاس ایشوز ہیں۔ ہمیں دہلی کو سب سے اچھا شہر بنانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیے، دہلی ملک کی راجدھانی ہے، اس لیے اس پر لگاتار دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ دہلی میں آپ کے پاس گندی سڑکیں نہیں ہو سکتیں۔ بیرون ممالک سے ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ اس لیے ہندوستان کو یہ تصویر دینے کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ یہ حقیقت میں کیسی ہے کیونکہ اگر ہم اس میں ناکام ہوتے ہیں اور دہلی کو ایک اوسط شہر بنا دیتے ہیں جو گندہ ہو، تو پھر مجھے فکر ہے کہ یہ راجدھانی کی شکل میں اپنی پوزیشن نہ گنوا دے۔

آپ ہندوستان کے بہترین وزرائے اعلیٰ میں سے ایک رہی ہیں جنھوں نے 15 سال کی طویل مدت تک حکومت کی ہے۔ اس لیے آپ کی نظر میں دہلی میں اہم چیلنجز کیا ہیں؟

چیلنج بہت بڑا تھا۔ اپنی قوت پر کام کرنے کے لیے اقتدار کا ہونا اور ہمیں ہر کام کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کے پاس جانا پڑتا تھا۔ ہمیشہ ایسا کچھ نہ کچھ ہوتا تھا جس سے سرکار کو کچھ کام کرنے سے روکا جا سکتا تھا۔ اس لیے ہم نے تعاون کرنے والا پروفائل بنا کر رکھا۔ اس سب کے باوجود ہم میٹرو، سی این جی، ائیر کنڈیشن اور بغیر ائیر کنڈیشن والی بسیں لانے میں کامیاب رہے۔ لیکن اگر آپ آج کیجریوال کو دیکھیں تو وہ طویل مدت تک بسیں لانے کی بات لگاتار کرتے رہے لیکن ایک بھی بس نہیں لائے۔ اس طرح کے ایشوز پر ایل جی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ہم نے دہلی کی بھلائی کے لیے معاون کی طرح کام کیا۔ ہماری حکومت میں ایک وقت میں اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم تھے اور پھر منموہن سنگھ وزیر اعظم ہوئے تھے۔ اور میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ اٹل بہاری واجپئی نے تعاون نہیں کیا، کیونکہ یہ ہر پارٹی کے مفاد میں ہے کہ راجدھانی کو خوبصورت ہونا چاہیے۔


اپنی حکومت کے دوران آپ مرکز کے ساتھ اچھے رشتے بنانے میں کامیاب رہیں، لیکن موجودہ وزیر اعلیٰ 24 گھنٹے مرکز کے ساتھ لڑائی کی حالت میں رہتے ہیں۔ اس موجودہ حالت پر آپ کی کیا رائے ہے؟

مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کرنا مناسب ہے۔ ہمیں شہر کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں قانون اور آئینی ڈھانچے کے دائرے میں کام کرنا ہوتا ہے اور اگر آپ آئین سے باہر قدم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تب مجھے فکر ہے کہ یہ ناکامی آپ کی ہی ہے۔ اس طرح آپ کچھ بھی کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔

عام آدمی پارٹی کا انتخابی ایشو دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دلانا ہے۔ اگر وہ دہلی کی ساتوں سیٹیں جیت جاتی ہے تو کیا وہ اسے حاصل کر لے گی؟

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ذریعہ آئین میں ترمیم کرنے کے بعد ہی ہم اسے حاصل کر سکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو ورغلایا جا رہا ہے۔


مکمل ریاست پر آپ کا نظریہ کیا ہے؟

مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی مرکزی حکومت دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینا چاہے گی۔ کیونکہ مرکزی حکومت یہاں کے پورے ملک کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس لیے یہاں اسے ترقی کی ضرورت ہے جو سبھی ہندوستانیوں کو فخر کرا سکے۔ یہاں ہمیشہ سے یہی مسئلہ رہا ہے۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ مرکز کے ساتھ لگاتار ٹکراؤ کر کے کیجریوال قصداً یہ سوچ قائم کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی ایک انقلابی شبیہ پیش کر سکیں اور اس کے بدلے میں انھیں ووٹروں سے ہمدردی ملے؟

ممکن ہے آپ درست فرما رہے ہوں۔ ہو سکتا وہ یہ سب سوچ سمجھ کر رہے ہیں، لیکن کیا اس نے انھیں مدد پہنچائی؟ میں سمجھتی ہوں کہ ان کی شبیہ میں بہت زیادہ گراوٹ آئی ہے۔ لوگوں نے انھیں تاریخی مینڈیٹ دیا تھا، لیکن اب وہ ٹھگا محسوس کر رہے ہیں۔


کیجریوال کا نوکرشاہی کے ساتھ کافی مسائل رہے ہیں۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے، کیا نوکرشاہی بدل گئی ہے یا وہی ذمہ دار ہیں؟

میں نہیں جانتی اور نہ ہی میں نے ان نوکرشاہوں سے پوچھا ہے جنھوں نے میرے ساتھ کام کیا تھا۔ لیکن انھوں نے اس بات پر تبصرہ کیا تھا کہ ان کے (کیجریوال) ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ دہلی میں نافذ ہونے والے قوانین اور ضابطوں کو نہیں سمجھتے ہیں۔

عام آدمی پارٹی بدعنوانی سے پاک حکومت دینے کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی، لیکن گزشتہ چار سالوں میں مختلف الزامات کی وجہ سے چار وزراء کو حکومت سے ہٹانا پڑا۔ اس سب کو آپ کس طرح سے دیکھتی ہیں؟

میں سمجھتی ہوں کہ انھوں نے خود ہی بدعنوانی سے پاک ہونے کی بات کی تھی لیکن کیا کسی اور نے ان کے بارے میں ایسا کہا ہے۔ اگر آپ موجودہ وقت میں صرف اشتہاروں کو دیکھیں تو پوری دہلی میں کسی دیگر پارٹی کے مقابلے عام آدمی پارٹی کے اشتہار بہت زیادہ ہیں۔ ذرا دیکھیے، کوئی دیگر پارٹی، خاص کر کانگریس اس سب کو برداشت کر سکتی ہے۔ اس لیے ہم انھیں بدعنوانی سے پاک کیسے کہہ سکتے ہیں۔


آپ کئی وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنے کی گواہ رہی ہیں، اس لیے وزیر اعظم کی شکل میں نریندر مودی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

میں ان پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی کیونکہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، لیکن ایک چیز میں کہنا چاہوں گی، اور وہ یہ کہ دیگر وزیر اعظم جس طرح کے وقار کا مظاہرہ کرتے تھے وہ یہاں نہیں ہے۔ یہ ایک سوچ قائم ہوئی ہے کہ یہاں وہ نہیں ہے جو ایک وزیر اعظم سے امید کی جاتی ہے۔

انتخابی کمیشن کے کام پر بہت سارے سوالیہ نشان لگتے ہیں اور الزام ہے کہ وہ الگ الگ پارٹیوں کے لیے الگ الگ پیمانے نافذ کر رہا ہے۔ آپ اسے کس طرح دیکھتی ہیں؟

میں حقیقت میں اس بارے میں نہیں جانتی، اس لیے میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتی۔ یاد رکھیں، لوگ جانبدار ہو سکتے ہیں اور اگر ثبوت ہیں تب انھیں انتخابی کمیشن کو دیا جانا چاہیے اور کمیشن کو اس پر کارروائی کرنی چاہیے۔


سبھی پارٹیوں کے انتخابی منشورسامنے آ چکے ہیں۔ آپ کا منشور آپ کے گزشتہ منشوروں سے کتنا مختلف ہے؟

میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہمارے بہترین انتخابی منشوروں میں سے ایک ہے۔ ہمارے منشور میں آمدنی کا ایک بھروسہ ہے تاکہ لوگوں کو ان کی روزی روٹی مل سکے اور یہ فیملی کی خواتین کے لیے بھی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ان لوگوں کے تئیں سمجھ اور ہمدردی ہے جنھیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ ’نیائے‘ دہلی میں بھی ایک اہم ایشو ہوگا؟

ہاں، میں سمجھتی ہوں۔ لوگ اس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ اسے سمجھتے ہیں اور انھوں نے اس کا استقبال کیا ہے۔ انتخابی تشہیر کے دوران جب بھی ہم نے اس کا حوالہ دیا، لوگوں نے تالیاں بجائیں۔


اب پرینکا گاندھی سرگرم سیاست میں شامل ہو چکی ہیں۔ اس کا کیا اثر پڑے گا؟

میں سمجھتی ہوں کہ انھوں نے بہت مثبت اثر ڈالا ہے اور وہ بہت مقبول ہو رہی ہیں۔ اگر آپ کو لکھنؤ میں راہل اور پرینکا کا روڈ شو یاد ہو تو لوگوں کا جو رد عمل تھا وہ انتہائی قابل دید تھا۔ انھوں نے ابھی تک جو کچھ کیا ہے اس کے لیے ان کی تعریف کی جاتی ہے۔ ان کا ایپروچ اور ڈائیلاگ کرنے کا انداز بے مثال ہے۔ ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ دہلی میں انتخابی تشہیر کریں۔

انتخاب کے چار مراحل ہو چکے ہیں۔ آپ کو کس طرح کا فیڈ بیک مل رہا ہے؟

اس کا اندازہ لگانا میرے لیے مشکل ہے کیونکہ انتخاب کئی مراحل میں ہو رہے ہیں اور پہلا مرحلہ کسی خاص علاقے یا حصے کی نمائندگی کر سکتا ہے اور دوسرا مرحلہ سماج کے کسی دوسرے حصے کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ ایک علاقے کی امیدیں دوسرے علاقے سے کافی مختلف ہو سکتی ہیں، اس لیے ہمیں کچھ وقت کے لیے انتظار کرنا چاہیے۔


کانگریس صدر نے کہا ہے کہ یہ انتخاب ہندوستان کی روح کے لیے ہے، آپ کیا کہتی ہیں؟

وہ درست کہہ رہے ہیں کیونکہ یہ انتخاب ہندوستان کے اس جمہوری نظریہ کو بچانے کے لیے ہے جس کی بنیاد کانگریس نے رکھی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 May 2019, 7:10 PM