حق کی صدا بلند کرنا لنکیش کے قتل کی وجہ: ادے پرکاش

Getty Images
Getty Images
user

وشو دیپک

معروف ادیب و مصنف اُدے پرکاش اس شخصیت کا نام ہے جنھوں نے ایم ایم کلبرگی کے قتل کے بعد بطور احتجاج ساہتیہ اکادمی ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔ انھیں ناول ’پیلی چھتری والی لڑکی‘ اور ’موہن داس‘ کی وجہ سے کافی شہرت ملی۔’موہن داس‘ کا ترجمہ تو انگریزی اور دیگر سات ہندوستانی زبانوں میں بھی کیا گیا۔ اُدے پرکاش سے گوری لنکیش کے قتل اور کلبرگی قتل معاملے پر ’قومی آواز‘ کے وشودیپک نے خصوصی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات...

ادے پرکاش/Twitter
ادے پرکاش/Twitter

سوال : کیا گوری لنکیش اور پچھلے برس کرناٹک میں مارے جانے والے مشہور ادیب کلبرگی کے قتل کے اسباب ایک ہیں؟

جواب: کلبرگی ’واچنا ساہتیہ ‘ کے ایک مشہور عالم تھے اور ان کو اس سلسلے میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ملا تھا۔ اس قسم کے ادب کی روایت کنڑ زبان میں گیارہویں صدی سے جڑی ہوئی ہے۔ در اصل یہ ادب دلتوں کا ادب ہے۔ ’واچنا ساہتیہ‘ میں دبے کچلے طبقوں کے غم و غصے کا عکس ملتا ہے۔ اس میں منطقی فکر، پاکیزہ نفس اور وحدت کا پیغام بھی ملتا ہے۔ اور اس ادب کی اسی بات کے سبب اس میں اور ذات پات پر مبنی برہمنوادی سماج میں ایک تکرار پائی جاتی ہے۔ کلبرگی نے ’واچنا ساہتیہ‘ پر کوئی پچاس کتابیں لکھیں اور ان تمام کتابوں میں منطقی فکر اور اعلیٰ انسانی قدروں، جس میں انسانی برابری کی برتری جھلکتی ہے۔ بس کلبرگی اسی وجہ سے مار دیے گئے۔

اب گوری لنکیش کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ گوری ایک شاندار صحافی تھیں، بلکہ وہ انصاف کے لیے ہمیشہ لڑتی رہتی تھیں۔ وہ انسان دوستی، انسانی برابری اور ذات پر مبنی نظام کی سخت مخالف تھیں اور ان ایشوز پر بے باکی سے لکھتی بھی تھیں۔ وہ کلبرگی کی طرح اس لیے ماری گئیں وہ حق کی آواز تھیں اور ان طاقتوں کو ناگوارگزرتا تھا جو انسانی برابری کے نظریہ میں یقین نہیں رکھتے۔

سوال: یعنی ان دنوں نفرت کا کلچر جو عام ہو رہا ہے، گوری اس کا نشانہ بن گئیں!

جواب: ظاہر ہے کہ وہ نفرت کا شکار ہوئیں۔ ہم کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کلچر سیاست سے زیادہ اہم اور دیرپا شے ہے۔ دیکھیے، پچھلے کچھ برسوں میں موب لنچنگ اور منافرت کا جو کلچر بنا ہے گوری لنکیش اس کلچر کی شکار ہوئیں۔ دراصل جس فکر نے گاندھی کو مارا، گوری لنکیش بھی اسی فکر کی شکار ہوئیں۔

سوال: کیا آپ کی رائے میں ادیب اور صحافی منافرت کے شکار جلد ہو جاتے ہیں؟

جواب: جی ہاں، ساری دنیا میں وہ خطرے میں جیتے ہیں۔ وہ پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں جو دنیا سے الگ تھلگ تنہائی میں اپنا کام کرتے ہیں۔ وہ کوئی منظم بھی نہیں ہوتے اور فاشسٹ حاکم کا وہ خاص نشانہ بنتے ہیں۔ ہٹلر نے ہزاروں کتابیں جلوا دیں، سینکڑوں ادیبوں کو مروا دیا... ارے وہ ہٹلر کا دور تو جانے دیجیے، میں بھی ایک ادیب ہوں، لیکن آج کی فضا کے سبب میں بھی اب خاموش ہو گیا ہوں اور تنہائی میں جی رہا ہوں۔

سوال: ایسے ماحول میں ادیب اور صحافی کیا کر سکتے ہیں؟

جواب: دیکھیے فرقہ پرستی اور فاشزم کے خلاف جدوجہد محض ایک سیاسی جدوجہد نہیں ہے اس کو سماجی سطح پر بھی لڑنا ضروری ہے اور اس وقت ایک پریشانی یہ ہے کہ فرقہ پرستی اور فاشزم کے خلاف جدوجہد میں اب تک جس قسم کی زبان کا استعمال ہو رہا تھا وہ زبان اور طرز اب بے اثر ہو چکا ہے۔ اب ہم کو آج کے ماحول میں ایک نئی زبان اور نئے نعرے پیدا کرنے ہوں گے۔ دیکھیے، ایک نیا کلچر بنانے کی ضرورت ہے۔ نئی اصطلاحیں بنانے کی ضرورت ہے۔ تب کہیں سیاسی جدوجہد ہو سکتی ہے۔ اس لیے آج کے ادیب اور صحافی کو ایک نئی زبان اور طرز پیدا کرنی ہوگی تاکہ وہ بااثر ہو سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Sep 2017, 8:11 PM