’بھارت بند‘ نے بھسما سُر کی یاد تازہ کر دی: اُدت راج  

2 اپریل کو دلتوں کے ’بھارت بند‘ اور 10 اپریل کو ریزرویشن کے خلاف اعلیٰ ذات کا ’بھارت بند‘ ہوا۔ ان دونوں مظاہروں پر دلت لیڈر اُدت راج نے اپنی بے باک رائے ’قومی آواز‘ کے سامنے رکھی۔

تصویر قومی آواز/ویپن
تصویر قومی آواز/ویپن
user

بھاشا سنگھ

دلتوں پر لگاتار بڑھتے حملوں سے پورا دلت اور بہوجن سماج ناراض ہے ہی، ساتھ ہی بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ بھی ناخوش ہیں۔ وہ لگاتار اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور انھیں یہ بھی احساس ہو گیا ہے کہ دلتوں کےدرمیان بی جے پی کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ اپنے سماج کی اس ناراضگی کو مضبوطی سے سامنے رکھنے کا کام دہلی سے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اُدت راج لگاتار کر رہے ہیں۔ خصوصاً سپریم کورٹ کےایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے غلط استعمال سے متعلق دیے گئے فیصلے کے بعد سے دلتوں کی جو ناراضگی ملک بھر میں پھوٹی ہے اس کی سیاسی آنچ نریندر مودی حکومت اور بی جے پی محسوس کرنے لگی ہے۔ اس سلسلے میں ’قومی آواز‘ کے نمائندہ نے اُدت راج سے تفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس بات چیت کے اہم اقتباسات:

دلتوں نے 2 اپریل کو’بھارت بند‘ کیا تھا اور اس کے جواب میں ریزرویشن مخالف طاقتوں نے 10 اپریل کو ’بھارت بند‘ کیا۔ ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے؟

دلتوں کے خلاف ناانصافی ہوئی تھی تو انھوں نے اپنی ناراضگی ظاہر کی۔ ملک کا قانون اس کی اجازت دیتا ہے اور اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔دلتوں نے کسی ذات یا طبقہ کے خلاف ناراضگی ظاہر نہیں کی۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کی اور مرکزی حکومت کے ذریعہ اس ناانصافی کو ٹھیک نہ کیے جانے پربرہمی کا اظہار کیا۔ لیکن آج (10 اپریل) کا جو بھارت بند ہے وہ دلت مخالف کم اور ملک مخالف زیادہ ہے۔ یہ براہ راست تعصب پیدا کرنے والا معاملہ ہے۔

آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں؟

ایسا اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ آج بھی تمام علاقوں میں دبدبہ تو اعلیٰ ذات کا ہی ہے۔ آپ میڈیا سے لے کر سپریم کورٹ، نوکرشاہی، سروس سیکٹر، بزنس، کیپٹل مارکیٹ وغیرہ ہر جگہ دیکھ لیجیے، اعلیٰ ذات کے لوگ ہی چھائے ہوئے ہیں۔ ان میں کہیں دلت نظر آتے ہیں کیا؟ ہر جگہ اعلیٰ ذات کا قبضہ ہے۔ دلتوں کی تھوڑی بھی شراکت داری ان لوگوں کو برداشت نہیں ہے۔ ایسے میں کیا کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے؟ ان کو دبا کر رکھیں گے تو بازار میں خریدنے والے کہاں سے آئیں گے۔


آج کے ’بھارت بند‘ کا کیا کوئی اثر پڑے گا؟

اس سے تو ان اعلیٰ ذات والوں کا ہی نقصان ہوگا۔ انھوں نے دلت اور پسماندہ طبقات کو مزید متحد کر دیا ہے کیونکہ ریزرویشن والے تو وہ بھی ہیں۔ کل ملا کر انھوں نے بھسماسُر کا کام کر دیا ہے۔

بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی مورتیاں اتنی زیادہ کیوں توڑی جا رہی ہیں؟

انھیں بابا صاحب سے ڈر لگتا ہے۔ دراصل اعلیٰ ذات کو سیدھی ٹکر تو یہیں سے ملی تھی اور آج بھی یہیں سے مل رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اتنے حملے ہو رہے ہیں اور اعلیٰ ذات کے لوگوں میں نفرت کی آگ جل رہی ہے۔


لیکن بی جے پی تو دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ دلت سماج کے سب سے زیادہ قریب ہیں اور 40 دلت ممبران پارلیمنٹ بھی ان کے ساتھ ہیں۔

میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بی جے پی کی غلط فہمی ہے۔ کسی کے پاس زیادہ ممبران پارلیمنٹ ہو ں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پارٹی دلتوں سے زیادہ قریب ہے۔ دلت ممبران پارلیمنٹ ہونے سے دلت کا اس پارٹی سے جڑنا قطعاً ضروری نہیں ہے۔

دلتوں میں اتنا غصہ کیوں ہے؟ کیا ’سب کا ساتھ سب کا وِکاس‘ نعرہ کے مطابق انھیں ساتھ لے کر نہیں چلا گیا؟

ناراضگی کے کئی اسباب ہیں... سپریم کورٹ کا فیصلہ، یونیورسٹیوں میں ٹیچر کی تقرری میں ریزرویشن کی بات، نجکاری میں لگاتار اضافہ، ملازمت میں کمی۔ کئی ایسی وجوہات ہیں جس کے پیش نظر 2 اپریل کو احتجاجی مظاہرہ ہوا اور اس میں نوجوانوں کی زیادہ تعداد کو دیکھ کر ان کے مسائل کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔


دلتوں کے احتجاجی مظاہرہ میں پہلی مرتبہ تشدد دیکھنے کو ملا، ایسا کیوں؟

دو چیزیں پہلی بار ہوئی ہیں۔ جب دلت مخالفت پر آمادہ ہوئے تو اعلیٰ ذات ان کے خلاف آئے... ایسا کیوں ہوا۔ جب باقی لوگ احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں تو دلت تو ان کی مخالفت نہیں کرتے، پھر انھوں نے دلتوں کے خلاف کیوں آواز اٹھائی۔ گوالیار میں بھی دلتوں کے احتجاج کے خلاف بڑے پیمانے پر اعلیٰ ذات کے لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ گوالیار میں تو یہ بھی ثابت ہو گیا کہ گولی مارنے والے دوسری ذات کے لوگ تھے۔ میں کسی بھی طرح کے تشدد کی حمایت نہیں کر رہا، لیکن دلتوں پر قہر برپا ہو رہا ہے۔ میرٹھ سے لے کر ملک بھر میں دلتوں کو پھنسایا جا رہا ہے۔

دلتوں کے خلاف اتنا غصہ کیوں؟

انھیں لگتا ہے کہ جو ہماری پاؤں کی جوتی تھے وہ اب ہمارے برابر آ رہے ہیں۔ یہ مفاد پرستی اور جلن و حسد کی وجہ سے ہے۔ دلتوں کی ترقی اور ان کی بہتر طرز زندگی اعلیٰ ذات کے لوگوں کو پسند نہیں آ رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔