انٹرویو—مولانا سلمان ندوی نے پرسنل لاء بورڈ پر شری شری روی شنکر کو ترجیح دی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

مسلم پرسنل لاءبورڈ میں اختلافات اب پوری طرح ظاہر ہو گئے ہیں۔ ان اختلافات کے سبب بورڈ کے اجلاس میں دوسرے دن مولانا سید سلمان ندوی نے شرکت بھی نہیں کی۔ ان کی شکایت ہے کہ اجلاس میں کوئی ان کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ ’قومی آواز‘ نے حقیقت حال جاننے کے لیے مولانا سید سلمان ندوی سے خصوصی گفتگو کی جس میں انھوں نے اجلاس کے پہلے دن ہوئے اختلافات اور اپنے نظریہ سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات...

سید خرم رضا: آخر کیا وجہ رہی کہ آپ آج مسلم پرسنل لاءبورڈ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے؟

مولانا سلمان ندوی: کل اجلاس میں جس طرح ہنگامہ ہوا اور میری بات کسی نے غور سے نہیں سنی، اس کے بعد اجلاس میں شریک ہونا بے معنی تھا۔ سبھی کا یہ موقف تھا کہ مندر-مسجد سے متعلق جو کمیٹی بنائی جا رہی ہے اس کے خلاف کارروائی ہو، تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ خوشی سے کیجیے لیکن میں اپنا اسٹینڈ نہیں بدلوں گا۔ میں اس چیز کا قائل ہوں کہ عدالت سے باہر ہندو اور مسلم مل کر خود مسائل کا حل تلاش کریں اور ایسا کر کے ہی ملک میں امن کی فضا کو قائم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا موقف سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بھائی چارے کی فضا جو ہندوستان کی آزادی سے قبل تھی وہی ماحول پھر قائم ہو اور اس کے لیے ہمیں کسی طرح کی قربانی بھی دینی ہو تو ہم بخوشی تیار ہیں۔

کل اجلاس کے دوران کس بات پر ہنگامہ ہوا اور آپ کے مخالفین نے کیا مدے اٹھائے؟

دیکھیے، شریعت کا جو دائرہ ہے وہ بڑا وسیع ہے۔ حنبلی مسلک میں گنجائش ہے کہ مسجد کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے۔ اُن لوگوں کا کہنا تھا کہ مسجد جہاں بھی تھی وہیں رہے گی، قیامت تک رہے گی اور اس کو وہیں بننا چاہیے۔ میں نے کہا کہ آپ اپنی خواہشات اور اپنی تمناﺅں کا اظہار ضرور کریں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سے سوائے کشیدگی پیدا ہونے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوگا۔


آپ کا نظریہ اس سلسلے میں کیا تھا جس کی مخالفت کی گئی؟

دیکھیے چار مسلک ہیں، حنبلی مسلک میں مسجد منتقل کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اسلام میں چاروں مسلک یکساں ہیں، کوئی بھی باطل نہیں۔ لہٰذا ہمیں ملک کے حالات کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد دوسری جگہ منتقل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ میرا ماننا تھا کہ ہم ایسی جگہ مسجد بنائیں جہاں وہ آباد رہے اور لوگ باضابطہ نماز پڑھیں۔ ساتھ ہی میں نے ایک یونیورسٹی قائم کرنے کی بات بھی رکھی۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ 1992 میں مسجد ڈھا دی گئی جو ایک ڈھانچہ کی شکل میں تھی۔ وہاں اب عملی طور پر مندر بھی بنا ہوا ہے اور 1949 سے مورتی بھی رکھی ہوئی ہیں۔ اس لیے اجلاس میں شریک لوگوں سے میرا یہ کہنا تھا کہ پورے معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں کیونکہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ محض ایک آواز ہے، لن ترانی ہے، محض ایک جوش ہے۔ مسئلے کو حل کرنا ہے تو سنجیدہ طرز عمل اختیار کرنا ہوگا تاکہ آج جس طرح معصوموں پر ظلم ہو رہے ہیں، سڑکوں پر مار دھاڑ اور فسادات ہو رہے ہیں، ایسے ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔

شری شری روی شنکر سے آپ کی کس طرح کے معاہدے پر بات ہوئی؟

شری شری روی شنکر صاحب سے جب میری بات ہوئی تو میں نے ان کے سامنے تین باتیں رکھیں۔ میں نے کہا کہ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جن لوگوں نے بابری مسجد منہدم کی ہے ان لوگوں کو سزا ملنی چاہیے۔ میری دوسری شرط تھی کہ مسجد کی موجودہ 70 بیگہ زمین کو بڑھا کر 140 بیگہ زمین آپ لوگ دیجیے جہاں یونیورسٹی اور مسجد بن سکے۔ اور تیسری شرط یہ کہ معاہدہ پختہ ہونا چاہیے اور یہ معاہدہ سپریم کورٹ کی طرف سے بھی رجسٹرڈ ہو جس میں یہ اعلان ہو کہ کسی مسجد، کسی درگاہ، کسی مسجد مدرسے اور کسی قبرستان کے ساتھ آئندہ چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی۔ یہ تین باتیں ہماری ان کے ساتھ ہوئی ہیں۔


آپ کی شرطوں پر شری روی شنکر نے کیا کہا؟

ہماری ان شرطوں سے وہ متفق تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اگر ایسا کرتے ہیں تو اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ میرا تو بس اتنا ماننا ہے کہ ہماری مسجد محفوظ رہے۔ پہلے والی جگہ پر مسجد بنے گی تو جھگڑا بنا رہے گا۔ بظاہر تو وہاں پر مسجد بننے کے آثار نظر ہی نہیں آ رہے ہیں، لیکن اگر فرض کیجیے کہ بن بھی جائے تو وہاں کون نماز پڑھنے جائے گا۔ وہاں تو لوگ پہلے بھی نہیں جاتے تھے۔ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ مسجد کا ڈھانچہ اصل نہیں ہوتا، اصل تو نماز ہوتی ہے۔ مسجد میں نماز ہو اور اچھی آبادی کے ساتھ ہو، اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس لیے میرا مشورہ تھا کہ وہاں سے فاصلے پر، یعنی فیض آباد سے لکھنؤ تک کہیں پر بھی اچھی اراضی دی جائے اور وہاں مسجد و یونیورسٹی کی تعمیر کا کام شروع ہو۔

آپ کی مخالفت میں کن لوگوں نے آواز اٹھائی؟

ان لوگوں میں کمال فاروقی اور قاسم رسول الیاس صاحب وغیرہ شامل تھے۔ قاسم رسول الیاس نے بہت ہنگامہ برپا کیا۔ وہ میری بات کے دوران میں ہی ٹوک دیا کرتے تھے جس سے میرا کچھ بھی بولنا مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے پوری بات کہنے دیجیے پھر آپ اپنی بات رکھیے گا، لیکن ہنگامہ ہوتا رہا جس سے اندازہ ہوا کہ ان کا مقصد معاملے کو سلجھانا نہیں بلکہ بگاڑنا تھا۔


وہاں موجود معزز شخصیات نے کچھ نہیں کہا؟

مولانا رابع صاحب اور مولانا ارشد مدنی صاحب تو خاموش ہی بیٹھے تھے۔ مولانا ولی رحمانی صاحب جلسہ چلا رہے تھے اور کبھی کبھی لوگوں کو روکتے بھی تھے اورمجھ سے بھی یہ کہا کہ تقریرنہ کیجیے۔ لیکن میں تو صرف اپنی بات ان سب کے سامنے رکھنا چاہ رہا تھا بعد میں انھیں جو فیصلہ کرنا ہوتا وہ کر لیتے۔

مجلس عاملہ میں آپ کی حمایت میں بولنے والے کوئی نہیں تھے؟

جو میرے نظریے سے متفق ہوں گے وہ خاموش ہی رہے۔ مولانا محمود مدنی صاحب نے یہ ضرور کہا تھا کہ جو ماحول بن رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے، مولانا کے خلاف جو ہم لوگ کر رہے ہیں وہ نامناسب ہے۔ انھوں نے دفاع میں بھی کچھ بات کی تھی۔


کیا آپ کل کے اجلاس میں شریک ہوں گے؟

اب اگر کوئی میری بات سننے کے لیے رضامند ہی نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ وہاں میرا جانا بے معنی ہے۔ میرا کسی سے کوئی ذاتی جھگڑا تو ہے نہیں کہ جانا ضروری ہو۔

اس طرح کا ماحول بننے کے بعد مسلم پرسنل لاءبورڈ کی رکنیت سے آپ استعفیٰ دیں گے؟

وہ تو ان کا فیصلہ ہے، جو چاہیں وہ کریں۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ جو چاہیں آپ فیصلہ کیجیے۔ جہاں تک میرے استعفیٰ دینے کا سوال ہے تو فی الحال اس تعلق سے میں نے ان کو کوئی خط نہیں بھیجا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بورڈ بالکل ’ہائی جیک‘ ہو گیا ہے، اس لیے میں نے خود کو اس سے علیحدہ کر لیا ہے۔ لیکن باقاعدہ طور پر استعفیٰ نامہ ابھی میں نے نہیں بھیجا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 Feb 2018, 9:59 PM