انٹرویو: ’ہاکی اب ہندوستان میں متبادل کیریر ہو سکتا ہے‘، دلیپ ترکی

عالمی کپ میں ہندوستان کے امکانات کو لے کر سابق اولمپین اور ہندوستانی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان دلیپ ترکی انتہائی پُرجوش ہیں، انھوں نے کہا کہ ’’میزبان کے طور پر کھیلنے کا کوئی اضافی دباؤ نہیں۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>دلیپ ترکی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

دلیپ ترکی، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

ہندوستان کے سابق ہاکی کپتان اور گزشتہ ستمبر میں ہاکی انڈیا کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے والے تین بار کے اولمپین دلیپ ترکی ان دنوں بہت مصروف ہیں۔ ظاہر ہے مرد ہاکی عالمی کپ کے شریک میزبانوں میں سے ایک ہونے کے سبب ان پر فوکس کچھ زیادہ ہی ہے۔ اڈیشہ آخر اس ٹورنامنٹ کا مرکز جو ہے۔ اپنے وقت کے بہترین ڈیفنڈر میں سے ایک 44 سالہ ترکی 1998 کے ایشیائی کھیلوں میں طلائی تمغہ جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے، اور اٹلانٹا (1996)، سڈنی (2000) اور اتھینز (2004) اولمپک میں انھوں نے ہندوستان کی نمائندگی کی۔ ترکی ابھی اڈیشہ سے راجیہ سبھا رکن بھی ہیں۔ ہاکی کے اس اسٹار نے ہندوستانی ٹیم کے امکانات اور مستقبل پر گوتم بھٹاچاریہ سے کھل کر بات کی۔ پیش ہیں اس بات چیت کے اہم اقتباسات:

سوال: ٹوکیو اولمپک میں کانسہ کا تمغہ اور کامن ویلتھ گیمز میں نقرئی تمغہ کے بعد ہندوستانی ہاکی کے امکانات کو لے کر کتنے پرجوش ہیں؟

جواب: ہاں، لگاتار اچھی کارکردگی کے سبب نہ صرف مرد بلکہ خاتون ہاکی ٹیم کے تئیں بھی نئی طرح کی دلچسپی دکھائی دی ہے۔ بھروسہ ہے کہ ہم اس عالمی کپ میں اچھی کارکردگی پیش کریں گے۔ ٹیم آسٹریلیا سیریز کے بعد بہت اچھی طرح سے تیار ہے۔ بھونیشور میں پرو-لیگ کے دوران اس کا مظاہرہ اطمینان پہنچانے والا ہے۔ ہم نے ماہرین کے ساتھ ٹیم کے لیے گول کیپنگ اور ڈریگ فلک پر خصوصی کیمپ بھی منعقد کیا۔ ہم کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے کہ ٹیم کے لیے کچھ بھی باقی رہ جائے۔


اڈیشہ کو لگاتار مرد ہاکی عالمی کپ کی میزبانی کا فخر حاصل ہوا ہے۔ 2018 والے کردار میں کتنی بہتری کی امید دیکھتے ہیں؟

راؤرکیلا میں نیا جدید ہاکی اسٹیڈیم بڑی دستیابی ہے۔ پہلی بار بہت کچھ نیا ہوگا۔ ایک ہاکی گاؤں، کثیر مقاصد کھیل گاؤں، کھلاڑیوں و ٹیموں کے لیے مزید بہت کچھ۔ جب آپ بیک ٹو بیک عالمی کپ کی میزبانی کر رہے ہیں تو امید ہے کہ بطور میزبان ہم پہلے سے کہیں زیادہ بہتر اور یادگار مظاہرہ کریں گے۔

بطور اڈیشہ کے سب سے بڑے ایمبیسڈر میں سے ایک، آپ اس شو کا چہرہ بن چکے ہیں، اس کا کچھ الگ اثر بھی تو ہوگا ترکی پر؟

مجھے نہیں لگتا کہ اس کا کوئی اضافی دباؤ ہے۔ میں اپنے کھیل کے دنوں میں ٹیم وَرک پر بہت بھروسہ کرتا تھا اور آج ہمارے پاس ایک کور ٹیم ہے جس کے پاس سرفہرست بین الاقوامی ہاکی مقابلوں کے انعقاد کا بہترین تجربہ ہے۔ سبھی نے گزشتہ کچھ ماہ میں جس طرح کام کیا ہے، اسے لے کر ہم پرامید اور پرجوش ہیں۔ حصہ لینے والی ٹیموں کے لیے جیسی تیاری ہے، وہ ٹیم ورک کے بغیر ممکن نہیں تھا۔


آئندہ پانچ یا دس سال کے لیے ہاکی انڈیا کا کیا منصوبہ ہے؟

قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں منصوبے ساتھ ساتھ چلنے چاہئیں۔ 2023 ایشیائی کھیلوں کی تیاری کرنے والی ہماری ٹیموں کے ساتھ 2023 ہمارے لیے بہت مصروفیت بھرا سال ہوگا کیونکہ 2024 میں پیرس اولمپک بھی ہونا ہے۔ ہماری تیاری جونیئر عالمی کپ کے لیے بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ گھریلو کوچوں کی بہتر تعلیمی امداد پر بھی توجہ ہے، تاکہ بین الاقوامی پیمانوں کے مطابق امپائرنگ کے راستے بھی آسان ہو سکیں۔

اتنے سارے معروف کھلاڑیوں کے ایڈمنسٹریشن میں آنے سے آپ کو لگتا ہے کہ وہ منتظم کے طور پر بہتر کام کر سکتے ہیں؟

میں یہاں کسی طرح کے موازنہ میں نہیں پڑنا چاہتا، لیکن اتنا تو ہے ہی کہ سابق کھلاڑی یقینی طور پر کسی بھی خاص موقع پر، کسی تکنیکی معاملے پر مشورہ تو دے ہی سکتے ہیں۔ ہاکی انڈیا میں سینئر اور جونیئر ٹیموں کے ساتھ ساتھ گھریلو انعقادات کے مستقل کیلنڈر کے لیے پہلے سے ہی بہتر انتظام ہے۔ میری دلچسپی اب زمینی سطح کا ڈھانچہ مزید مضبوط کرنے اور انڈر-17 والے کھلاڑیوں کا ایک مضبوط پول بنانے میں ہے جنھیں اس شعبہ میں اپنا کیریر بنانے کے لیے مناسب مدد دی جاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔