سیاسی ایجنڈے کے تحت رقم کردہ تاریخ ماضی کا غلط نقشہ پیش کرے گی: اوپندر سنگھ

پروفیسر اوپِندر سنگھ
پروفیسر اوپِندر سنگھ
user

روہت پرکاش

دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر اور مشہور و معروف مورخ پروفیسر اوپندر سنگھ کی نئی کتاب ’پالیٹیکل وائلنس ان اینسینٹ انڈیا‘ موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے قدیم ہندوستانی گرنتھوں میں سیاسی تشدد سے متعلق موجود ہ خیالات کا تذکرہ کیا ہے جو ہمارے پرتشدد حال کو سمجھنے کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ پیش ہیں اس کتاب اور اس کے مرکزی پہلو یعنی سیاسی تشدد سے منسلک سوالوں پر روہت پرکاش سے ہوئی ان کی بات چیت کے اہم اقتباسات:

اپنی نئی کتاب کے لیے تحقیق کرنے اور اسے لکھنے میں آپ کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا؟

میری کتاب 1200 سالوں (قبل مسیح 600 سے 600 عیسوی) کی تاریخ پر مبنی ہے اور مہابھارت، رامائن، ارتھ شاستر، منوسمرتی جیسے گرنتھوں کے علاوہ ’بھاس کالی داس‘ اور وِشاکھ دَت کی تصنیفات پنچ تنتر، بودھ اور جین مذہب سے جڑے گرنتھوں کا تذکرہ کرتی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ اس دور کے کتبوں، سکوں اور تصاویر کا بھی تجزیہ کرتی ہے۔ میں سیاسی تشدد کے ہندوستانی نظریات کا موازنہ گریس، فارس اور چین جیسے دنیا کے دوسرے حصوں میں موجود نظریات سے بھی کی ہےاور میں نے اس بات پر توجہ دی ہے کہ کس طرح ہندوستانی نظریات دنیا کے دوسرے حصوں تک پہنچے۔ ان سب کا مطالعہ کرنا کافی مشکل بھر ارہا اور ان میں کافی وقت لگا۔ شروع سے آخر تک اس کتاب کو پورا کرنے میں مجھے 8 سال لگ گئے۔

آپ اپنی کتاب میں کہتی ہیں کہ قدیم ہندوستانیوں کا تشدد سے پاک ہونا ایک متھ ہے۔ آخر یہ متھ کس طرح بنا؟ کیا صرف مہاتما گاندھی کی تشہیر کی وجہ سے ایسا ہوا یا کوئی اور بات ہے؟

گاندھی اور نہرو قومی تحریک کا حصہ رہے جس میں عدم تشدد مرکزی عنصر تھا۔ گاندھی کا نجی اور سیاسی طور پر عدم تشدد میں بہت بھروسہ تھا۔ نہرو نے ہندوستانی اور عالمی تاریخ کے بارے میں کافی لکھا اور وہ اشوک اور بدھ جیسی شخصیات کو کافی پسند کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندوستانی تاریخ میں کئی طرح کی سماجی نابرابری اور ٹکراؤ رہے ہیں، لیکن ان کا یقین تھا کہ اس کے باوجود بھی خیر سگالی اور برداشت کا ایک خاص عنصر رہا ہے۔ ہندوستان کے متعلق نہرو-گاندھی کا نظریہ اور گاندھی وادی راشٹرواد کی امن پسند بنیاد کا ایک امن پسند قدیم ہندوستان کے متھ کو تیار کرنے میں اہم کردار رہا۔ اس سے پہلے ایک اور متھ یہ پھیلا ہوا تھا کہ ہندوستانی عموماً مذہبی ہوتے ہیں۔ کچھ حد تک اس سوچ نے بھی امن پسند قدیم ہندوستان کی متھ کو مضبوطی عطا کی۔


کتاب میں آپ نے بتایا ہے کہ امن میں یقین رکھنے والے مذہب (جین اور بودھ) بھی مانتے تھے کہ سیاست میں مکمل امن ممکن نہیں ہے۔ کیا گاندھی کے طریقہ کار میں بھی یہ روش نظر نہیں آ رہی تھی، خصوصاً 22-1921 کے عدم تعاون تحریک اور 1942 کے ہندوستان چھوڑو تحریک کے ضمن میں؟

اخلاقیات اور سیاست کے درمیان ہمیشہ ایک کشیدگی بنی رہی ہے اور یہ کشیدگی الگ الگ طرح سے الگ الگ دور میں نظر آئی ہے۔ ایک طرف تشدد کے مسئلہ کے تئیں ہندوستانی سوچ میں ایک مضبوط جذبہ رہا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی مانا گیا ہے کہ اصل دنیا میں مکمل امن ممکن نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بودھ اور جین مذہب نے اسے قبول کر لیا تھا۔ شاید گاندھی اسے قبول نہیں کرنا چاہتے تھے۔

سیاسی ایجنڈے کے تحت رقم کردہ تاریخ ماضی کا غلط نقشہ پیش کرے گی: اوپندر سنگھ

آپ کا کہنا ہے کہ اشوک کی امن پسندی کی ایک حد تھی۔ جنگ کے خلاف سخت بیان دیتے ہوئے بھی وہ ان قبائلیوں کو یہ تنبیہ دیتے ہیں کہ ان کے خلاف تشدد کے لیے وہ تیار ہیں۔ یہ واقعہ شہنشاہیت کی حدوں سے متعلق بھی ایک اشارہ ہے؟ اور اس ضمن میں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گاندھی برسراقتدار نہیں تھے اس لیے تشدد کے خلاف اپنی عادات و اطوار میں وہ زیادہ مضبوط نظر آتے ہیں؟

دنیا کی تاریخ میں ایسا کوئی حکمراں نہیں رہا جس نے امن کی اچھائیوں اور خصوصیات کے بارے میں 2000 سال پہلے اشوک جیسی ایمانداری اور جوش کے ساتھ بات کی ہو۔ جنگ سے ہونے والی تباہی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی وہ جنگلوں میں رہنے والوں کو سختی کے ساتھ متنبہ کرتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ انھیں یہ محسوس ہو چکا تھا کہ ایک راجہ کے لیے پوری طرح سے امن پسند رہنا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اشوک کا بھلے ہی امن میں یقین ہو، لیکن انھوں نے سزائے موت کو ختم نہیں کیا تھا۔ شاید گاندھی اگر حکمراں ہوتے تو انھیں بھی امن کے معاملے میں سمجھوتہ کرنا پڑتا۔

آپ ’پنچ تنتر‘ کی کہانیوں میں تشدد کے نظریات پر بھی بحث کرتی ہیں۔ آپ نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیوں لیا؟ اس نے کس طرح سے آپ کی تحقیق میں مدد پہنچائی؟

قدیم ہندوستان نے صرف مذہبی صحیفوں کو ہی منظر عام پر نہیں لایا۔ ’پنچ تنتر‘ بہت ہی اثردار اور دلچسپ تخلیق ہے۔ اس کی کہانیاں پورے ایشیا اور یورپ تک پہنچی ہیں۔ ’پنچ تنتر‘ خود کو ایک سیاسی تخلیق مانتا ہے، اس لیے مجھے اس کو بھی مدنظر رکھنا تھا۔ شیر، گیدڑ، بندر، پنچھی، کیڑوں وغیرہ کے بارے میں کہانیاں ہیں اور اس کی کئی کہانیاں اصل میں بے وقوف راجاؤں اور درباریوں کے بارے میں ہیں۔ وہ کہانیاں بہت دلچسپ ہیں، لیکن ان میں سے کئی واقعی میں بہت تشدد آمیز ہیں۔ دشمن کو کس طرح مارا جائے اور مرنے سے کیسے بچا جائے، وہ ان چیزوں کی باتیں کرتی ہیں۔ یہ صلاح بھی دیتی ہیں کہ ایک مشکل دنیا میں کس طرح زندگی بسر کیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔ ’پنچ تنتر‘ کا سیاسی نظریہ کئی معنوں میں معاشیات کے نظریہ جیسا ہی ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی اخلاقیات اور مذہب جیسی چیزوں کو لے کر پریشان نہیں ہے۔

ماضی سے جڑے تشدد کو ، یہ سیاسی نظریات کس طرح ہماری موجودہ سمجھ کو مدد پہنچا سکتے ہیں؟ ذات، مذہب اور علاقائیت کے نام پر ہونے والے تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے، کیا آپ اسے جدید جمہوریت کا نتیجہ مانتی ہیں، یا اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے؟

میرا ماننا ہے کہ ہر دور میں اور دنیا کے ہر حصے میں تشدد کے عنصر موجود رہے ہیں، لیکن اس کے طور طریقے، شکل اور رفتار بدلتی رہی ہے۔ آج جو ہم اپنے چاروں طرف زیادہ تر تشدد دیکھ رہے ہیں (اور یہ بہت زیادہ ہے)، وہ سیاسی ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہے، چاہے وہ قومی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر۔ ہم جو چیز ماضی سے سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ سیاست اور تشدد آپس میں ہمیشہ سے جڑی رہی ہے، برسراقتدار لوگ ہمیشہ سے اپنے تشدد کو صحیح ٹھہراتے رہے ہیں، اور لوگوں کو ہمیشہ اس پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔

ایک انٹرویو میں آپ نے کہا ہے کہ سیاسی لیڈروں کے سیاسی ایجنڈے، اور وہ کس طرح ہندوستان کی قدیم تاریخ کو دیکھتے ہیں، ان دونوں میں ایک نزدیکی رشتہ ہے۔ ہندو رائٹ وِنگ اور قدیم و قبل از وسط ہندوستانی تاریخ میں سیاسی تشدد سے متعلق ان کی سوچ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

اس سلسلے میں واضح طور پر بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی ایجنڈے کے تحت لکھی گئی تاریخ ہمیشہ ماضی کو توڑ مروڑ کر پیش کرے گی۔

آپ نے لکھا ہے کہ مہابھارت میں جنگ کو لے کر کئی طرح کے رد عمل ہیں، اس کو صحیح ٹھہرانے سے لے کر غم منانے تک۔ پرتشدد ہوتے ہوئے بھی یہ کہتا ہے کہ امن سب سے اعلیٰ مذہب ہے۔ آپ اس کی تشریح کس طرح کرتی ہیں؟

یہ اصول اور روش کا سوال ہے۔ اخلاقی اقدار اور اقتدار پر مبنی سیاست کا سوال ہے۔ قدیم ہندوستانی فلسفیوں کے ایک گروپ نے یہ مانا تھا کہ امن ایک مثبت اصول ہے، لیکن انھیں یہ بھی لگتا تھا کہ راجہ کو حکمرانی کرنے کے لیے ایک ممکنہ حد تک تشدد پسند ہونا چاہیے۔ مہابھارت میں اس کے بارے میں کافی بات کی گئی ہے۔ جائز اور ناجائز تشدد کے درمیان ہم کس طرح ایک لکیر کھینچ سکتے ہیں؟ قدیم ہندوستانی فلسفیوں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے کا فی جدوجہد کی۔ لیکن کیا امن کو آج کے سیاسی لیڈروں کے ذریعہ ’پرم دھرم‘ مانا جاتا ہے؟ میں ایسا نہیں مانتی۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی تشدد بڑھتی ہوئی معلوم ہو رہی ہے، اور اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ گہرائی سے اس مسئلہ پر غور و خوض کرتے ہوئے نظر نہیں آ رہے، نہ ہی وہ اس شئے سے اثرانداز طریقے سے نمٹتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔