انٹرویو: ڈوسو صدر رونک کھتری کی پانی سے پی ایچ ڈی تک کی جدوجہد اور کیمپس سیاست پر بے باک گفتگو
ڈوسو صدر رونک کھتری نے دہلی یونیورسٹی میں پینے کے پانی، سکیورٹی کیمروں، پی ایچ ڈی میں دھاندلی، اور نئی تعلیمی پالیسی پر شدید موقف اپنایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ آر ایس ایس کی مداخلت بڑھ رہی ہے

تصویر بشکریہ ایکس
گزشتہ سال نومبر میں دہلی یونیورسٹی طلبہ یونین (ڈوسو) کے صدر منتخب ہونے کے بعد رونک کھتری خبروں میں مسلسل رہے ہیں۔ جب وہ کالج کے پرنسپل کے دفتر کی دیوار پر گوبر نہیں لگا رہے ہوتے، تب بھی انہیں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے سے بحث کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا سوال ہوتا ہے کہ ہزاروں طلبہ کے لیے صرف چند کلرک کیوں؟ پورے کالج میں صرف ایک کمپیوٹر کیوں؟ کیمپس میں انہیں 'مٹکا مین' کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ وہ مٹکوں کے ساتھ احتجاج کی قیادت کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ انہوں نے ڈوسو دفتر میں کچھ طلبہ کے ساتھ راہل گاندھی سے ملاقات بھی کی۔ امتحانات کے دوران مصروف ہونے کے باوجود انہوں نے نیشنل ہیرالڈ کے لیے وشودیپک سے بات کے لیے وقت نکالا۔ پیش ہیں ان سے گفتگو کے اہم نکات:
آپ پچھلے سات آٹھ برسوں میں این ایس یو آئی کے پہلے ڈوسو صدر ہیں، آپ کا ایجنڈا کیا رہا ہے؟
صدر منتخب ہونے کے بعد میرا پہلا قدم طلبہ کی اصل مشکلات کو سمجھنا تھا۔ ہم نے ایک سروے کرایا جس سے پتہ چلا کہ سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کی کمی ہے۔ ہم نے انتخابی مہم میں اسے اٹھایا تھا۔ سروے سے ہمیں اعتماد ملا کہ ہم اس مسئلے کو انتظامیہ تک لے جائیں۔ ہم نے ڈیٹا جمع کیا، رپورٹ تیار کی اور یونیورسٹی کو پیش کی۔ انتظامیہ کا ردعمل حوصلہ افزا تھا۔ تمام 90 کالجوں میں واٹر کولر لگانے کے احکامات جاری کیے گئے۔ اب تک تقریباً 350 کولر لگ چکے ہیں یا نصب کیے جا رہے ہیں۔
آپ طلبہ کے لیے اور کیا کر سکے ہیں؟
پانی کا مسئلہ حل کرنے کے بعد ہم نے کیمپس میں سی سی ٹی وی کیمروں پر توجہ دی۔ جب پورا شہر کیمروں سے بھر چکا ہے تو کیمپس اس سے محروم کیوں ہو؟ طلبہ کو ہراساں کیے جانے، جھگڑوں اور باہر سے آئے افراد کی دخل اندازی کو روکنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ تین ماہ کے اندر ٹینڈر جاری ہوا اور پہلے مرحلے میں 700 کیمرے لگائے جا رہے ہیں۔ ہم نے میٹرو اسٹیشن سے کالجوں تک مفت بس سروس کی بھی مانگ کی۔ شمالی اور جنوبی کیمپس کے لیے دو بسوں کی منظوری مل چکی ہے۔
ساتھ ہی، ہم طلبہ کے لیے میٹرو کرائے میں رعایت کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ پرانا مطالبہ ہے۔ ہم نے اے بی وی پی اور دہلی کی وزیر اعلیٰ کو ان کے وعدے یاد دلائے۔ چونکہ دہلی اور مرکز دونوں جگہ بی جے پی کی حکومت ہے، تو یہ وعدہ پورا کرنا اب اور بھی آسان ہونا چاہئے۔
پی ایچ ڈی دھاندلی کے متعلق آپ نے آواز اٹھائی، وہ معاملہ کیا تھا؟
پی ایچ ڈی اسکالرز نے شکایت کی تھی کہ دہلی یونیورسٹی نے یو جی سی اصولوں کے خلاف پی ایچ ڈی میں انٹرویو کو غیر ضروری اہمیت دے دی ہے۔ تحریری امتحان کے مقابلے میں انٹرویو زیادہ وزن رکھتا ہے، جس سے سفارش والے لوگ فائدے میں رہتے ہیں۔ یہ عمل شفاف نہیں تھا، نہ ہی طلبہ کو تحریری نمبر دکھائے جاتے تھے۔ میں نے یہ معاملہ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے سامنے اٹھایا۔
راہل گاندھی سے ہوئی ملاقات کے بارے میں مزید بتائیں؟ کیا صرف ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی طلبہ کو بلایا گیا تھا؟
نہیں، عام طبقے کے طلبہ بھی مدعو تھے۔ تقریباً 25 طلبہ نے راہل گاندھی سے ملاقات کی۔ تمام طلبہ مسائل پر گفتگو ہوئی۔ راہل جی نے سب کو توجہ سے سنا اور پارلیمنٹ میں مسئلہ اٹھانے کی یقین دہانی کرائی۔ طلبہ نے نئی تعلیمی پالیسی (این ای پی)، پی ایچ ڈی دھاندلی اور دلت و او بی سی طلبہ کے ساتھ منظم امتیاز پر بات کی۔ راہل جی نے مانسون اجلاس سے پہلے مکمل رپورٹ مانگی ہے۔
این ای پی پر کن نکات پر گفتگو ہوئی؟
طلبہ کی رائے تھی کہ نئی تعلیمی پالیسی طلبہ دشمن ہے۔ یہ انتظامیہ کو اتنی طاقت دیتی ہے کہ اساتذہ کی نگرانی کے بہانے طلبہ کو جان بوجھ کر ناکام کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے بتایا کہ یہ پالیسی غیر شفاف ہے اور طلبہ کی تعلیم پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
ملاقات کے دوران راہل گاندھی نے تسلیم کیا کہ دہلی یونیورسٹی یو جی سی کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ تحریری امتحان کے 70 اور انٹرویو کے 30 نمبر کی تقسیم کا لحاظ نہیں رکھا جا رہا۔ صرف انٹرویو کے نمبر بتائے جاتے ہیں، تحریری نمبر خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ یہ سراسر ناانصافی ہے۔
چونکہ یہ مسائل سیاسی اختلاف سے بالاتر ہیں، کیا آپ کو اے بی وی پی کا تعاون ملا؟
ہرگز نہیں۔ اے بی وی پی اکثر طلبہ مخالف پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے اور انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کرتی ہے۔ ان سے کوئی مدد نہیں ملی۔
کیا یہ تنازع اساتذہ کی تقرری سے بھی جڑا ہے؟ آر ایس ایس سے وابستہ افراد کو -ترجیح دینے کے الزامات پر آپ کا کیا کہنا ہے؟
یونیورسٹی میں سب جانتے ہیں کہ اب دہلی یونیورسٹی میں آر ایس ایس کا اثر و رسوخ بڑھ چکا ہے۔ سابق اے بی وی پی ارکان اور آر ایس ایس کارکنوں کو تدریسی عہدے دیے جا رہے ہیں۔ ہر کالج میں یہی صورتحال ہے۔ کچھ پرنسپل تو کھل کر اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سوامی شردھانند کالج کے پرنسپل نے ویڈیو میں خود کو سنگھی کہا ہے اور انہیں سرکاری تحفظ کا یقین ہے۔
آپ پر یہ بھی الزام ہے کہ آپ توجہ چاہتے ہیں اور آپ کو طلبہ کی حمایت کم حاصل ہے؟
ایسی تنقید مجھے متاثر نہیں کرتی۔ سیاست میں تنقید عام بات ہے، کیمپس کے اندر بھی اور باہر بھی۔ اگر ہم تنقید پر توجہ دینے لگیں تو اصل مسائل پر کام نہیں کر پائیں گے۔ میں ہر وقت مسائل اٹھاؤں گا اور ان کے حل کے لیے جدوجہد کروں گا، چاہے کوئی کچھ بھی کہے۔
جے این یو اور ڈی یو اکثر خبروں میں ہوتے ہیں لیکن جے این یو میں بی جے پی کو شکست کیوں ہوتی ہے جبکہ ڈی یو میں ہارنا مشکل ہوتا ہے؟
جے این یو چھوٹا ہے، وہاں تقریباً 8 ہزار طلبہ ہیں، جبکہ دہلی یونیورسٹی میں 7 لاکھ کے قریب طلبہ پڑھتے ہیں۔ اس لیے ڈوسو کو دہلی اسمبلی کا 71واں حلقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں اے بی وی پی کی جڑیں مضبوط ہیں۔ اساتذہ طلبہ کو ان کے حق میں ووٹ دینے پر اکساتے ہیں۔ مگر اس بار ہم نے انہیں شکست دی اور آگے بھی دیتے رہیں گے۔
لیفٹ نظریات کے حامت کنہیا کمار این ایس یو آئی کے انچارج ہیں۔ ان کا کیا اثر رہا ہے؟
ہم نے بہت سی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ نظریاتی محاذ پر جو کمزوریاں ہیں، انہیں دور کیا جا رہا ہے۔ ہم ہر کالج میں اکائیاں بنا رہے ہیں اور قیادت کی صلاحیت رکھنے والے طلبہ کو تیار کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔