جیل سے رہائی کے بعد ڈاکٹر کفیل خان کا پہلا انٹرویو ’جیل کو میرا دوسرا گھر بنا دیا گیا!‘

’’وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے اپیل ہے کہ وہ مجھے ڈاکٹر کے عہدے پر بحال کریں تاکہ میں سیلاب متاثرہ لوگوں اور کورونا کے مریضوں کی مدد کر سکوں اور کورونا ویکسین کی ٹیسٹنگ میں اپنا تعاون دے سکوں‘‘

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

وشو دیپک

وشودیپک

ڈاکٹر کفیل خان کسی تعارف کا محتاج نہیں ہیں، انہیں اترپردیش اسپیشل ٹاسک فورس (یوپی ایس ٹی ایف) نے فروری 2020 میں ممبئی سے سی اے اے - این آر سی مخالف احتجاج میں شریک ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور تقریر کے ذریعے تشدد بھڑکانے کے الزام میں قومی سلامتی قانون کے تحت جیل بھیج دیا تھا۔

یکم ستمبر 2020 کو یوپی کی متھرا جیل میں چھ ماہ گزارنے کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر یوگی حکومت نے ڈاکٹر کفیل خان کو رہا کیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے یوگی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا کہ کفیل کی تقریر میں تشدد کو اکسانے جیسا کچھ نہیں ہے۔

اگرچہ عدالت نے دوپہر سے پہلے ہی رہائی کا حکم دے دیا تھا لیکن رہائی کا پروانہ جیل پہنچتے پہنچتے رات ہو گئی۔ تمام خانہ پری انجام دینے کے بعد ڈاکٹر کفیل خان آدھی رات 12 بجے کے قریب متھرا جیل سے باہر آئے۔ گورکھپور جاتے ہوئے کفیل خان نے ’قومی آواز‘ سے خصوصی طور پر فون پر بات کی، پیش ہیں گفتگو کے اہم اقتباسات:

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی

ڈاکٹر خان پہلا سوال وہی جو کئی دہائیوں سے پوچھا جاتا ہے، الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کے بعد آپ کی رہائی ہوئی، آپ کیسا محسوس کر ہے ہی؟

سب سے پہلے میں ہندوستان کے عدالتی نظام، ملک کے باشندگان، دوستوں اور ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کی وجہ سے مجھے جیل سے رہائی ملی۔ دوسری بات یہ کہ عدالت نے میرے معاملے کو انتہائی تنقیدی نگاہ سے دیکھا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ میری تقریر میں ایسا کچھ نہیں تھا جس سے تشدد بھڑکے، لیکن پھر بھی بی جے پی حکومت نے مجھے گرفتار کیا۔ نہ صرف گرفتار کیا بلکہ این ایس اے جیسے سخت قانون کے تحت بھی مقدمہ درج کیا۔ عدالتی حکم کے بعد یہ ثابت بھی ہو چکا ہے کہ مجھ پر عائد الزامات میں کوئی دم نہیں تھا۔

میں نے اپنی زبان میں کہا تھا کہ سی اے ایس-این آر سی کے خلاف لڑائی ایک طرح سے وجود کی لڑائی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں نے وجود کو ثابت کرنے کے لئے تشدد کے استعمال کی پیروی کی ہے۔


آپ کو جس قومی سلامتی قانون کے تحت جیل میں قید رکھا گیا اسے عدالت عالیہ نے ہٹانے کا حکم دیا ہے، آپ اس قانون کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

دیکھئے، اترپردیش میں اس قانون کو ’تھوک کے بھاؤ‘ عائد کیا جا رہا ہے اور یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ معاملہ سنجیدہ ہے یا نہیں! 100-200 افراد پر ایک ساتھ این ایس اے کے تحت کارروائی کر دی جاتی ہے۔ وزیر اعلی یوگی فرمان جاری کرتے ہیں کہ اتنے لوگوں پر این ایس اے لگا دو اور این ایس عائد ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قانون کو ختم کیا جانا چاہئے کیونکہ این ایس اے اور این ایس اے جیسے قوانین مثلاً پی ایس اے اور افسپا، حکومتوں کے ذریعہ شہری حقوق کو دبانے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ این ایس اے عائد کرکے حکومت کے خلاف بولنے سے روک دیں، یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔

یوپی ایس ٹی ایف کا رویہ آپ کے تئیں کیسا تھا؟

میں یوپی ایس ٹی ایف کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے مجھے زندہ رکھا ورنہ ممبئی سے متھرا تک کا سفر لمبا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ایس ٹی ایف کی گاڑیاں سڑک پر کس طرح پلٹتی ہیں۔ بہرحال ابتدائی طور پر مجھے زد و کوب کیا گیا تھا لیکن بعد میں سب ٹھیک ہو گیا۔


آپ سے کیا سوالات پوچھے گئے؟

یوپی ایس ٹی ایف کے لوگ کئی بار عجیب و غریب سوالات کرتے تھے۔ جیسے وہ مجھ سے پوچھتے تھے کہ آپ جاپان گئے ہیں؟ آپ وہاں کی حکومت گرانا چاہتے تھے؟ شروع میں وہ لوگ مجھ سے کسی پاؤڈر کے بارے میں پوچھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے کوئی پاؤڈر بنا لیا ہے۔ میں نے کہا کوئی پاؤڈر نہیں بنایا تو میں کیا جواب دوں؟ کئی بار ہنسی آتی تھی، کئی بار تکلیف بھی ہوئی۔ میں نے کہا کہ میرا پاسپورٹ جمع ہے، میں بیرون ملک کیسے جاسکتا ہوں۔

آپ کتنے دن جیل میں رہے اور آپ نے جیل میں کیا تجربہ کیا؟

(مسکراتے ہوئے) ایسا لگتا ہے کہ جیل سے تو میرا دل کا رشتہ قائم ہوتا جا رہا ہے۔ یوپی میں بی جے پی کی حکومت بنے وہئے تقریباً ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں۔ اس مدت کار کو یہ لوگ رام راج کے طور پر مشتہر کرتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یوپی میں رام راج کے اسی دور میں تقریباً دو سال جیل میں گزار چکے ہیں اور جیل کو میرا دوسرا گھر بنا دیا گیا ہے۔

جہاں تک جیل میں گزارے گئے دنوں کا تعلق ہے تو میں نے اس بارے میں ایک خط بھی لکھا تھا۔ کورونا کی وبا کے دوران جب لوگوں کو بتایا جارہا ہے کہ سماجی دوری پر عمل کرنا ہے، تو جیل میں خوفناک رش ہے۔ میں جس بیرک میں تھا وہاں 150 افراد تھے۔ ڈیڑھ سو افراد میں صرف ایک ٹوائلٹ تھا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کیا صورتحال رہی ہوگی! کھانے کا معیار اتنا خراب تھا کہ اسے میں بیان بھی نہیں کر سکتا۔

جیل کے اندر ٹی وی پر خبریں دیکھتے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ سارا دن سوشانت قتل کیس چل رہا ہے۔ میں سوچتا تھا کہ شاید باہر کورونا کی وبا ختم ہو گئی ہے؟ نہ معیشت پر کوئی بات، نہ ہی چین کی دراندازی پر اور نہ بے روزگاری پر بحث۔ جیل کے اندر ایسا لگتا تھا کہ ملک کے سامنے صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے سوشانت کے قتل کا معمہ!


اب جب آپ جیل سے رہا ہو چکے ہیں، آپ نے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے؟

ابھی تو فیل الحال میں کچھ وقت اپنے کنبے کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ کئی مہینوں سے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا، وہ اب وہ 11 ماہ کا ہو چکا ہے۔ جب میں جیل گیا تھا تو وہ چل بھی نہیں پاتا تھا، اب تو شاید چلنے بھی لگا ہوگا۔ کچھ وقت اپنے بیٹے اور کنبے کو دینا چاہتا ہوں۔

اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا تعلق آپ کے ضلع سے ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ آپ سے ذاتی طور پر ناراض ہیں۱

میں وزیراعلیٰ سے اپیل کروں گا کہ میری تقرری دوبارہ بی آر ڈی میڈیکل کالج میں کروائیں تاکہ میں لوگوں کی خدمت کر سکوں۔ ڈاکٹری میرا پیشہ اور جنون دونوں ہے۔


آپ شاید جانتے ہوں گے کہ یوپی کانگریس نے آپ کی رہائی کے لئے ایک طویل مہم چلائی ہے۔

جی بالکل، میں پرینکا گاندھی جی، اجے کمار للو جی اور اقلیتی سیل کے چیئرمین شاہنواز بھائی کا دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ کانگریس پارٹی کے علاوہ سماج وادی پارٹی اور بی اسی پی نے بھی میری رہائی کے لئے ، انصاف کے حق میں آواز اٹھائی، میں ان تمام لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

آپ بہت سیاسی طور پر باشعور ہیں۔ کیا آپ سیاست میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اگر ہاں تو کب تک؟

اگر آپ کو سسٹم کی برائیوں کو دور کرنا ہے تو آپ کو سسٹم میں اترنا ہوگا۔ یہ میرا جواب ہے۔ کب تک کے بارے میں ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Sep 2020, 10:10 AM