حکومت بدلتے ہی ونود رائے کو کیوں نوازا گیا: سونیا

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ممبئی میں ہوئے ’انڈیا ٹوڈے کنکلیو‘ میں انڈیا ٹوڈے کے مدیر اعلیٰ ارون پوری کے ساتھ انٹرویو میں یو پی اے کی چیئرپرسن اور کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے اپنی زندگی سے لے کر سیاست تک مختلف شعبوں اور موضوعات پر کھل کر گفتگو کی۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اہم اقتباسات...

کانگریس کی صدارت چھوڑنے کے بعد کیسا محسوس کر رہی ہیں؟ آپ خوش ہیں، آپ سکون محسوس کر رہی ہیں یا تھوڑا نروس ہیں؟

حقیقت میں مجھے بہت سکون محسوس ہو رہا ہے کیونکہ میرے کندھوں سے بہت وزن ہٹ گیا ہے۔ میرے پاس اب ان کاموں کو کرنے کے لئے زیادہ وقت ہے جو میں پہلے نہیں کر پائی۔ کتابیں پڑھنے، پکچر دیکھنے کے لیے میرے پاس اب زیادہ وقت ہے۔ اپنی ساس، اپنے شوہر اور بیٹے کے پرانے کاغذات کو میں ڈیجیٹلائزڈ کر رہی ہوں۔ یہ وہ خط ہیں جو میری ساس اپنے بیٹے یعنی میرے شوہر کو لکھتی تھیں جب وہ اسکول میں تھے اور میرے شوہر کے جواب۔

تو کیا آپ سیاست سے باز رہیں گی کیونکہ آپ 13 تاریخ کو حزب اختلاف کے لئے ایک ڈنر کا اہتمام کر رہی ہیں؟

اب میں پارٹی کی صدر نہیں ہوں، لیکن پارلیمنٹ میں پارٹی کی سربراہ ضرور ہوں۔ راہل اور کچھ ساتھیوں کے ہمراہ ایک بڑی میٹنگ کرنا چاہ رہی ہوں۔ ان ساتھیوں کو ہم خیال پارٹی کہتے ہیں۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا ہم مل کر کام کرسکتے ہیں۔ ماضی میں ہم نے مل کر کام کیا ہے۔ راجیہ سبھا میں کافی رابطہ ہے۔


کیا آپ پر امید ہیں کہ جو پارٹیاں آپس میں شدت کے ساتھ لڑتی ہیں وہ ایک ساتھ آ پائیں گی، کیونکہ وہ اب محسوس کرتی ہیں کہ وہ اکیلے بی جے پی سے مقابلہ نہیں  کر سکتیں۔

صحیح ہے کہ ہماری پارٹی سمیت کوئی بھی پارٹی اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس لئے کچھ مدوں پر قومی سطح پر ہمیں ایک ساتھ آنا ہو گا۔ لیکن زمین پر ایک دوسرے کے سیاسی حریف بھی ہیں۔ اس لئے پارٹی پر بہت دباؤہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ مشکل کام ہے لیکن اگر ہم سب، بڑی تصویر پر غور کریں اور اگر ہم حقیقت میں ملک کے بارے میں سوچیں تو ہم مقامی اختلافات کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔

کانگریس صدر کے لئے آپ کا کیا مشورہ ہے؟

وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں اور اگر ضرور ت پڑتی ہے تو میں مشورہ دینے کے لئے موجود ہوں۔

آپ مشورہ خود سے دیتی ہیں یا جب وہ پوچھتے ہیں تب دیتی ہیں؟

یہ دونوں طرح سے ہوسکتا ہے۔

میرے بچے میری نہیں سنتے کیا وہ آپ کی سنتے ہیں؟

میں کوشش کرتی ہوں کے خود آگے بڑھ کر مشورہ نہ دوں۔ ہم والدین ہمیشہ اپنے بچوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں۔ دانشمندی اسی میں ہے کہ ہمیں ان کو آزادی سے کام کرنے دینا چاہئے۔

اب جب راہل کانگریس کے سب سے بڑے عہدے پر ہیں، تو کیا ان کے کام کرنے کا طریقہ، آپ سے جدا ہے یا کچھ خاص مدوں پر اختلاف رائے بھی ہوتی ہے۔

ہر شخص اور پارٹی رہنما کا کام کرنے کا اپنا منفرد طریقہ ہوتاہے۔ اس لئے ان کا اپنا اسٹائل ہے میرا اپنا اسٹائل ہے۔

تو دونوں کے اسٹائل میں کیا فرق ہے؟

کانگریس پارٹی کی کچھ پالیسیاں ہیں کسی نظریہ پر یقین رکھتی ہے۔ راہل کی جو سب سے بڑی خواہش  ہے وہ یہ کہ پارٹی کو کس طرح طاقتور بنایا جائے۔ وہ چاہتےہیں کے پارٹی میں نوجوان نسل آگے آئے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ بزرگوں کو نظر اندز کیا جائے۔ وہ پارٹی میں نوجوانوں اور سینئر کا توازن بنانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان اب نوجوانوں کا ملک ہے اور میں ان سے اس پر اتفاق کرتی ہوں۔ یہ آسان کام نہیں ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اس کو کر لیں گے۔

کہا جاتا رہا ہے کہ آپ سینئرس کے حق میں تھیں اور وہ نوجوانوں کے حق میں، تو اس کو لے کر کوئی تناؤ ہوتا تھا؟

وہ نوجوان نسل کو چاہتے ہیں۔ اگر آپ نوجوان نسل کو نہیں لائیں گے تو پھر آپ کی پارٹی کیسے آگے بڑھے گی۔ یہی ان کی دلیل ہے اور یہ بالکل جائز دلیل ہے۔ دوسری جانب پارٹی کے سینئر ہیں جوسوچتے ہیں کہ پوری زندگی پارٹی کے لئے جدو جہد کرتے رہے ہیں تو اب ہمارا کیا ہوگا۔ ابھی جو حال ہی میں ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا، اس میں راہل نے بہت واضح الفاظ میں کہا کہ پارٹی میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہونا چاہئے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سینئرس کونظر انداز کر دیا جائے، جنہوں نے پارٹی کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہ ہونے کی وجہ سے ہی شاید ہم 2014 میں ویسی ’مارکیٹنگ‘ نہیں کر پائے جیسی کہ بی جے پی اور نریندر مودی نے کی۔ یہ ایک چیلنج ہے لیکن مجھے بھروسہ ہے کہ اس مرتبہ ہم اس کا مقابلہ کر پائیں گے۔

2014 کی شکست سے آپ نے کیا اخذ کیا؟

2014 کی شکست سےبہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ کانگریس کو لوگوں سے جڑنے کے لیے نئے طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ اپنے پروگرام اور پالیسیوں کو نئے طریقے سے لوگوں کے سامنے رکھنا ہوگا۔ ہاں، بی جے پی نے بہت سارے منصوبے بنائے ہیں لیکن ہمیں بھی کچھ نیا کرنا ہوگا۔

2014 میں بدعنوانی کا ایشو جس طرح اٹھایا گیا کیا وہ صحیح تھا؟

یہ کچھ حد تک درست ہے، لیکن اسے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ 2جی کیس میں آپ نے دیکھا کہ آخر عدالت نے کیا فیصلہ سنایا۔ ہماری حکومت کے دور میں جو سی اے جی تھے، انھوں نے ایک بہت ہی بڑے نمبر کو سامنے رکھا جو سچ نہیں تھا۔ لوگ اب حقیقت سے واقف ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آخرسی اے جی کو حکومت بدلتے ہی ایک اچھی ملازمت کیوں دے دی گئی۔ سی اے جی نے ہی گجرات حکومت کے ذریعہ او این جی سی کے ہزاروں کروڑ روپے کے فنڈ کے غلط استعمال کی رپورٹ دی تھی، لیکن کوئی اس کی بات نہیں کر رہا ہے۔ ہم نے اس ایشو کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کی کوشش کی، لیکن ہمیں بولنے نہیں دیا جاتا ہے۔

پارلیمنٹ میں کانگریس ہنگامہ کیوں برپا کرتی ہے؟

ہمیں پارلیمنٹ میں مجبوراً ہنگامہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ مناسب نہیں ہے، لیکن ہمارے پاس دوسرا راستہ نہیں ہے۔ جب بھی ہم کوئی اہم ایشو اٹھاتے ہیں، ہماری آواز دبا دی جاتی ہے۔ ہم پارلیمنٹ کے ہر ضابطے پر عمل کرتے ہیں لیکن حکومت ہماری نہیں سنتی۔ اگر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوگی تو پھر کہاں ہوگی۔ اس سے اچھا تو اسے بند کر دو۔ اس حکومت میں پارلیمانی ضابطوں پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔

اٹل بہاری واجپئی اور نریندر مودی میں کیا فرق دیکھتی ہیں؟

ہم واجپئی جی کی بہت عزت کرتے ہیں۔ ان کے دور اقتدار میں بھی نااتفاقیاں ہوتی تھیں لیکن ہم ہمیشہ ایک سمجھوتے پر پہنچتے تھے۔ واجپئی جی کے دور میں بھی ہم اپوزیشن میں تھے لیکن اس وقت ہمارا توازن بہت اچھا تھا۔ دونوں طرف سے پردے کے پیچھے بات چیت ہوتی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب تو حالات یہ ہیں کہ بی جے پی کی معاون ٹی ڈی پی، شیو سینا جیسی پارٹیاں بھی حکومت کے خلاف ویل میں اترجاتی ہیں۔

2019 کے انتخابات میں آپ عوام میں کون سا ایشو لے کر جائیں گی؟

2019 میں سب سے بڑا ایشو ہوگا ’بی جے پی کا وعدہ‘۔ حکومت نےلوگوں سے سنہرے وعدے کیے، سنہرے خواب دکھائے، لیکن ان میں سے کسی کو بھی پورا نہیں کیا۔ انھوں نے روزگار کے خواب دکھائے، 15 لاکھ روپے کے خواب دکھائے، لیکن کچھ بھی پورا نہیں کیا۔ اس وقت لوگ ان سے ناراض ہیں اور ان کا غصہ سامنے آ رہا ہے۔ بی جے پی کے ’اچھے دن‘ کا حال بھی 2004 کے ’شائننگ انڈیا‘ جیسا ہوگا۔

نریندر مودی کو آپ کیا صلاح دینا پسند کریں گی؟

کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ مجھ سے صلاح لیں گے۔ میں انھیں کوئی صلاح نہیں دوں گی، کیونکہ ان کے پاس ایسے لوگ ہیں جو انھیں صلاح دیتے ہوں گے لیکن کیا وہ اسے سنتے ہیں۔ وہ وزیر اعظم ہیں، انھیں کوئی کیا صلاح دے گا۔ مجھےلگتا ہے کہ وہ کسی کی صلاح نہیں لیتے ہیں۔

کیا پرینکا سیاست میں آئیں گی؟

یہ فیصلہ پوری طرح پرینکا کا ہوگا۔ پرینکا ہمیشہ میری انتخابی تیاریوں کو دیکھتی رہی ہیں اور پچھلی بار انھوں نے راہل کا انتخاب بھی سنبھالا۔ ابھی ان کے بچوں کا امتحان ہو رہا ہے۔ میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی۔

ہندوستانی معیشت کے معاملے پر کانگریس کی کیا سوچ ہے؟

ایک کانگریسی ہونے کے ناطے مانتی ہوں کہ ترقی ضروری ہے، لیکن اس ترقی کا فائدہ غریبوں کو ہونا چاہیے۔ اگر ہم لوگوں کا دھیان نہیں رکھیں گے تو سماجی دقتیں ہوں گی، لوگوں میں غصہ بڑھے گا۔ ایسے میں ایک توازن بنا کر ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔

’میکسیمم گورننس‘ اور ’منیمم گورنمنٹ‘ پر آپ کا نظریہ؟

میں توازن کو مانتی ہوں۔ دونوں میں توازن ہونا ضروری ہے۔

2019 انتخابات میں آپ کا نعرہ کیا ہوگا؟

میں نعروں، جھوٹے وعدوں اور جملوں پر یقین نہیں کرتی۔ ہم ایسا کوئی وعدہ نہیں کریں گے جو ہم پورا نہ کر پائیں۔ لیکن آج کی برسراقتدارپارٹی خوب جھوٹے وعدے کر رہی ہے اور لگاتارکر رہی ہے۔

راہل کے ’ٹیمپل رَن‘ اور کانگریس کے ’نرم ہندوتوا‘ کے بارے میں کچھ بتائیں۔

بی جے پی نے کانگریس کو ایک مسلم پارٹی کے طور پر پیش کیا ہے۔ کانگریس پارٹی میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد ہے اور بہت سارے مسلم لیڈران بھی ہیں۔ میں خود ہمیشہ مندروں میں جاتی رہی ہوں۔ جب بھی راجیو کے ساتھ جاتی تھی تو کم از کم ایک مندر میں ضرور جاتی تھی۔ لیکن اسے کبھی ہم نے مشتہر نہیں کیا۔

2019 انتخابات کا نتیجہ کیا ہوگا؟

ہم واپس آئیں گے اور انھیں واپس نہیں آنے دیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Mar 2018, 7:54 PM