کانگریس میں بڑی تبدیلیاں ہونگی: راہل —(انٹرویو)

کانگریس صدر بننے کے بعد راہل گاندھی نے اپنے پہلے انٹرویومیں مستقبل کی پالیسیوں اور ملک کے سامنے موجود چیلنجز کےساتھ ساتھ گجرات انتخابات کے بارے میں کھل کر بات چیت کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نیلابھ مشرا - ظفر آغا

نیلابھ مشرا: ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ آپ نے کانگریس صدرمنتخب کیے جانے کے بعد کانگریس صدر کی حیثیت سے سب سے پہلے ہم سے بات کی۔ آپ کااستقبال ہے اور آپ کو بہت بہت مبارکباد۔

راہل گاندھی: بہت بہت شکریہ۔

نیلابھ مشرا: تو یہ بتائیں کہ یہاں سے پارٹی کس طرف بڑھےگی؟ کانگریس اور ملک دونوں کے مستقبل کے بارے میں بتائیں۔

راہل گاندھی: مجھے منموہن سنگھ جی کی امید بنام خوف کی سیاست سے متعلق بات بہت اہم لگی۔ یا پھر آپ اسے غصے کی سیاست کہہ سکتے ہیں۔ بی جے پی نے سماج کو تقسیم کر دیا ہے۔ انھوں نے ملک کے لوگوں کے درمیان ایک طرح کی دشمنی پھیلا دی ہے اور میرا ماننا ہے کہ کانگریس کا کردار لوگوں کے درمیان ایک پل کی طرح کام کرنے کی ہے۔ ہمیں ایسا ماحول تیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہم کہہ سکیں کہ ہم سب ہندوستانی ہیں۔ کوئی طبقہ، ذات یا مذہب ہماری شناخت نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہندوستانیت ہماری پہلی پہچان ہے۔ ہندوستانیت کے بعد ہی کسی دوسری شناخت کا نمبرآتا ہے۔ کانگریس اسی نظریہ کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔


ظفر آغا: لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کانگریس کی جمہوریت اور خیرسگالی سے متعلق نظریات پر ہی خطرہ منڈلا رہا ہے۔ لوگوں میں زبردست عدم تحفظ اورخوف کا جذبہ پیدا ہو چکا ہے۔ کیا یہ کانگریس اور ملک دونوں کے لیے مشکل چیلنج نہیں ہے؟

راہل گاندھی: ہاں، ایسا ہی ہے۔ آپ تاریخ میں جھانکیں گے تومحسوس کریں گے کہ ایسا ہوتا رہا ہے۔ 90 کی دہائی میں بھی ہم نے اسی طرح کی پولرائزیشن دیکھی تھی۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ بنیادی طور پر یہ ملک متحد ہے۔ لوگ بہت شدت کے ساتھ محبت اور خیر سگالی میں یقین کرتے ہیں۔ یہ ملک نفرت میں قطعی یقین نہیں رکھتا۔ یہ ملک نفرت کرنے میں بھروسہ نہیں رکھتا ہے۔ جہاں تک آر ایس ایس اور بی جے پی کا سوال ہے، اس نے کانگریس پارٹی کے خلاف اور اسے بدنام کرنے کے لیے ایک منظم تشہیری مہم چلائی۔ یہ ایک منظم اور سوچی سمجھی تشہیر تھی جو کانگریس لیڈروں، کارکنان، کانگریس کے نظریات اور کانگریس کے ماضی سے متعلق تھی۔ یہ سب میں نے گجرات میں کافی گہرائی سے محسوس کیا کہ کچھ ایسی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں جو پوری طرح سے جھوٹ ہیں۔ مثلاً یہ جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے کہ سردار پٹیل اور جواہر لال نہرو جی کے درمیان اچھا رشتہ نہیں تھا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل گہرے دوست تھے۔ دونوں نے ساتھ ساتھ جیل میں وقت گزارا ہے۔ کچھ ایشوز پر دونوں میں نااتفاقی تھی لیکن بنیادی طور پر وہ دوست تھے۔ علاوہ ازیں سردار پٹیل جی کے توآر ایس ایس کے اس نظریات کے بارے میں کافی منفی خیالات تھے جس کو نریندر مودی جی اختیار کرتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے امریکہ میں کہا تھا اور پھر گجرات میں انتخابی تشہیر کے دوران بھی کہا کہ آج ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ملک کےنوجوانوں کے لیے مناسب روزگار پیدا نہیں کر پا رہے۔ اس سے نوجوانوں میں غصہ بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں انھوں نے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی۔ نوٹ بندی اورگبر سنگھ ٹیکس یعنی جی ایس ٹی نے دراصل ملک کی معیشت کو ‘پنگو’ بنا دیا۔ چھوٹے اورمتوسط درجہ کے کاروباروں اور مشنریوں پر ٹیکس کا زبردست بوجھ پڑا ہے۔ ایسی صورت میں ملک کے لوگوں میں ایک غصے کا جذبہ بھر گیا ہے۔ ملک کو ایسے ماحول سے نکالنے کےلیے بنیادی کام کرنے پڑیں گے۔ اس سے پہلے کہ یہ مسئلہ مزید سنگین ہو جائے اورلوگوں کا غصہ پھوٹنا شروع ہو، اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہی ہوگا۔

ظفر آغا: لوگ کہتے ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی مشترکہ تنظیمی قوت کے سامنے کانگریس کی تنظیمی قوت کمزور ہے۔ آپ اس سے نمٹنے کےلیے کیا منصوبہ تیار کر رہے ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ کانگریس کے سامنے یہ چیلنج ہے؟

راہل گاندھی: دیکھیے، کانگریس کو ابھی بہت کام کرنا ہے۔ بہت سے ایسے نئے لوگ ہیں جنھیں ہمیں آگے لانا ہوگا۔ کانگریس میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے۔ کانگریس کے پاس ایسی صلاحیتیں موجود ہیں، ہمیں ان کی صلاحیت کا استعمال کرنا ہے۔ لیکن یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ کانگریس کے خلاف ایک منصوبہ بند تشہیری مہم چل رہی ہے اور ہم ملک کو کانگریس کا اصلی چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔ آئندہ دنوں میں آپ یہ سب دیکھیں گے۔ آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جنھیں دیکھ کر آپ میں جوش پیدا ہوگا، جنھیں دیکھ کر آپ کہہ سکیں گے کہ ہاں دیکھو، یہ شخص آیا ہے جس کے ساتھ میں جڑنا چاہتا ہوں۔ میں ایسے ہی لوگوں کے ساتھ جڑنا چاہتا ہوں جو خاکسار اور مضبوط ارادو ںوالے ہیں۔


ظفر آغا: تو آپ اوپر سے نیچے تک یا نیچے سے اوپر تک کانگریس کو بدلنے والے ہیں!

راہل گاندھی: ہاں، دراصل یہ میرا منصوبہ نہیں ہے۔ یہ کانگریس پارٹی کی خواہش ہے کہ اس میں تبدیلی ہو، اس میں ترقی ہو... میں تو صرف اس میں تعاون کروں گا۔

نیلابھ مشرا: کیا کانگریس اور زیادہ جمہوریت پسند بنے گی؟

راہل گاندھی: جی ہاں، میرا ارادہ یہی ہے۔ ہم نے یوتھ کانگریس اور این ایس یو آئی میں کافی کام کیا ہے، بہت کامیابی کے ساتھ کام کیا ہے۔ ہم پارٹی میں زیادہ سے زیادہ نئے، نوجوان، پرجوش اور توانائی سے بھرپور لوگوں کولانا چاہیں گے۔ لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ پرانے اور تجربہ کار لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

کانگریس پارٹی میں زبردست صلاحیت تھی اور اب بھی ہے۔ آپ موجودہ حکومت کی کابینہ پر نظر دوڑائیے اور اس کا موازنہ یو پی اے حکومت کی کابینہ سے کیجیے۔ صرف تصور کیجیے ان ناموں کی جو اس کابینہ میں تھے۔ کیا منموہن سنگھ جی کا مودی جی سے موازنہ ہو سکتا ہے۔ کہاں چدمبرم جی اور کہاں ارون جیٹلی جی۔ کیا اس حکومت میں کسی کا مقابلہ پرنب دا سے ہو سکتا ہے، یا پھر کسی کا موازنہ انٹونی جی سے ہو سکتا ہے؟ ایسی صورت میں جب آپ اس حکومت کو اور اس کی پالیسیوں کو دیکھیں گےتو پتہ چلے گا کہ ان میں تو کوئی دَم ہی نہیں ہے۔ جب آپ ان کی باتیں سنتے ہیں توخود ہی اندازہ لگ جاتا ہے۔ ذرا ملک کی خارجہ پالیسی پر غور کیجیے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی کیسی حالت ہے۔

نیلابھ مشرا: ہم گجرات کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ گجرات میں بی جے پی لیڈران کانگریس کی تنقید کرتے رہے اور کہا کہ ذات پات کی بنیاد پر جو آوازیں اٹھ رہی تھیں ان کو ساتھ لے کر آئے اور سماج میں ایک تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی۔

راہل گاندھی: عجیب سی بات ہے... ہر سماج کے لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں... الپیش، جگنیش، ہاردک، سب ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ الگ الگ سماج کے لوگ متحد ہیں۔ شروعات میں بی جے پی کہتی ہے کہ ہم او بی سی ایشوز پر یہ انتخاب لڑیں گے، اب یہ تو عجیب بات ہوئی کہ تقسیم کرنے کی بات وہ کرتے ہیں اور پھر ہمارے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم تقسیم کر رہے ہیں۔

ایشو یہ ہے کہ ہاردک ایک پٹیل ہیں، جگنیش ایک دلت ہیں اورالپیش ایک او بی سی ہیں۔ سبھی طبقات کانگریس کے پلیٹ فارم پر متحد ہو چکے ہیں۔ ایسے میں آپ ہم پر ذاتیات کا الزام کیسے لگا سکتے ہیں۔ یہ سب ہمارے اسٹیج پر ایک ساتھ ہیں۔ دوسری طرف پٹیل آپ سے ناراض ہیں، او بی سی آپ سے خفا ہیں اور دلت آپ سےغصہ ہیں... اور آپ کہتے ہیں کہ آپ یہ انتخاب او بی سی ایشو پر لڑیں گے۔ پھر بھی ہمارے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم سماج کو تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ تو بہت ہی تعجب کی بات ہے۔

یہ تو وہی بات ہوئی کہ مہاتما گاندھی، سردار پٹیل جی اورجواہرلال نہرو جی سالوں جیل میں وقت گزارتے ہیں اور ساورکر جی انگریزوں کے سامنےخود سپردگی کا تحریری کاغذ دے دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی کہتی ہے کہ مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل ان کے لیڈر ہیں۔ اگر آپ پٹیل کو پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ آر ایس ایس کے کتنے بڑے مخالف تھے۔ انھوں نے آر ایس ایس پر پابندی عائد کرائی تھی۔ یہ سب ان کی تشہیری مہم کا حصہ ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے، ان کے لیے سچ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔

آپ نے شاید وہ ویڈیو کلپ دیکھا ہوگا جس میں مودی جی بلیٹ ٹرین کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ ٹرین کو اصلیت میں لانا ضروری نہیں ہے، صرف ٹرین کی نمائش کرنا ضروری ہے۔ ان کے لیے سچ کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ حقیقت سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہے۔

ظفر آغا: وزیر اعظم کی جانب سے گجرات کے انتخابات میں کھلکر Hate Politics کی تشہیر ہوئی۔ گجرات کے وقار کے نام پر لوگوں سے ووٹ طلب کیے گئے، مذہب کے نام پر ووٹ طلب کیے گئے۔ آپ اس طرح کی انتخابی تشہیر کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

راہل گاندھی: آپ ان کا تاریخی ریکارڈ اٹھا کر دیکھیے۔ پیارسے تو انھوں نے کبھی کسی کے بارے میں بات کی ہی نہیں۔ آپ ہماری پارٹی کو چھوڑ دیجیے، ان کی ہی پارٹی کو دیکھیے، ہر شئے کے بارے میں نفرت سے بات کرتے ہیں۔ یہ انکی فلاسفی ہے، سالوں سے ان کو یہی سکھایا گیا ہے۔ سابق وزیر اعظم کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ انھوں نے کیا بولا...۔

ظفر آغا: منموہن سنگھ پر یہ الزام کہ پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر سازش کر رہے تھے؟

راہل گاندھی: جس شخص نے اپنی پوری زندگی ہندوستان کو دے دی ہے، 90 کی دہائی میں ہندوستان کی معیشت کو کھڑا کیا ہے، دس سال وزیر اعظم رہے، کیا نہیں دیا انھوں نے... اور ان کے بارے میں ایسا کہا جاتا ہے، آخر کیوں؟ صرف تھوڑے سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے... انتخاب جیتنے کے لیے... یہی تو ان کا طریقہ ہے۔

نیلابھ مشرا: آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ سماج میں تشدد بڑے منظم انداز میں پھیلایا جا رہا ہے۔ آپ نے لنچنگ کا بھی تذکرہ کیا۔ اس تشدد کامقابلہ کرنے کے لیے کیا کانگریس کے پاس اتنے باصلاحیت کارکن بچے ہیں، کیا جگہ جگہ کانگریس کی تنظیم مضبوط ہے، کیا اتنی ہمت آپ کانگریس میں دیکھتے ہیں؟

راہل گاندھی: کانگریس کوئی ٹھہری ہوئی چیز نہیں ہے۔ کانگریس ایک حرکت والی اور جیتی جاگتی پارٹی ہے۔ ہم کانگریس پارٹی کے دروازے کھول دیں گے اور پورے ملک کے نوجوانوں کے لیے ایک متبادل نظریہ پیش کریں گے۔ محبت کا، بھائی چارے کا نظریہ اور ویزن کانگریس پارٹی دے گی۔ ابھی صرف یہ ہے کہ آپ ہندوستان میں غصہ پھیلا سکتے ہیں، ناراضگی پھیلا سکتے ہیں۔ تین سال پہلے لوگوں نے سوچا تھا کہ ٹھیک ہے، آر ایس ایس کے نظریات کی جو خامیاں ہیں ہم اسے برداشت کر لیں گے، مگرشاید ہمارا فائدہ ہوگا۔ لیکن پتہ لگا کہ خامیاں آ گئیں لیکن فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ آپ مجھے بتائیے کہ نوٹ بندی سے کس کو فائدہ ہوا، گبر سنگھ ٹیکس یعنی جی ایس ٹی سے کس کو فائدہ ہوا، جی ڈی پی کو بے حال کر دیا گیا اس سے کس کو فائدہ ہوا؟ آپ 24 گھنٹے میں پورے ملک میں محض 450 لوگوں کو روزگار دیتے ہو اور چین 24 گھنٹے میں 50 ہزار لوگوں کو روزگار دیتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم چین سے مقابلہ کریں گے۔ آپ سال میں ایک لاکھ نوجوان کو بھی روزگار نہیں دے پاتے ہیں اور چین دو دن میں ایک لاکھروزگار دیتا ہے، یہ سب ہندوستانی عوام کو صاف نظر آ رہا ہے۔ کسان کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ انھیں اناج کی مناسب قیمت نہیں مل رہی ہے۔ کسان یہ دیکھ سکتا ہے کہ تین چار لاکھ کروڑ روپے 10-15 لوگوں کے معاف کیے جا رہے ہیں اور جب ہم مانگتے ہیں تو ارون جیٹلی کہتے ہیں کہ بھیّا آپ کا قرض معاف کرنا ہماری پالیسی نہیں ہے۔ یہ سب عوام کو صاف دکھائی دے رہا ہے اور بی جے پی کے خلاف لوگوں میں ناراضگی پیدا ہو رہی ہے۔

کل میں دہلی میں کہیں جا رہا تھا، آٹو والے نے مجھ سے ہاتھ ملایا۔ وہ ہاتھ جوڑ کر کہتا ہے کہ راہل جی آپ ہمیں ان لوگوں سے بچا لو... ان لوگوں نے ہماری زندگی تباہ کر دی۔ ہمیں 50 روپے ملتے تھے پہلے اور اب 25 ملتے ہیں۔ پوراملک اس حالت کو دیکھ رہا ہے... ایک دیوالیہ پن کا عالم ہے۔

نیلابھ مشرا: آپ نے ہمارے لیے وقت نکالا، بہت بہت شکریہ اورایک بار پھر مبارکباد۔

راہل گاندھی: شکریہ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Dec 2017, 10:20 PM
/* */