مسلم پناہ گزین حکومت کے نشانہ پر: کولن گونسالوس

سینئر ایڈوکیٹ کولن گونسالوس کہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کی موجودہ پناہ گزین پالیسی ہندوستانی اور بین اقوامی دونوں قوانین کے خلاف ہے اور مذہب کی بنیاد پر تعصب نہ کئے جانے کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے۔

تصویر نیشنل ہیرالڈ
تصویر نیشنل ہیرالڈ
user

دھیریا ماہیشوری

ایک طرف جہاں ہندوستان میں رہ رہے روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے 11 ستمبر تک جواب طلب کیا ہے وہیں دوسری طرف ریاست جموں و کشمیر کے خطہ جموں میں قیام پزیر روہنگیا مسلمانوں کی طرف سے کولن گونسالوس نےسپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہے۔

پیش ہیں کولن گونسالوس سے ’قومی آواز‘ کی بات چیت کے اہم اقتصابات :

قومی آواز: آپ نے سپریم کورٹ میں جو عرضی داخل کی ہے اس کی بنیاد کیا ہے؟

کولن:مدعا یہ  ہے کہ پناہ گزین کوئی غیر قانونی تارکین وطن نہیں ہیں۔ تارکین وطن دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اقتصادی تنگی کی وجہ سے نقل مکانی کرتے ہیں ، مثلاً وہ لوگ جو بنگلہ دیش سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے ہیں۔دوسرے وہ جو ظلم و ستم کا شکار ہونے کے بعد جان بچاکر دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ وہ لوگ حقیقی طور پر پناہ کےحق دار ہیں۔ یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ہندوستان کا آئین غیر شہریوں کو بھی آرٹیکل 21 کے تحت حفاظت فراہم کرتا ہے، جس کے مطابق کو ئی بھی شخص ،چاہے وہ ہندوستان کا شہری ہو یا نہ ہو اسے زندگی جینےکا حق حاصل ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ملک میں آنے والے ہر ایک غیر ملکی شخص کی سلامتی کو یقینی بنانا ریاست کا فرض ہے۔

غیر ملکی شہریوں کے حق زندگی کو آرٹیکل 21 میں شامل کیا گیا ہے، جیسا کہ ریاست اروناچل پردیش بنام قومی انسانی حقوق کمیشن کے معاملہ میں بھی مانا گیا ہے ۔ دہلی ہائی کورٹ، کیرالہ ہائی کورٹ، گجرات ہائی کورٹ اور گوہاٹی ہائی کورٹ سبھی نے اس بات کو مانا ہے۔اسی لئے میرا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کا روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دینا اور انہیں واپس بھیجنا آئین کے آرٹیکل 21 کی رو سے سراسر غلط ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں اور ان سے ملک کی سلامتی کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے، تو میرا کہنا ہے کہ آپ کو کسی بھی کمیونٹی کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ان میں دہشت گرد موجود ہیں تو ان افرادکے خلاف کارروائی کا آغاز کریں ،  ایف آئی درج کریں اور تحقیقات کرائیں۔ مرکزی حکومت کو ان لوگوں کے لئے کوئی مزید بہتر اقدام پر عمل کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی بھی تارکین وطن اگر عصمت دری، قتل اور ظلم و زیادتی سے خوفزدہ ہوکر کسی ملک سے نقل مکانی کر کے آتا ہے تو اسے اسی جگہ واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔ روہنگیا مسلمانوں کو واپس بھیجا جانا انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔

قومی آواز ۔ کیا آزادی کے بعد سے اب تک ہندوستان پناہ گزینوں کو ان کے ملک واپس نہ بھیجے جانے کے اصول پر عمل کرتا آیا ہے؟

کولن۔ پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے حوالے سے ہندوستان کافی روادار ملک رہا ہے۔ تاہم کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جب ذیلی عدالتوں نے پناہ گزینوں کو ان کےملک واپس منتقل کیا جہاں سے وہ آئے تھے۔ حالانکہ ایسے کئی فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں نے پلٹا بھی ہے  حالانکہ ہر ایک پناہ گزین اعلی عدالتوں تک رجوع کر پانے کے قابل بھی تو نہیں ہوتا۔


قومی آواز ۔ کیا حکومت روہنگیا مسلمانوں کو منتقل کرنے کا قدم اٹھا سکتی ہے ،جب کہ یہ معاملہ عدالت کے زیر غور ہے ؟

کولن۔ تکنیکی طور پر دیکھیں تو ہاں ،یہ ممکن ہے۔ عدالت جب تک اس معاملہ میں اسٹے آرڈر جاری نہ کر دے ،تب تک حکومت چاہے تو روہنگیا مسلمانوں کو واپس بھیجنے کے فیصلہ پر عمل کر سکتی ہے۔

قومی آواز۔ ہندوستان کی طرف سے اقوام متحدہ پناہ گزین معاہدے پر دستخط نہ کئے جانے کی کیا وجہ ہے؟

کولن۔ میرا خیال ہے کہ ہندوستان نے پناہ گزینوں پر مبنی معاہدہ پر دستخط کئے ہیں یا نہیں یہ بات زیادہ معنی نہیں رکھتی۔ ایسا اس لئے کیونکہ پناہ گزینوں کو خطرے والے ملک میں منتقل نہ کئے جانے کا اصول ایک ایسا بین الاقوامی قانون ہے جس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ بین الاقوامی ضوابط پر عمل کیا جانا چاہئے۔ موجودہ مرکزی حکومت پر یہ بھی الزام لگ رہے ہیں کہ پناہ گزین پالیسی روہنگیامسلمانوں کے تئیں تعصبانہ ہے کیوں کہ دوسرے ممالک مثلاً افغانستان وغیرہ کے پناہ گزینوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یقینی طور پر حکومت کی پناہ گزین پالیسی میں بنیادی فرق آیا ہے۔ ملک اب جس سمت میں بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جب آنے والے وقت میں دیگر ممالک جیسے افغانستان ، اتھوپیا اور صومالہ کے مسلم پناہ گزینوں کو حکومت محض ان کے مذہب کی بناء پر منتقل کرنا شروع کر دے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔