بی جے پی نوجوانوں کو 18ویں صدی کی طرف دھکیلنے پر آمادہ: دھنانی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

’’گائے ہماری ثقافتی شناخت کا حصہ ہے۔ گائے-بچھڑے کے انتخابی نشان پر کانگریس پارٹی نے انتخاب لڑا لیکن کبھی گائے کو سیاسی ایشو نہیں بنایا۔ بی جے پی بے شک گجرات میں چھٹی مرتبہ انتخاب جیت گئی ہے لیکن عوام کے ادھورے عزم 2019 کے انتخابات میں پورے ہوں گے۔‘‘ یہ بیان 41 سالہ پریش دھنانی کا ہے جنھیں کانگریس پارٹی نے گجرات اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنایا ہے۔ اسمبلی انتخابات میں لگاتار تیسری فتح حاصل کرنے والے دھنانی کو کانگریس سربراہ راہل گاندھی کا قریبی تصور کیا جاتا ہے۔ ’قومی آواز‘ کے نمائندہ وشو دیپک نے ان سے خصوصی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات:

وشو دیپک: گجرات اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناطے آئندہ دنوں میں آپ کی ترجیحات کیا ہوں گی؟

دھنانی: دیکھیے، گجرات میں گزشتہ 22 سالوں سے غلط فہمی، خوف اور بدعنوانی کا راج چل رہا ہے۔ ہم نے انتخابات کے دوران ان تینوں کو کافی حد تک لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا، لیکن جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے میں اسمبلی کے اندر کر کے دکھاؤں گا۔ بی جے پی کی ناکام پالیسیوں کے سبب سماج، خصوصاً دیہی علاقوں میں زبردست مایوسی ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ ترقی سے الگ تھلگ پڑ گیا ہے۔ مثال کے طور پر کسانوں کو زراعت کے لیے بجلی نہیں ملی، انھیں پیداوار کی مناسب قیمت نہیں ملتی۔ خط افلاس سے نیچے کے لوگوں کو حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ پسینہ بہانے والے نوجوان بے روزگار ہیں اور بی جے پی کی دست شفقت میں فروغ پانے والا ’دلال طبقہ‘ فائدہ اٹھا رہا ہے۔ غریب لوگوں کو نہ تو علاج مل پا رہا ہے اور نہ ہی تعلیم۔ ایک جملہ میں کہیں تو لوگوں کا درد اسمبلی کے سامنے رکھنا میری اور میری پارٹی کی اولین ترجیحات میں شامل ہوں گی۔

کیا آپ کو امید تھی کہ بی جے پی چھٹی مرتبہ اسمبلی انتخابات جیتے گی؟

امید تو سیاست کابنیادی منتر ہے۔ ہم بھلے ہی شکست کھا گئے لیکن لوگوں کا ذہن اور دل جیتنے میں کامیاب رہے۔ غلط فہمی، خوف اور بدعنوانی کے کھیل میں ایک بار پھر بی جے پی جیت گئی لیکن نظریات کی جنگ میں فتح کانگریس کی ہوئی۔ اب ہماری کوشش یہ ہوگی کہ کانگریس تنظیم کو مزید مضبوطی فراہم کی جائے۔ گاؤں-بلاک سطح سے لے کر ضلع اور شہر کی سطح تک تنظیم کو مضبوطی دینی ہے۔ بزرگ لیڈروں کے تجربات کا فائدہ اٹھانا ہے اور نوجوان لوگوں کو ساتھ لے کر گجراتی عوام کے لیے کام کرنا ہے۔ ہوش اور جوش کو ملا کر ہم ایک ایسی سیاست کھڑی کریں گے جو ایک دن بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر کے رہے گی۔


محض 41 سال کی عمر میں آپ اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ کانگریس سربراہ راہل گاندھی بھی سیاست میں نوجوانوں کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں۔ آپ کے پاس کیا ایجنڈا ہے، نوجوانوں کے لیے پارٹی کے اندر اور پارٹی کے باہر کیا ممکنات ہیں؟

کانگریس پارٹی کے اندر نوجوانوں کو ہر سطح پر آگے لانے کی سوچ راہل گاندھی کی ہی ہے۔ اس کی شروعات انھوں نے کئی سال پہلے کر دی تھی۔ دراصل ان کا مقصد سیاسی ڈسکورس کو بدلنا ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک سیاست میں نوجوان اور جوشیلے لوگوں کو موقع نہ دیا جائے۔ ان کی کوششوں کا اثر نظر بھی آنے لگا ہے۔ تنظیم سے لے کر سوشل میڈیا ڈپارٹمنٹ تک ہر سطح پر پارٹی میں نوجوانوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت گجرات کانگریس میں نوجوانوں کو ہم آگے بڑھائیں گے۔

جہاں تک باہر کے لوگوں کی بات ہے، تو ہم چاہتے ہیں کہ ہر ہاتھ کو کام ملے اور کام کا پورا دام بھی ملے۔ گجرات میں ہر سال ’وائبرینٹ مہوتسو‘ تو ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی حکمرانی میں نوجوانوں کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گجرات میں تقریباً 50 لاکھ بے روزگار نوجوان ہیں۔ انتخابات کے دوران ہم نے بے روزگاری کا ایشو زور و شور سے اٹھایا تھا لیکن بی جے پی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ بی جے پی حکومت میں صرف ’پانچ امیروں‘ کو طاقتور بنایا جا رہا ہے جب کہ نوجوان بے یار و مددگار گھوم رہے ہیں۔ روزگار پیدا کرنے والی چھوٹی صنعتیں اور کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارا ایجنڈا یہ ہوگا کہ نوجوانوں کو کم سود پر قرض دیا جائے اور روزگار پیدا کرنے والی چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو فروغ دیا جائے۔ ہر ہاتھ کو کام ملے اور مناسب قیمت ملے۔

آپ نے غلط فہمی پھیلانے، خوف اور بدعنوانی کی بات کی۔ مودی جی کے پرانے دوست اور وی ایچ پی کے بین الاقوامی کارگزار صدر پروین توگڑیا نے الزام لگایا ہے کہ ان کا قتل کرانے کی سازش تیار کی جا رہی ہے۔ آپ کا کیا کہنا ہے؟

بی جے پی کے دور اقتدار میں ہر سطح پر جمہوریت کمزور ہوئی ہے۔ گزشتہ 22 سال سے اس ریاست میں خوف کا نظام قائم ہے۔ عام آدمی کا تو انتظامیہ سے بھروسہ ہی اٹھ گیا ہے۔ اسی کا ایک نمونہ گزشتہ دنوں دیکھنے کو ملا جب زیڈ پلس کیٹگری کی سیکورٹی والا فرد بھی خوف کے سائے میں تھا اور پریس کانفرنس میں اپنا درد بیان کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھی آ گئے۔

کچھ دن پہلے ہی میں نے ایک خبر پڑھی تھی کہ مکر سنکرانتی کے دن گجرات کے کچھ اسکولی بچوں کو گائے کے ساتھ سیلفی کھینچ کر لانے کے لیے کہا گیا۔ اس پر آپ کا کیا رد عمل ہے؟

گائے ہندوستان کی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ بی جے پی اس طرح کی ثقافتی وراثت کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے؟ کیا بی جے پی کا مقصد گائے کو بچانا ہے یا پھر گائے کے نام پر سیاست کی روٹی سینکنا ہے یا وہ گائے کے نام پر لوگوں کا قتل کرا کر انتخابی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک وقت تھا جب گائے اور بچھڑا کانگریس پارٹی کا انتخابی نشان ہوا کرتا تھا لیکن ہم نے کبھی گائے کو سیاسی ایشو نہیں بنایا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان کو ’عالمی گرو‘ بنانا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت میں گجرات میں 13 ہزار سرکاری اسکول بند ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب تعلیم کی زبردست بازارکاری ہوئی ہے۔ عام آدمی کے بچوں کو اچھی تعلیم ملنا ایک خواب ہو چکا ہے۔ بی جے پی آج کی نسل پر 18ویں صدی کا نظریہ تھوپ رہی ہے۔ بی جے پی-آر ایس ایس کے لوگ نوجوان نسل کو 18ویں صدی کی طرف دھکیلنے پر آمادہ ہیں۔

بی جے پی نوجوانوں کو 18ویں صدی کی طرف دھکیلنے پر آمادہ: دھنانی

آپ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے گجرات کی سیاست میں سرگرم ہیں۔ آپ نے وہ دور دیکھا ہے جب گجرات ماڈل کا محاورہ میڈیا میں اچھلنا شروع ہوا تھا۔ آپ سمجھائیے کہ گجرات ماڈل کی حقیقت کیا ہے؟

گجرات ماڈل کیا ہے؟ دراصل، یہ جھوٹ کو بار بار اور زور زور سے دہرائے جانے کا ماڈل ہے۔ یہ ایک غبارہ ہے جسے جھوٹ کے سہارے پھلایا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غبارہ چاہے جتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو، اس میں کتنی ہی ہوا کیوں نہ بھری ہو وہ ایک نہ ایک دن پھوٹ ہی جاتا ہے۔ کسی بھی غبارے کو پھوڑنے کے دو ہی طریقے ہیں، ایک تو اس میں زیادہ ہوا بھر دی جائے یا پھر چھوٹی سی پن سے اس کو پنکچر کر دیا جائے۔ 2017 کے انتخابات میں گجراتی عوام نے گجرات ماڈل کے غبارے کو پنکچر کر دیا ہے۔ جس گجرات ماڈل سے پورے ہندوستان کو ورغلایا گیا تھا اسی گجرات میں یہ غبارہ پھوٹ چکا ہے۔ اس کی ہوا دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن نکلتی جا رہی ہے۔ پیسہ اور طاقت سے بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا ہے لیکن عوام کے درمیان بی جے پی حکومت پر اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ میرا پورا یقین ہے کہ 2019 کے انتخابات میں عوام کے وہ عزم پورے ہوں گے جو اس وقت ادھورے رہ گئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔