’بی جے پی کو بہار میں شکست فاش کا خوف ہے، اس کے دور رَس اثرات مرتب ہوں گے‘، یشونت سنہا کا خصوصی انٹرویو

یشونت سنہا نے کہا کہ مودی جی نے گزشتہ 12 سالوں میں جتنی سرمایہ کاری امریکہ کے ساتھ رشتوں کو بہتر بنانے میں کی، ویسی سرمایہ کاری انھوں نے ملک میں نہیں کی۔

سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کی فائل تصویر
i
user

ہرجندر

معروف سیاستداں اور سابق مرکزی وزیر مالیات یشونت سنہا جب بات کرتے ہیں تو الفاظ کو چباتے نہیں ہیں۔ بے باک طریقے سے اپنی بات دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں۔ امریکی ٹیرف اور ووٹ چوری کے مسائل پر ان سے ہرجندر نے تفصیلی بات کی۔ یہاں پیش ہیں اس خصوصی انٹرویو کے اہم اقتباسات...

امریکہ کا 50 فیصد ٹیرف 27 اگست سے ہندوستان پر نافذ ہو گیا ہے، آپ اس کا کیا اثر پڑتا دیکھ رہے ہیں؟

معاشی اثر تو نظر آنے لگا ہے۔ ان لوگوں نے یہ ظاہر کرنے کی بہت کوشش کی کہ کوئی اثر نہیں پڑے گا، لیکن وہ جھوٹ ثابت ہوا۔ اب خبر آ رہی ہے کہ تروپور بند ہو رہا ہے۔ نوئیڈا بند ہو رہا ہے۔ سورت میں مسئلہ ہے۔ آگرہ، کانپور، کوئمبٹور سبھی جگہ پریشانیاں ہیں۔ جو ٹیکسٹائل، چمڑا، فارماسیوٹیکل، مرین انڈسٹری جیسی صنعتوں میں کام کرتے ہیں، ان پر زبردست اثر پڑے گا۔ امریکہ کو ہونے والی برآمدات ختم ہو جائے گی۔ جو متبادل ٹھکانے ہیں، وہ اتنی آسانی سے نہیں مل جاتے۔

اس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ لوگوں کی قوت خرید کم ہوگی۔ قوتِ خرید کا ایک کثیر سطحی اثر یہ ہوتا ہے کہ اس سے صارفیت مزید کم ہو جائے گی۔ آگے اثر ملک کی دیگر صنعتوں اور دیگر شعبوں پر پڑنا شروع ہو جائے گا۔ یہ جو کچھ ہوا ہے ایک بہت ہی سنگین معاملہ ہے۔ گودی میڈیا اسے کم تر انداز میں پیش کر رہا ہے۔


اس کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے؟

مودی جی نے گزشتہ 12 سالوں میں جتنی سرمایہ کاری امریکہ کے ساتھ رشتوں کو بہتر کرنے میں کی، اتنی سرمایہ کاری انھوں نے ملک میں نہیں کی۔ خصوصاً ٹرمپ کو لے کر انھوں نے جو کچھ کیا وہ غور کرنے لائق ہے۔ ’مائی فرینڈ ڈونالڈ ٹرمپ‘، یہی تو بولا کرتے تھے وہ۔ جو سرمایہ کاری تھی، وہ ساری کی ساری اب بے کار معلوم ہوتی ہے، بلکہ اس کا منفی اثر ہی پڑ گیا ہے۔ ٹرمپ کسی بات کو لے کر ان سے بہت ناراض ہیں اور اس ناراضگی کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ایسی کیا ناراضگی ہو سکتی ہے؟

ٹرمپ نے جس طرح زیلینسکی کو ڈانٹا تھا، مان لیجیے کہ وہ اسی طرح مودی کو ڈانٹنا چاہتے ہیں۔ مودی جی ان کا فون ریسیو نہیں کر رہے ہیں ڈانٹ سننے کے خوف سے۔ اس سے مزید ناراضگی بڑھے گی ہی۔ وہ سوچیں گے میں اس کو ڈانٹنا چاہتا ہوں، یہ ہماری ڈانٹ سننے کو تیار نہیں ہے۔ دوسری بات، ٹرمپ نے نہ جانے کتنی بار بولا کہ ہندوستان و پاکستان کی جنگ میں نے رکوائی۔ مودی اس بات کو جانتے ہیں کہ شملہ معاہدہ کے بعد سے ہم لوگوں کی قائم کردہ پالیسی رہی ہے کہ کسی تیسرے فریق کو ہند-پاک رشتوں کے درمیان میں نہیں آنے دیں گے۔ حالانکہ معاہدہ کانگریس کے وقت طے پایا تھا، لیکن سبھی حکومتوں نے اسے مانا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان اچانک جنگ بندی ہو گئی تھی، جس نے پورے ملک کو حیران کر دیا۔ ٹرمپ بار بار بول رہے ہیں کہ انھوں نے ہی جنگ بندی کروائی۔ مودی جی کچھ نہیں بول رہے۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ ٹرمپ غلط بول رہے ہیں، یا بہت ادب کے ساتھ کہہ دیتے کہ ایسا نہیں ہوا۔ لیکن وہ نہیں بول رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ جو ہمارے خارجہ سکریٹری ہیں وکرم مسری، انھوں نے اس پر ایک بیان پڑھا تھا جو ہندی میں تھا۔ انگریزی میں کیوں نہیں پڑھا؟ انھوں نے سوچا ہوگا کہ امریکہ والوں کو ہندی آتی نہیں ہے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ وہ ترجمہ کر کے سب کچھ جان لیتے ہیں۔ وہاں بھی یہ لوگ پھنس گئے۔ اب ہر طرح سے مودی جی بری طرح پھنس گئے ہیں۔ ملک میں ان کی حالت کمزور ہو رہی ہے۔ خارجہ پالیسی تباہ ہو گئی ہے۔ اس کا اثر آنے والے دنوں میں نظر آئے گا۔ اس کا سیاسی اثر بھی دکھائی دے گا۔


ان دنوں ملک میں کچھ بہت عجیب چیزیں ہو رہی ہیں۔ مثلاً آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے خلاف بی جے پی کا پورا آئی ٹی سیل جمع ہو گیا۔ ونتارا کے خلاف جانچ شروع ہو گئی ہے۔ انل امبانی کے ساتھ ہر دن کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ کیا دنیائے صنعت سے حکومت کے فارمولے بدل رہے ہیں؟

یہ جو 2 صنعتی گھرانے ہیں- امبانی اور اڈانی... یہ مودی جی کے اے ٹی ایم ہیں۔ اب اس میں ایک ڈیولپمنٹ ہوا، جس کو یہاں میڈیا نے دبا دیا۔ کچھ دن قبل امریکہ کے ٹریزری سکریٹری اسکاٹ بیسنٹ کا ایک بیان آیا تھا۔ روس سے ہم جو خام تیل خریدتے ہیں، یہ اس کے بارے میں تھا۔ اس میں دو تین بہت اہم باتیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے ہندوستان اپنی تیل کی مجموعی خرید کا ایک فیصد سے بھی کم روس سے خریدتا تھا۔ اب وہ 40 فیصد ہو گیا ہے۔ اب ہمارے وزیر خارجہ کہہ رہے ہیں کہ چین ہم سے زیادہ تیل خریدتا ہے روس سے۔ لیکن چین کی خرید 13 فیصد سے بڑھ کر صرف 16 فیصد ہوئی ہے۔ امریکہ کے ٹریزری سکریٹری نے کہا کہ یہ خام تیل ایک صنعتی گروپ کو گیا۔ اس نے سستی قیمت پر خریداری کی اور پھر اسے مہنگی قیمت پر بین الاقوامی بازار میں فروخت کر دیا۔ ان کا اندازہ تھا کہ اس سے اس کمپنی کو 16 ارب ڈالر کا فائدہ ہوا۔ یہ جو روس سے سستی شرح پر تیل کی خریداری ہوئی، اس کا عام صارفین کو کسی طرح سے فائدہ نہیں ملا۔ سارا فائدہ صرف ایک صنعتی گروپ کو ملا۔ اب دوسرا صنعتی گروپ ناراض ہے کہ اس کا فائدہ کرا دیا، ہمارا نہیں کرایا۔ اس کے بعد دونوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔

اِدھر قومی سلامتی مشیر اجیت ڈووال اور وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کے درمیان جھگڑے کی خبریں آ رہی ہیں۔ آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے واشنگٹن میں چیف ہیں جئے شنکر کے بیٹے دھرو جئے شنکر۔ اُدھر انڈیا فاؤنڈیشن میں ڈووال صاحب کے بیٹے شوریہ ڈووال ہیں۔ اس طرح حکومت کی حمایت کرنے والے صنعت کاروں میں زبردست جنگ چل رہی ہے۔ انل امبانی اور ونتارا کے ساتھ جو ہو رہا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت میں امبانی کو اب ترجیح نہیں مل رہی۔ اڈانی کو مضبوط کرنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔

کچھ وقت پہلے تک کئی لوگ یہ مان رہے تھے کہ ای وی ایم ہیک ہو رہی ہے، لیکن اب تو لگتا ہے کہ پورا الیکشن کمیشن ہی ہیک کر لیا گیا ہے۔ یہ معاملہ کس طرف جا رہا ہے؟

ووٹر لسٹ میں خامی پہلے بھی ہوتی تھی۔ میں نے بھی بہت انتخابات لڑے ہیں۔ اکثر یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ کچھ لوگوں کا نام کٹ گیا، کچھ لوگوں کا نام جڑ گیا، کوئی ڈپلی کیشن ہو گیا۔ لیکن یہ بہت کم پیمانے پر تھا، یہ اتنی اہمیت دینے والا معاملہ نہیں ہوتا تھا۔ بہار کا انتخاب اُن کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر بہار کا انتخاب ہارتے ہیں تو اس کے بعد پورے ملک میں انتخاب ہاریں گے۔ ان کی وداعی کی شروعات بہار سے ہو جائے گی۔ اس لیے یہ لوگ بہار کا انتخاب کسی بھی طرح جیتنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ منصوبہ تیار کیا۔ ان کا دماغ بہت شاطر انداز کا ہے۔ انھوں نے سوچا کہ ہر اسمبلی حلقہ میں 20 سے 25 ہزار لوگوں کا نام کاٹ دو۔ یہ ووٹ نہیں دے پائیں گے تو اپنے آپ انتخاب جیت جائیں گے۔ یوپی میں پتہ نہیں آپ نے اس کو کتنا نوٹس کیا کہ وہاں ہر انتخاب میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوتی ہے۔


باوجود اس کے وہاں لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کی حالت خراب رہی!

ہاں، تو آپ سوچیے کہ اگر غیر جانبدارانہ انتخاب ہوتا تو بی جے پی کی مزید کم سیٹیں آتیں۔ یہ وہاں مسلمانوں کو ووٹ دینے نہیں جانے دیتے، پولیس راستے میں انھیں روک لیتی ہے۔ جو بھی ان کے حق میں ووٹ نہیں ڈالے گا، ان کو ووٹ دینے ہی نہیں دیتے ہیں۔ لیکن بہار میں انھوں نے آسان طریقہ اختیار کیا کہ اس کا نام ہی کاٹ دو۔ یہی ووٹ چوری یہ کر رہے تھے، لیکن پکڑ لیے گئے۔

حالات اتنے خراب ہیں تو راستہ کہاں سے نکلے گا؟

راستہ وہی ہے جو راہل گاندھی نے پکڑا ہے۔ راستہ یہی ہے کہ عوام سڑک پر اترے۔ اس کی مخالفت ہو اور ان کو اقتدار سے باہر کیا جائے۔


تو کیا یہ باقی مقامات پر بھی ہوگا؟

بالکل، ہو رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہہ دیا ہے کہ ہم بنگال میں ایس آئی آر کریں گے۔ وہاں پر بھی تحریک ہوگی۔ آسام کے وزیر اعلیٰ بلا رہے ہیں کہ آسام میں بھی کرو۔ وہاں بھی تحریک ہوگی۔ اب راہل گاندھی نے بہار جا کر جو راستہ دکھایا ہے، اسی پر سب چلیں گے۔ ایک کہاوت ہے– مستقل مستعدی ہی آزادی کی قیمت ہوتی ہے۔ یہ قیمت ہمیں ادا کرنی ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔