آج ملک کا ماحول بہت خراب ہے :ٹی ایم کرشن

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

بھاشا سنگھ

.

کرناٹک کی موسیقی کے مقبول و معروف چہرہ، مشہور گلوکار اورموسیقار ٹی ایم کرشن کو اندرا گاندھی ایوارڈ فار نیشنل انٹیگریشن 2015-16 سےحال ہی میں نوازا گیا ۔انھوں نے موسیقی کے ذریعہ سماج کی برائیوں کے خلاف، خصوصاً ذات پات اور مذہبی شورش پسندی کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔شاستریہ سنگیت کو برہمن ذات کی بالادستی سے باہر نکال کر عام لوگوں تک پہنچانے کےلیے تجربات کیے اور اس کوشش کے لیے انھیں 2016 میں رمن میگسیسے ایوارڈ دیا گیا۔آج بھی وہ موسیقی کو سخت چیلنج پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ ان سے بھاشا سنگھ نےتفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہیں ان سے بات چیت کے اہم اقتباسات:

بطور اداکار آپ موجودہ سماجی و سیاسی اور ثقافتیماحول کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

ہندوستان میں ہمیشہ سے ہی غلبہ والے طبقہ کی ثقافت کا بولبالا رہا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ بی جے پی کی حکومتہو یا نہ ہو، اقتدار نے ہمیشہ سے اونچی ذات کی ثقافت کو ہی ترجیح دی ہے، اسے ہیفروغ دیا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ کہنا لازمی ہے کہ آج کا ماحول بہت خراب ہے، پریشانکن ہے۔ حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کے ساتھ مل کر فن اور ثقافت کے ذریعہاعلیٰ ذات کی پہچان کو قومی ثقافت کا اہم عنصر بنا رہی ہے۔ سیاست میں اعلیٰ ذاتوںکے بول بالے کی یہ ثقافتی دعویداری ہو رہی ہے۔ ہندوستان میں چونکہ مذہب اور ثقافتمیں گہرا اور پیچیدہ رشتہ ہے، لہٰذا ان کے لیے یہ آسان ہے۔ ایک ملک، ایک ثقافت،ایک مذہب، ایک رنگ کو ہی قومی شبیہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یعنی کئی ثقافتوں کی جگہ ایک ثقافت کو ہی ہندوستانیپہچان سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ اس سے ہمارے ملک کی روح ختم ہو رہی ہے۔


حب الوطنی ثابت کرنے کا بھی بہت شور ہے...

جی، سب کو اور خصوصاً اقلیتوں اور حاشیہ پر رہنے والے لوگوں کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ دراصل ہندوستان اورہندوستانیت کو ایک خاص قسم کی ثقافت سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ قوم پرستی کا انحصاربھی اسی پر کیا جاتا ہے۔ آج اعلیٰ ذات ہندوؤں کا نظریہ، اعلیٰ ذات کا ثقافتی نظریہ، اعلیٰ ذات کی قومی شناخت اور اب اسی طرح حب الوطنی کی نشر و اشاعت کی جا رہی ہے۔ ملک سے ہمارے رشتے کو تنگ کر کے اسے ذات و مذہب تک محدود کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک ہے۔

اس کا فن و ثقافت پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟

فن و ثقافت کے شعبہ میں جو رنگا رنگی ہے وہ خود بخود ختم ہورہی ہے۔ خصوصاً اگر ہم دلت موسیقی، فن اور ثقافت کے مدنظر دیکھیں تو اور زیادہواضح ہوتا ہے۔ یہ پہلے سے حاشیے پر ہیں اور اب اقتدار سے سیدھے بالادستی اور اعلیٰذات والی ثقافت کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور دلت و حاشیہ پر کھڑے لوگوں کیثقافت کو پوری طرح سے مٹایا جا رہا ہے۔ ایک ہی طرح کی آواز، ایک ہی طرح کی دھن کو’قومی‘ بنایا جا رہا ہے۔

اس وجہ سے مخالفت کے کلچر( جو کہ حاشیہ سے متعلق سماج میں خوب موجود ہے) کو ختمکرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ اعلیٰ ذات کی ثقافت اور فن، سماجی-سیاسی مخالفت کی قیادت کرے، یہ فن وہ نچلے طبقہ سے ہی حاصل کرتے ہیں۔ ایساڈرامہ اورتحریر میں تو خوب ہوا ہے لیکن شاستریہ سنگیت اور رقص میں نہیں۔ رائٹ وِنگ طاقتیں اعلیٰ ذات پر مبنی ہندو ثقافت کو قومی ثقافت کی طرح پیش کر کے دراصل مخالفت کی اس ثقافت کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔

آر ایس ایس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک ثقافتی تنظیم ہےاور وہی صحیح معنوں میں ہندوستانی ثقافت کی عکاسی کرتا ہے...؟

آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان رشتہ کو صحیحطریقے سے سمجھنا ضروری ہے۔ آر ایس ایس آزادانہ طور پر کام کرتا ہے۔ کسی بھیسیاسی تنظیم کے پاس آر ایس ایس جیسی نام نہاد ثقافتی تنظیم نہیں ہے جو اتنی زیادہزمین میں دھنسی بھی ہو اور پھر بھی سیاسی پارٹی کی ہدایت کے مطابق کام کرنے کیبجائے اس کو ہدایت دیتی ہو۔ لیفٹ وِنگ کی ڈرامہ و رائٹر تنظیمیں ہیں لیکن وہ سیاسیپارٹی کی ہدایت پر نہیں چلتی ہیں اور ان کی پہنچ بھی چھوٹی ہے۔ آر ایس ایس اپنیشاخوں اور کارروائیوں کے ذریعہ ایک اعلیٰ ذات کی ثقافت کو تمام شہریوں کے لیے بہتپرکشش انداز میں پیش کر رہی ہے۔ دلتوں اور محروموں کے لیے بھی وہ اس ثقافت کوبہترین بتا کر پیش کر رہی ہے۔ سیاست کی بھگواکاری کے ساتھ ساتھ ثقافت کی بھگواکاری ہو رہی ہے جو ہندوستان کی اصل شناخت کے بالکل خلاف ہے۔

اس بھگوا اعلیٰ ذات کی بالادستی والی ثقافت کے مقابلکون ہے، اس کو ٹکر کون دے گا یا دے رہا ہے؟

مجھے لگتا ہے کہ صرف دلت تنظیمیں ہی اسے چیلنج پیش کر سکتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی آر ایس ایس کی طرح طبقاتی شکل میں کام کرتی ہیں۔ ان کیروایت مزاحمت کی ہے اور ان کی ثقافت مخالت کی۔ دقت یہ ہے کہ ہم نے کوئی متبادل پالیسی تیار نہیں کی ہے۔ ہمیں ایک ثقافتی مزاحمتی متبادل راستہ بنانا ہوگا تاکہ کثیر ثقافت کا ہندوستانی نظریہ باقی رہے۔

ملک میں عدم برداشت کا ماحول بڑھ رہا ہے، لوگ الگ نظریہ،الگ سوچ کو برداشت نہیں کر رہے ہیں۔ ایسے میں کیا بطور فنکار آپ پر بھی اثر پڑاہے؟

بے شک۔ سیاسی لیڈر تشدد اور تشدد پسند سوچ کو فروغ دے رہےہیں۔ لوگ آپ کو کس طرح دیکھتے ہیں، اس میں بھی تشدد ہے۔ دھمکیاں جان سے مارنے کیہوتی ہیں۔ مار  بھی رہے ہیں۔ گوری لنکیشاسی کا شکار ہوئی۔ ڈرانے والا ماحول قائم کیا جا رہا ہے۔ اسی خوف کے کلچر کے خلافراستہ بنانا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔